انقلاب کا مچھر

بدھ 6 اگست 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

امکانات سے بھرپور ایسی پیچیدہ کائنات میں زمین جیسے ذرے برابر اجرامِ فلکی پر پاکستان مانند تیسری دنیا کے قدامت پسند ملک میں ایسی ایسی نابغہ روزگار ہستیاں آباد ہیں کہ رہے رب کا نام ! ایسے مطلق العنان دماغ اور ایسی حتمی سوچ کہ قوانینِ کائنات بھی شرما جائیں۔ پاکستان ایک ایسا خطہِ ارض ہے جہاں کوئی بھی شخص معمولی کام کرنا ہی نہیں چاہتا۔

سب کو بڑے بڑے کام سر انجام دینے ہیں۔ انقلاب اور نظام کی تبدیلی سے نیچے کوئی شیر کا بچہ بات کرنے پر تیار ہی نہیں ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کی باتیں سن سن کرکلیجہ منہ کو آنے لگا ہے اور کڑے دل سے نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ دراصل پاکستان میں انقلاب اس مچھر کا نام ہے جو ہر اس شخص کے کان میں بھنبھنائے چلا جاتا ہے جو اپنے آپ کو ماؤ زِ تنگ یا کمال اتا ترک سے کمتر درجے پر فائز کرنے اور انقلاب سے کم قوم کی خدمت کرنے پر تیار نہ ہو ۔

(جاری ہے)


اس نظام کو گالی دینا، جمہوریت کو کوسنا، اسے نقلی اور جعلی جمہوریت قرار دینا، عوام کے ووٹوں کی تضحیک اڑاتے ہوئے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دینا، اسے بادشاہت سے منصوب کرنا انتہائی آسان کام ہے۔ مشکل ہے تو اسی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا اور نظام کو تسلسل سے چلاتے رہنا۔ نظام تخلیق کرنے والے پیشہ ور حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی بھی نظام استعمال کنندگان کی ضروریات کے پیش نظر جب کسی بھی مقصد کی تکمیل کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے تو امکانات انتہائی معدوم ہوتے ہیں کہ وضع کردہ نظام استعمال کنندگان کی تمام تر ضروریات پوری کر دے اور نقائص سے صد فیصد پاک ہو۔

نظام کی تخلیق و تعمیر ارتقائی عمل سے گزرتی ہے۔ نظام نافذ ہوتا ہے، نقائص کی نشاندہی ہوتی ہے، متبادل حل تلاش کئے جاتے ہیں، بہترین میسر حل کو اسی نظام میں شامل کیا جاتا ہے، نتائج کا تجزیہ کیا جاتا ہے ، ضرورت پڑے تو مزید تبدیلی کی جاتی ہے اور یوں نظام درجہ بہ درجہ بہتر سے بہتر انداز میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی بھی نظام میں ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔

کسی بھی نظام کو حل کئے جانے کے قابل نقائص کی موجودگی کے باعث یکسر رد کر دینا کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ قیمتی وقت ، پیسے اور جد و جہد کے ضیاع کے ساتھ ساتھ نئی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔
نئے نظام اور نئے پاکستان کا شور مچانے والوں کے پاس بھی ہوائی قلعوں اور رنگین باتوں کے علاوہ کوئی ٹھوس متبادل نظام نہیں ہے! ان سے پوچھا جائے کہ یہ جعلی جمہوری نظام نہیں تو کیا خالص فوجی آمریت چاہیے، خالص فوجی آمریت نہیں تو کیا انقلاب اور تبدیلی کے نام پر خانہ جنگی چاہیے، خانہ جنگی نہیں چاہیے تو ایسا کون سا انقلاب ہے جو کشت و خون بہائے بنا آتا ہے! میں کم علم ہوں میری مدد کیجئے گا۔

کیا انقلاب کے بعد ایک نئے مطلق العنانیت کے دور کا آغاز نہیں ہوتا؟ حقیقی پر امن تبدیلی تو وہ تھی کہ جب عوام نے پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دے کر پاکستان کی تیسری سیاسی قوت کے طور پر ابھارا تھا لیکن ہوا کیا؟ کون سی تبدیلی آئی؟ اگر خیبر پختونخوا نئے پاکستان کا پروٹو ٹائپ ہے تو خدا سے خیر مانگتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنی غلطی معاف کر دینے کی درخواست کردینی چاہیے۔

اس جماعت کو اپنے منشور میں درج کرنا چاہیے کہ یہ ایسا نیا پاکستان بنانے کے خواہاں ہیں جہاں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو سیاسی قوت فراہم کی جائے گی، دہشت گردوں کے دفاتر بڑے بڑے شہروں میں کھولے جائیں گے، عدم برداشت کا بازار گرم ہو گا،نوجوانوں کا کام صرف دھرنے دینا ہو گا، معیشت دگر گوں ہو گی، بڑھکیں ہو گی، دھمکیاں ہوں گی، اقتدار کی رسہ کشی اور مطلق العنانیت کا دور دورہ ہو گا۔


پارلیمان میں موجود ہونے کے باوجود نظام کو رد کر دینے والے حضرات محض اس بات پر ملک کی بنیادیں ہلا دینے پر تلے بیٹھے ہیں کہ چونکہ ان کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ نظام کو اپنے مطابق آئینی طریقے سے تبدیل کر سکیں تو لے دے کر ان کے پاس یہی ایک رستہ بچا ہے اپنی بات منوانے کا! ایسی حکمت ایسی معاملہ فہمی ایسی فراست آخر آتی کہاں سے ہے؟احمق پھپھوندوی صاحب درست فرما گئے کہ:
حماقت کی بھی قدر ہوتی ہے احمق ہمیں دیکھئے کتنے مشہور ہیں ہم
14 اگست کو کیا ہو گا اور کیا نہیں اس کے بارے میں صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے ۔

باقی پاکستان تحریکِ انصاف سے کسی عقل و دانش اور تحمل کی امید رکھنا حماقت ہے۔محب الوطن جماعت اپنے ٹریک ریکارڈ کے عین مطابق ایک مرتبہ پھر انتشار اور انارکی کی سیاست پر عمل پیرا ہے اور مقصد وہی پرانا ہے جلد از جلد کرسی کا حصول۔ حکومت کی بات کریں تو طاہر القادری کے معاملے پر ضرورت سے زیادہ ردِ عمل دکھا کر جو غلطی کی گئی تھی وہی غلطی اب بھی دہرائی گئی ہے۔

سیاسی معاملات سے فوج کو ہر ممکن طریقہ سے دور رکھنا ہی عین دانش مندی ہے پر آرٹیکل 245 کا نفاذ کر کے فوج کو سیاسی تصادم میں گھسیٹ لینا فی الوقت مناسب فیصلہ معلوم نہیں ہوتا۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ایک لانگ مارچ انہوں نے بھی کی تھی اور پیپلز پارٹی نے اس موقع پر معاملہ سیاسی طور پر حل کر لیا تھا ! پاکستان تحریکِ انصاف کے مطالبات جو حد درجہ جارحانہ اور قائیدین کے رویے سخت گیر ہیں تو بظاہرنہیں لگتاکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پرمعاملات طے پا جائیں گے! اگر بات نظام پر آئی اور تصادم کی سی صورتحال پیدا ہوئی تو پاکستان تحریکِ انصاف کے سیاسی طور پر تنہا رہ جانے کے قوی امکانات ہیں۔

لولا لنگڑا ساتھ بچے گا تو مریدین کو مرنے مارنے پر اکسانے والے قادری صاحب کا، سیاسی طور پر دفن شدہ ق لیگ کا اور انقلابی گھوڑے پر ایک ٹانگ سے کھڑے ہو کر قلابازیاں لگانے والے شیخ صاحب کا۔
فیصلہ خان صاحب کو کرنا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ نظام پر تلوار لٹکانے کے بجائے33 رکنی کمیٹی کے ذریعہ نظام میں بہتری کے لئے کام کریں اور رہی بات اقتدار تک پہنچنے کی تو خیبر پختونخوا کوآنے والے چار سال میں ایسا مثالی صوبہ بنا کر دکھائیں کہ پاکستان کی عوام کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان تحریکِ انصاف کو اگلے انتخابات میں ووٹ دینے پر مجبور ہو جائے۔پھر حکومت بھی آپ کی اور نظام بھی آپ کی مرضی کا!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :