فلسطینی بھائیوں کا قتل عام اورہماری اجتماعی بے حسی !

پیر 4 اگست 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

دنیائے اسلام کے تمام مسلمانوں کو جسم واحد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کہ جیسے جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر دُنیاکے کسی حصہ میں کسی کومسلمان کوکو ئی تکلیف پہنچے تو ہر مسلمان کو اپنے بھائی کے لئے بے چین ہوجانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ مگر آج کے حالات میں دُنیا کے تما م مسلمانوں کوبحیثیت قوم دیکھا جائے توانتہائی دُکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جس کے حکمران ، غیروں کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔

جو اپنے ہی ہمسائے اور بھائی کے مارے جانے پرخاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کہ جیسے یہ سب کچھ صرف انہیں تک محدود رہے گا اور ہمارے ساتھ تو حالات نے عہد کرلیا ہے کہ تم پرمہربان رہیں گے اورتم ہمیشہ فراخی ، عیش وعشرت اور سہولت میں رہوگے۔

(جاری ہے)

تم پر کبھی بھی سخت وقت اور آزمائش نہیں آئے گی۔ حالانکہ قرآن کہتاہے کہ یہود ونصاریٰ تمھارے کھلم کھلادشمن ہیں۔


وائے ناکامی متاع ِ کاروں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اقوام ِمتحدہ اور نام نہاد عالمی حقوق ِانسانی کی تنظیمیں دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔یہ تمام عالمی ادارے دُہرامعیار اپنائے ہوئے ہیں۔جو ادارہ انسانوں کی فلاح وبہبود کے لئے گراں قدر خدمات انجام دینے کے لئے بنایا گیا تھا آج بے ضمیر افراد اور اقوام کی ملکیت بن چکا ہے ۔

گزشتہ عرصہ سے فلسطین کے مسلمان مردوں،عورتوں،بچوں کو جس بے رحمی اوراندھا دھند بم باری سے قتل عام کیا جارہا ہے اس دُکھ والم اور قیامت کی گھڑی میں ان دکھلاوے کے امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پوری دُنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں ، مذہبی اور سیاسی راہنماوں کی اس درندگی اور انسانیت سوزحالات پرخاموشی سمجھ سے بالاتر اورانتہائی شرم ناک رویہ ہے۔

دن رات عام شہری آبادی پر بم باری سے سینکڑوں فلسطینی عورتوں،ضیف مردوں اورمعصوم بچوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔اب تک اتنے ظلم اور بربریت کے باوجود کسی اسلامی ملک کی جانب سے ردِ عمل کے طورپر مناسب طریقے سے احتجاج تودور کی بات ہے،فلسطینی بھائیوں کی ہمدردی میں مناسب اور واشگاف الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی گئی۔دُنیائے اسلام کے حکمرانوں کی فلسطین کے مظلوم مسلمان بھائیوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظالم پر مصلحتاً خاموشی اور بے حسی اسرائیلی یہودیوں کے لئے مزیدحوصلہ کا سبب بن رہی ہے۔


۴۹۲ہجری ماہ ِ شعبان کی۲۲ تاریخ کوجب عیسائی بیت المقدس میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے حیوانیت کی حد کرتے ہوئے شہر میں ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑا، یہاں تک کہ عورتوں ، ضیعف مردوں اور دودھ پیتے بچوں تک کو ذبح کرکے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ بیت المقدس پر قبضہ کے دوران عیسائیوں نے ظلم اور سفاکی کی وہ مثال قائم کی تھی، جس کی نظیرتاریخ ِانسانی میں نہیں ملتی۔

آج پھر اُمت مسلمہ کا یہ حال ہے کہ مشرق سے مغرب تک ہرجگہ اور ہرمقام پرصرف مسلمانوں کا قتل ِ عام ہورہا ہے۔ جبکہ سارے کا سارا کفرآپس کے اختلافات بھلاکر اسلام کے خلاف متحد ہوچکاہے۔یہود ونصاریٰ اورتمام غیرمسلم بھوکے بھیڑیوں کی طرح اُس قوم پر جسے اُمت واحدہ کہا گیا پر جھپٹ رہے ہیں۔ جبکہ ذاتی اختلاف اور مفاد پرستی کے سبب بکھری ہوئی اُمت ِمسلمہ کے خود غرض حکمران اورتساہل پسند راہنما کفر کے ہاتھوں اس قدربے بس اور مجبور ہوچکے ہیں کہ ہرطرف خاموشی اور بے حسی کا عالم ہے ۔


آج ہم نے اپنے اسلاف کا کردار، شاندار ماضی اور آخرت سب کچھ بھلادیا ہے۔آج پوری اُمت مسلمہ میں ایک بھی محمدبن قاسم اورسلطان صلاح الدین ایوبی نہیں ، جو صرف اللہ سے ڈرنے والا اورصاحب کردارہو، جو فلسطین سمیت دنیا بھرمیں ہزاروں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے قتل ِ عام کے خلاف آواز اُٹھا سکے۔آج حالت یہ ہے کہ پورے عالم میں صرف مسلم ممالک ہی غیر مسلموں کے عتاب کا شکار ہیں۔

غزہ، فلسطین سمیت تمام عالم ِاسلام کے مسلمان بھائیوں کی عزت اورجان مال کے تحفظ کی خاطر لڑنا اور جنگ کرنا جوتمام مسلمانوں پر لازم ہے ،تودرکنار ہم میں اتنی بھی ہمت اور اخلاقی جرات نہیں کہ یہودونصاریٰ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر سکیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم طاقتیں ایک طرف تمام مسلم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہی ہیں تو دوسری جانب اپنی تجارت اور مصنوعات سے حاصل شدہ منافع کی کثیرمقداراُمت ِمسلمہ کے معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل ِ عام کرنے کے لئے وقف کررکھی ہے۔


ہم ہیں کہ دُنیا وآخرت سے بے فکر ، جھوٹ ، مکروفریب اوردھوکہ دہی میں لگے ہیں۔ آج دُنیا کی محبت نے ہمیں خود فریبی میں مبتلا کردیا ہے ۔ ہم بجائے ایک اُمت کے ذاتی اغراض کا شکار ہو کر مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں ۔اسی اختلاف اور انتشار کا فائدہ اُٹھا کرہمارادُشمن اسلام کی مخالفت میں زیادہ سخت اور دلیرہوتا جارہاہے ۔ ان حالات میں تمام عالم ِاسلام کا آپس کے علاقائی اور ذاتی اختلافات بھلا کر متحد اور یکجاہونا موجودہ دور کی سب سے اہم ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے اگرہم اب بھی متحد اور یکجا نہ ہوئے تو اُمت کی ایک ایک اکائی کو دُشمن شکار کرکے کھاتا جائیگا۔


مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلشن کا
وہ گل ہوں میں، خزاں ہرگل کی گویا خزاں مری
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما ، ہمارے حال ِ زار پر رحم فرمااور فلسطین سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :