” ن لیگ کی سیاست“

بدھ 6 اگست 2014

Haroon Adeem

ہارون عدیم

آج کا دن ملکی سیاست میں سیاسی بھونچال کے خدو خال کو بڑی حد تک واضح کر گیا۔ ایک طرف تو جناب شیخ الاسلام مولانا طاہر القادری نے انقلاب سے ہاتھ کھینچ کر 10 اگست کو سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے شہدا کا چہلم منانے کا اعلان کیا۔وہ اس کا اعلان کرتے ہوئے نہ برسنے والے بادلوں کی طرح خوب گرجے اورچمکے،لگتا ہے کہ ایف آئی اے نے ان کے کس بل نکال دیئے ہیں،انہوں نے پنجاب اور وفاقی حکومت کو جو دھمکیاں دیں اور جس لہجے میں دیں صاف لگتا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں یا تو ان کے گھر پر نظر بند کر دے یا پھر جیل میں مہمان بنا کر رکھے۔

وہ اس لئے کہ انقلاب مارچ یا دھرنے کی ناکامی سے بچنے کا صرف یہی ایک رستہ بچا ہے۔ یہ راستہ بھی انہوں نے حکومت سے سیکھا ہے۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ن لیگ خود بار بار ایسے مواقع پیدا کر رہی ہے کہ مارشل لاء لگ جائے، کیونکہ اس کی سیاسی ساکھ اب صرف اسی ایک طرح سے بچ سکتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ اس لئے کہ ن لیگ کی حکومت نہ تو لوڈ شیڈنگ ختم کر سکی ہے، نہ مہنگائی پر کنٹرول کر پائی ہے ،نہ امن و امان کی صورتحال بہتر بنا سکی ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسا کرنے کی استعداد یا صلاحیت ہے۔

خود وہ اس کا اعتراف کر نہیں سکتی کیونکہ وہ اس کی سیاسی موت ہو گی،لہٰذا اس کے پاس اپنی سیاست کو بچانے کا صرف ایک ہی رستہ بچتا ہے کہ مارشل لاء لگ جائے اور وہ عوام کو بتا سکیں کہ ان کی حکومت چلنے نہیں دی جاتی، اگر وہ پانچ سال اقتدار میں رہتے تو اس ملک کی تقدیر(ملک سے مراد ان کی اور ان کے خاندان کے لوگ ہیں)بدل دیتے۔لیکن لگتا ہے کہ عسکری قیادت نے بھی یہ ٹھان لی ہے کہ ن لیگ کی حکومت سو پیاز بھی کھائے۔

اور تب تک ملٹری بینڈ یہ دھن بجائے کہ ”یہ دیس ہمارا ہے،اسے ہم نے بچایا ہے ۔“
جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ 10 اگست کو 2008 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے ذمہ دار چہروں کو قوم کے سامنے بے نقاب کریں گے، اور14 اگست کا ”آزادی مارچ“ ہر صورت میں ہو گا۔انہوں نے بھی جناب شیخ الاسلام کی طرح پولیس کو متنبہ کیا کہ وہ تحریک کے کارکنوں کو روکنے کی کوششوں سے باز رہیں۔

ورنہ ان کا انجام بھی ویسا ہی ہو گا جیسا وہ ورکروں کا کریں گے۔
دوسری جانب حکومتی ترجمانوں نے ان کے رد عمل میں جو دانش کے موتی بکھیرے ہیں، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے چاہئیں۔ان ترجمانوں میں سر فہرست وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے فرمایا ہے کہ پاکستان ان کے بزرگوں نے سیاسی تحریک کے نتیجے میں حاصل کیا تھا نہ کہ لانگ مارچوں اور دھرنوں کے نتیجے میں۔

انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ن لیگ کے ورکر مہذب لوگ ہیں، وہ الزام تراشی اور توڑ پھوڑ کی سیاست نہیں کرتے۔ماشاء اللہ !پاکستانیوں کواس بات کا پتہ نہیں تھا، کہ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو ایک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں حاحل کیا تھا، اور یہ کہ لانگ مارچ اور دھرنے(اگر ن لیگ نے کرے اور دے)تو وہ سیاسی اور آئینی نہیں۔ شاید جناب پرویز رشید صاحب بھول گئے ہیں کہ ان کے لیڈر اور ان کی جماعت بی بی شہید کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرتے رہے ہیں، ابھی ماضی قریب میں بھی وہ ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کر چکے ہیں،وہ تو بھلا ہو جنرل کیانی کا کہ جن کی فون کال نے ان کو گوجرانوالہ میں ہی اسے ختم کرنے پر مجبور کردیا۔

ورنہ وہ اسلام آباد ضرور جاتے۔ وہ شاید یہ بھی بھول گئے کہ وہ آصف زرداری کے خلاف ایوان صدر کے باہر دھرنا دے چکے ہیں۔اور اس بات کو تو وہ یاد بھی نہیں کرنا چاہیں گے کہ نومبر2008 میں ہی ان کی پارٹی نے پی پی پی حکومت سے درمیانی مدت کے انتخابات کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا۔وہ صرف اس لئے کہ مارچ2009 میں سینٹ کے انتخابات آ رہے تھے اور پی پی پی کو سینٹ پر مکمل اختیار ملنے والا تھا۔


جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے تو انہوں نے بی بی شہید کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے دوران پنجاب پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ پنڈی میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے بی بی کو فیض آباد تک محدود کر کے محصور کر دیا ہے۔انہوں نے دو صدور جناب غلام اسحاق خان اور جناب فاروق لغاری سے لڑائی مول لی۔جنرل جہانگیر کرامت،جنرل پرویز مشرف سے بھی لڑائی مول لی،اس وقت کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ سے لڑائی لی۔

یہ سب عمل عین جمہوریت کے مطابق تھے۔کیونکہ جمہوریت سے ان کی مراد شاید لا محدود اختیارات اور نہ تو پارلیمنٹ کو جوابدہی ہے اور نہ ہی عوام کو۔
اب آیا مسئلہ ن لیگ کے کارکنوں کے مہذب ہونے اور توڑ پھوڑ نہ کرنے کا،تو یقینا ایسا ہی ہو گا، پھر شاید یہ ن لیگ کی قیادت ہے جس نے ان سے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا، جنہوں نے گلو بٹ پیدا کئے۔جن کے ممبران پارلیمنٹ تھانوں پر حملے کر کے اشتہاری ملزموں کو چھڑوا لیتے ہیں۔

بسوں میں بس کی میزبان پر صرف اس لئے تشدد کرتے ہیں کہ وہ ان سے پہلے کسی دوسری سواری کو پانی پلا دیتی ہے۔ اب امید ہی کی جا سکتی ہے، جب عمران خان اور ان کی جماعت اسلام آباد میں چند روز دھرنا دیں گے تو ن لیگ کے کارکن پرویز رشید صاحب کو سچا ثابت کرنے کے لئے ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیں گے۔ایسا صرف سوچا جا سکتا ہے۔کیونکہ مسلم لیگوں کی ماں پاکستان بنانے والی جماعت نے ہی یہ روایات ڈالی تھیں۔

قومی سیاست میں تشدد کی داغ بیل ڈالی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد جس نے مسلم لیگ پر تنقید کی اسے غدار قرار دے کر اسمبلی سے باہر پھینکوا دیا گیا۔لوگوں کو مارا پیٹا گیا۔حد تو یہ ہوئی کہ وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان نے ایک پبلک میٹنگ میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر جناب سہروردی کو کتا تک کہا۔ جس پر تب نوائے وقت نے عبدالمجید کا ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ” جناب وزیر اعظم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ بھونکنے والے کتے کبھی کبھی کاٹ بھی لیتے ہیں“۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلے انتخابات میں مسلم لیگ نے اسقدر دھاندلی کی کہ اردو لغت کو”جھرلو“ کا لفظ دے گئی۔
جو بات ہم عرض کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ وقت یہ ظاہر کرنے کا نہیں کہ حکومت کتنی مضبوط ہے، اور اسے ان دھرنوں یا مارچوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں۔یا جو بھی ان دھرنوں یا مارچوں میں شمولیت اختیار کرے گا وہ غیر ملکی قوتوں کا ایجنٹ یا آلہ کار ہے۔

جب سارا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا چوبیس گھنٹے یہ شور مچا رہے ہوں کہ یہ پاکستانی شہریوں کا نہ صرف آئینی اور جمہوری حق ہے بلکہ بنیادی حق بھی کہ وہ جلسے جلوسوں اور ایسے مارچوں اور دھرنوں میں حصہ لیں۔ اور تمام سیاسی جماعتیں بھی یہی راگ الاپ رہی ہوں تو ایسے میں حکومتی موٴقف کو کون پذیرائی دے گا۔ ابھی وقت ہے، جناب پرویز رشید، جناب سعد رفیق،جناب عابد شیر علی اور پنجاب کے رانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جو زبان اور لہجہ وہ اپنائے ہوئے ہیں ،اور جو منطق ان کے پاس ہے اس سے معاملات صرف الجھیں گے، حل نہیں ہونگے۔

یا پھر معاملہ وہی ہے کہ حکومت خود ہی اپنی حکومت پر خود کش حملہ کرنا چاہتی ہے۔اور چاہتی ہے کہ فوج آ جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فوج سو گنڈے کھلائے بنا کیاان کا کام آسان کر دے گی۔۔۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :