لانگ مارچ، انقلاب کے چرچے اور جماعت اسلامی

جمعہ 1 اگست 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

ان دنوں وطن عزیز میں لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کا چرچا ہے۔جناب عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے جناب علامہ طاہر القادری انقلاب مارچ کے ذریعے عوام کو حکمرانوں سے نجات دلانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔عمران خان14اگست کو اسلام آباد لانگ مارچ کے ذریعے فتح کرنے کا اعلان کر چکے ہیں،جبکہ علامہ طاہر القادری انقلاب مارچ کی تاریخ رواں ہفتے دینے والے ہیں،عوام بھی عجیب مخلوق ہے سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک جانے کے لئے عوام کو ہی اوڑھنا بچھونا بنانا پڑتا ہے، مگر جب اقتدار مل جاتا ہے تو عوام حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔


عوام کے ذریعے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کا کھیل عرصہ سے جاری ہے۔کبھی دوسال کبھی ڈھائی سال اور کبھی پانچ سالہ جمہوری خدمات نے عوام کو آج تک کیا دیا؟اس پر بحث کسی اور نشست پر انشاء الله، آج جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر جناب سراج الحق کے عوامی ایجنڈے پر بات کرنی ہے۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کے امیر بھی عوام کو بیدار کرنے، عوام کو جگانے کے لئے ”بیداری عوام کارواں“، ”بیداری امت کاروان“، ”کاروان بیداری عوام“ یا کسی اور نام سے رواں ہفتے رابطہ عوام مہم پر نکل رہے ہیں۔

جناب سراج الحق کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ان کی شخصیت کا مثبت پہلو یہی ہے کہ سراج الحق عام آدمی ہے، گراس روٹ سے ایوان اقتدار تک پہنچنے تک ان کی زندگی کا ایک ایک گوشتہ عوام سے ہو کر جاتا ہے۔اگر کہا جائے سراج الحق عوام میں سے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔عید کے پروگرامات میں نجی ٹی وی پر کاشف عباسی، طلعت حسین، عبدالمالک، جاوید چودھری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے فرق بتا رہے تھے۔

عوام کی طرح ہمارے تجزیہ نگاروں، اینکرپرسن کی نظروں میں بھی سراج الحق آتا ہے، جس کی زندگی میں دوعملی نہیں ہے، یک رنگ ہے۔جماعت اسلامی کے قریب ہونے کی وجہ سے اتنا ضرور کہوں گا۔محترم سید منور حسن کے جانے کے بعد جماعت اسلامی میں وزیرستان اپریشن کے آغاز کے موقع پر ایک دفعہ پھر برا کڑا وقت آیا تھا۔ جناب سراج الحق کو داد دینا پڑے گی۔سیاسی بصیرت نے کام دکھایا اور جماعت اسلامی کو انتہائی محفوظ انداز میں نکالنے میں کامیاب رہے۔

بعض احباب کی پاک فوج کے بالمقابل کھڑا کرنے اور ڈٹ جانے کی تجاویز کے باوجود جماعتی موقف پر قائم رہتے ہوئے آگے بڑھنا سراج الحق اور ان کی ٹیم کا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔جماعت اسلامی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سے ادوار آئے کہ جماعت اسلامی کی آزادی اظہار رائے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اور اہداف حاصل نہ ہونے پر استعفوں کا سہارا لیا گیا ۔

نومنتخب امیر کو بھی بہت سے دانشور حضرات نے آزمائش میں ڈالنے کی کوشش کی، کارکنان کی دعائیں رنگ لائیں،امیر جماعت پھر سرخرو ٹھہرے۔
سراج الحق کے منتخب ہونے کے بعد جماعت اسلامی ایسا پل صراط عبور کررہی ہے۔ہر موڑ پر کڑی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔بالکل ہمارے ملک جیسی صورت حال ہے جہاں افراد طاقتور ہیں ادارے کمزور ،جماعت اسلامی میں بھی بعض حلقے طاقتور ہوگئے ہیں۔

ادارے کمزور، البتہ خوش آئند بات یہ ہے جماعتی تنظیم موجود ہے۔ جماعت کا دستور موجود ہے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دعوت موجود ہے۔جناب سراج الحق کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ محترم قاضی حسین احمد کی روایات پر چلتے ہوئے عوام کے ایک ایک فرد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ہمارے بہت سے حلقے تو پہلے ہی سراج الحق کی صورت میں جماعت اسلامی کو دوسرا قاضی حسین احمد مل جانے کی نوید سنا رہے ہیں۔

جناب سراج الحق کی 24رمضان کی افطاری میں شریک ہوکر ان کے مختصر مگر جامع خطاب اور پھر دو منٹ کی انفرادی ملاقات کے بعد اندازہ ہوا۔ واقعی جماعت اسلامی کو اس کے مزاج کا امیر مل گیا ہے۔4اگست کو اسلام آباد میں عوامی ایجنڈا دیں گے۔عید ملن کے نام پر کے پی کے اور پنجاب میں بڑے پروگرامات کرنے کے بعد اگست سے ہی کے پی کے کے بڑے اضلاع میں بڑے جلسوں کا پروگرام بنایا گیا ہے۔

ستمبر میں پنجاب کے بڑے اضلاع میں میدان لگائیں گے۔یوم تاسیس کے موقع پر26اگست کو لاہور میں بڑا پروگرام کریں گے۔جناب لیاقت بلوچ کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی گئی ہے۔جو رابطہ عوام مہم کو موثر بنانے میں کردار ادا کرے گی۔سراج الحق اگست، ستمبر، اکتوبر میں ملک گیر دورے کے بعد نومبر میں مینار پاکستان کے سائے تلے کل پاکستان اجتماع عام کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔

ناظم اجتماع کی ذمہ داری میاں مقصود احمد امیر لاہور کو دے دی گئی ہے۔سب سے اہم بات جناب سراج الحق کے عزائم میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور نہ ایسی طاقتوں کی معاونت کا ارادہ رکھتے ہیں جو انقلاب مارچ یا لانگ مارچ کے ذریعے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے نکلنے والے ہیں۔ سراج الحق کی عوام میں پذیرائی سیاسی حلقوں میں مقبولیت اور میڈیا میں ان کی شنوائی روزبروز بڑھ رہی ہے۔

جوش کے ساتھ ہوش کے دامن کو پکڑنے کی ضرورت ہے۔ جناب سراج الحق کے منتخب ہونے کے بعد کارکنان میں جو تبدیلی آئی ہے۔ناراض کارکن میدان میں آ گئے ہیں۔پہلے سے موجود کارکن صف بندی کررہے ہیں۔یہ مثبت اشارے ہیں مگر ایک بات جو کارکنان ہر موڑ پر کہتے نظر آتے ہیں۔ان کی نمائندگی ضرور کروں گا۔جماعت میں ابھی بھی بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ایک ساتھی مجھے کہہ رہا تھا جماعت اسلامی میں اضلاع میں چار سال تک امیر رہنے کی روایت پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے جو امیر منتخب ہوتا ہے وہ ڈی سی بن جاتا ہے۔

اسے پتہ ہوتا ہے کہ چار سال تک جا نہیں سکتا۔معیار اور میرٹ کام کو بنایا جائے، باریاں لینے کی روایت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ایک اور کارکن نے توجہ دلائی ہے۔مرکز صوبہ میں بالخصوص اور دیگر جگہوں پر بالعموم ایک بات دیکھنے کو مل رہی ہے۔ایک ایک فرد پانچ پانچ کمیٹیوں کا ذمہ دار یا ممبر ہے۔کیا دیگر کارکنان کو موقع نہیں ملنا چاہیے۔سینکڑوں اہلیت والے کارکنان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ کارکنوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ایک اور کارکن نے توجہ دلائی ہے ویکلی امرا حضرات سے بھی نجات کی ضرورت ہے۔وہ صوبوں میں ہوں یا اضلاع یا ٹاؤنوں میں ایک کارکن نے مرکزی عاملہ اور مرکزی شوریٰ کو پیغام دیا ہے کہ جماعت اسلامی اپنا مستقل سیاسی ایجنڈا اپنائے اور دعوتی پروگرامات تنظیمی پروگرامات کا بھی از سر نو جائزہ لے کر نئے سرے سے صف بندی کرے اور جماعتی ذمہ دار ان کی تربیت عوامی امنگوں کے مطابق بنانے کے پروگرامات تشکیل دے ۔

یہ تو تھی کارکنان کی طرف سے لگائی گئی ذمہ داری جو میں نے ادا کر دی اب نو منتخب امیر کے لئے صرف دعا الله آپ کو شر سے محفوظ رکھے اور آپ لمبی صحت والی زندگی پائیں تاکہ جماعت کے کارکنان کے ارمان پورے ہو سکیں اور آپ جرات مندانہ انداز میں آگے بڑھ سکیں اور سید مودودی کی دعوت واقعی عام آدمی تک پہنچ پائے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :