دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے

بدھ 6 اگست 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پٹواری کے چیخنے چلانے اور ظلم ظلم کی صدائیں بلند کرنے کے باوجود پنجاب حکومت بڑی بے رحمی سے پنجاب بھر میں تیزی سے محکمہ مال کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈکرتی چلی جا رہی ہے۔ہمیں اُستاد اللہ دتہ صاحب کا ڈنڈا جس محاورے کا مفہوم ذہن نشین نہ کرا سکا اب پٹواری کے چیخنے چلانے پرسمجھ میں آ گیا ہے۔ہم ہاتھ نہ پہنچے تھو کڑوا کے محاورے کو نہ سمجھنے کی پاداش میں اتنے دفعہ مرغے بنے کہ خواب میں بھی ککڑوں کوں کرتے ہوئے گھر والوں سے بیسیوں دفعہ جگائے گئے۔

اب بغیر سمجھائے سمجھ آ گیا ہے کہ اس محاوے کا مفہوم کیا ہے۔ پٹواری کہتے پھر رہے کہ ہندوستان کی حکومت نے محکمہ مال کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کر کے دیکھ لیا ہے۔اب ناکام ہو کے پھر پٹواریوں کو بلا بلا کر اُ نہیں پٹوار کے بستے
واپس کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

پٹواریوں کا کہنا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کو منہ کی کھانی پڑے گی اور ہمارے چھینے ہوئے بستے جلد واپس کرنے پڑیں گے۔

پرائمری کے وقتوں میں ہمارے ایک ہم جماعت نے نقل نہ کروانے کی پاداش میں ہمارا بستہ چھین لیا تھا، ہم تین چار دن تک منت سماجت کرتے رہے اور پھر بے ضرر سے دھمکی دینے لگے کہ تمہیں یہ بستہ واپس کرنا پڑے گا لیکن اُس نے بستہ واپس نہ کیا۔ہم نے ایک دن اُس کی بغل میں اپنے بستے کو دیکھ کر اُس پر تھوک دیا۔ اُس لڑکے سے ناک پر ہاتھ رکھ کر کہا گندا کہیں کا تھوک والا بستہ اٹھائے پھرتا ہے۔

اب پٹواریوں کو بھی چاہیے کہ بستے پر تھوک کر حکومت کے حوالے کر دیں اور اس تھوکے ہوئے بستے کو واپس لینے کا خیال دل سے نکال ہی دیں۔پٹواریوں نے پہلے تو دبا دبا احتجاج کیا کہ محکمہ مال کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کئے جانے سے حکومت انتخابات نہیں کر وا سکے گی۔اب دل کی بات بھی پٹواری کرنے لگے ہیں کہ ہمارے بچے جدید سہولیات سے محروم ہو جائیں گے ۔

اُن کی ذہانت اور صحت پر بہت برا اثر پڑے گا اس طرح سیاست دان بادشاہ گر ابن بادشاہ گروں سے محروم ہو جائیں گے۔پٹواریوں کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کی مشینیری کی گراریاں ہیں۔گراریوں کے نکالنے کے بعد میشینری کیسے چل سکے گی۔ ہماری سابقہ خدمات کو نظر انداز کر کے ہمیں اوپر کی آمدنی سے محروم رکھنا گویا مشینری کوموبل آئل سے محروم رکھنا ہے۔ گورنمنٹ نے انہیں یقین تو دلایا ہے کہ دل چھوٹانہ کرو ہم ریکاڑد کے کمپیوٹرائزڈ ہو جانے کے بعد بھی تمہیں تنخواہ سے محروم نہیں کریں گے لیکن گورنمنٹ اُس تنخواہ کے دینے کی بات کر رہی ہے جو وہ خیرات کر دیتے تھے۔

پٹواریوں کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے پنجاب گورنمنٹ ہمیں بے روزگار نہیں کرے گی لیکن زمیندار اور پٹواری کے درمیان جو ایک محبت کا رشتہ ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔زمیندار پٹواری کو خاندان کا ہی ایک فرد سمجھتا ہے اور فصل کے پکنے پر اس کا حصہ ضرور نکالتا ہے۔گندم پک کر تیار ہوتی ہے تو پٹواری کا حصہ اُس کے گھر بھجوا دیا جاتا ہے۔چاول تیار ہوتے ہیں تو چاول پٹواری کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔

پٹواری زمینداروں کا دوسرا پیرہوتا ہے۔پٹواری کے مہمان آئیں تو کسانوں کے دیسی مرغے اذان دینا بند کر دیتے ہیں کہ نہ جانے اب کس کی باری آتی ہے۔ پٹواری کے ڈنگروں کے فروٹ سالٹ استعمال کرنے کی وجہ سے گاؤ ں بھر میں فروٹ سالٹ نہیں ملتا۔ اب پٹواری کو تنخواہ تک رکھنا حکومتی مشینری کے پرزے کو بغیر موبل آئل کے چلانا نہیں تو اور کیا ہے۔پٹواریوں کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ محکمہ مال کی بے توقیری کر رہی ہے۔

یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہر شخص اپنے موبائل سے گھر بیٹھے اپنی زمین کا ریکارڈ چیک کر لے گا۔ایک وقت تھا فرد یں اور رجسٹریاں پنجاب گورنمنٹ کے انتظام و انصرام چلایا کرتی تھیں۔ گورنمنٹ کاکوئی جلسہ کرنا ہوتا تو اُس کا سارا انتظام پٹواری کرتا تھا۔ اگر کمشنر یا کسی وزیر کا دورہ ہوتا تو اخراجات پٹواری برداشت کرتا تھا۔اگر آئی ڈی پیز کے لئے فنڈ اکٹھا کرنا ہو تاتو پٹواری کر دیتا تھا۔

سیلاب سے متاثرین کے لئے فنڈ اکٹھا کرنا ہو تا تو پٹواری کام آتا تھا۔بڑے افسران کی آمد کے انتظامات پٹواری کرتا تھا۔پٹواری
الہ دین کا چراغ تھا رگڑنے سے ہر چیز حاضر کر دیتا تھا۔پٹواریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے محکمہ مال کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کر کے افسروں کے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ہمیں اب بھی کسان پیری مریدی میں فصل کا حصہ بھیجتا رہے گا لیکن بڑے افسران کے لئے فنڈ کو ہضم کرنے میں دشواریاں پیش آئیں گی۔

پٹواری اب کمپیوٹر اپریٹر کو دیکھ کر تھوک دیتے ہیں اور منہ سے بھی کہتے ہیں ہوں تھو کڑوا۔پٹواریوں کا کہنا ہے کہ یہ دو دو ٹکے کے چھوکرے اب فردیں دیا کریں گے ’ہوں‘۔کسان منہ اٹھائے چلے آئیں گے اور فردیں لے کر دندناتے ہوئے واپس چلے جائیں گے، گویافردیں نہ ہوئیں گنیریاں ہو گئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :