لاقانونیت کی انتہا

جمعہ 1 اگست 2014

Sajjad Khan Jadoon

سجاد خان جدون

قوانین انسانی بھلائی کے لیے بنائے جاتے ہیں جنہیں حرف عام میں زندگی گزارنے کے اصول بھی کہا جاتا ہے۔مہذب معاشروں میں قانون ساز اداروں کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہوتی ہے جہاں عوام کے نمائندے براجمان ہوتے ہیں اور گاہے بہ گاہے ملکی حالات و واقعات کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں، ان کو حاصل لامحدود اختیارات کے باعث ہی عوام ان کی عزت و تکریم کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ان کی قیادت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

کوئی ادارہ یا شخصیت قانون سے ماورا نہیں ہوا کر تا کوئی چاہے جتنا بھی طاقتور ہووہ ریاست کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے بے بس و لاچار ہوتا ہے آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی وخوشحالی کا جائزہ لیا جائے اور دوسری جانب ترقی پزیر ممالک کی پست حالی کا بھی بغور مطالعہ کیا جائے تویہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جن اقوام نے ریاست کے بنائے ہوئے اصولوں کااحترام کیا وہ بام عروج پر پہنچ گئیں اور جنہوں نے اپنے قوانین کو مذاق سمجھا ،یا تو وہ برباد ہوگئیں یا تباہی کے دہانے پر جاپہنچیں۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے ہم ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں نا ہم اسلامی اصولوں کے مطابق خود کو ڈھال سکے ہیں اور ناخود میں وہ ولولہ و جوش پیدا کر سکے ہیں جو ہمیں کم از کم جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا۔ہماری مروجہ سیاست کااصول ہی نرالا ہے یہاں دولت وثروت، رعب ودبدبہ، خاندانی وجاہت اور غنڈہ گردی نے اپنے اثرات سوسائٹی پر اس درجہ مرتب کئے ہیں کہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا شخص کسی سیاسی جماعت کے ایک ادنیٰ کارکن کا درجہ تو حاصل کرسکتا ہے ،رہنماؤں کے حق میں نعرے بلند کرسکتا ہے،ان سے عقیدت و محبت کے باعث ان کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگ سکتا ہے یا ان کی پرتعیش قیام گاہوں کے باہر ہاتھ باندھے ان کی جلوہ نمائی کے شوق میں پہروں انتظار تو کر سکتا ہے لیکن قانون ساز اداروں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اور اس عزت ومرتبہ کا حقداربھی نہیں بن سکتا جس کا وہ ساری زندگی خواب دیکھتا ہے ۔

کسی ریاست کے وجود کے لیے درکار لازمی شرائط رکھنے کے باوجود پاکستان ایک فلاحی ریاست نہ بن سکاجس کا سبب سال ہا سال سے ملک میں جاری وہ لاقانونیت ہے جو حکومتیں بنانے اور گرانے کی کشمکش کے دوران فروغ پاتی رہی ۔ عوام عذاب جھیلتے رہے اور حکمراں طبقہ تمام حدود پامال کرتے ہوئے اپنی غرض میں مصروف رہا جس کا اثر یہ ہوا کہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود مفاد پرست افراد نے قانون کو اپنی ذاتی جاگیر بنالیاجب چاہا قانون کو اپنے حق میں استعمال کرلیا جب جی چاہا اسے ٹھوکر مار دی برس ہا برس کی مشق کے بعد اب یہ حال ہے کہ اشرافیہ سے لیکر عام عوام تک جس کا جہاں تک زور چلتا ہے وہ نا صرف قانون شکنی کرتا ہے بلکہ اسے اپنا فرض عین بھی سمجھتا ہے۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ حکمرانوں کی بداعمالیوں کاخمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے آج یہ مقولہ سچ ثابت ہورہا ہے۔یوں تو قانون کی عملداری صحیح معنوں میں کہیں نظر نہیں آتی لیکن کراچی اس حوالے سے خاص طور پر متاثر ہوا ہے جس کی بڑی وجہ اس کا کثیرآبادی والا شہر ہونا ہے ۔اس شہرمیں جہاں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں وہیں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد بھی راتوں رات کالا دھن پیدا کرنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں او ر بلا خوف و خطر اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

کراچی کے کسی بھی علاقے میں چھوٹی سی جگہ لیکر کوئی بھی شخص جعلی ادویات تیار کرنا شروع کردے ، مکتب یا اسکول کھول کرتعلیم کے نام پر تجارت کرنے بیٹھ جائے ، نصابی کتب چھاپنے کا دھندا شروع کرلے ، جعلی حکمت کا ادارہ کھول لے ، پیسے لیکر قسمت کا حال بتانا شروع کردے یالوگوں کو رقم دوگنی کرنے کا جانسہ دیکر ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی لے اڑے ان کاموں کے لیے نا حکومت سے اجازت کی درکار ہوتی ہے نا اس بات کی پرواہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ ملکی باشندہ ہے یا غیرملکی بس انتظامیہ کی جیب گرم رکھنا لازم ہے۔


کراچی کی دیواروں پر جا بجا کی گئی چا کنگ، پوسٹر ز اور دکانوں پر لگے ہوئے جعلی حکیموں اور سنیا سی با واؤں کے بورڈز محکمہ صحت اور پولیس کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کس طرح یہ جعلسازبغیر ڈگری شہر کے مصروف علاقوں میں اپنی دکا نیں سجا ئے انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سادہ لوح عوا م کو صحت کے نام پر بے دردی سے لوٹ رہے ہیں حکیموں اور سنیا سی باواؤں کے یہ ٹھکا نے علا ج کے نام پر بلیک میلنگ کے گڑھ ہیں جہاں عورتوں کو بانجھ پن ،نسوانی حسن کی کمی اور مردوں کو جنسی کمزوری کا بھر پور احسا س دلا کر نفسیاتی حربوں کے ذریعے من چا ہی فیس لیکر انکا غیر تصدیق شدہ مضر صحت ادویات اور معجون وغیرہ سے علا ج کیا جا تا ہے اور یہ ادویات ناتجربہ کا ر حکماء اور سنیا سی خود تیا ر کرتے ہیں اور ان کی قیمت بھی الگ سے وصول کی جا تی ہے۔

علاج کو جان بوجھ کر طول دیا جا تا ہے جسکے دو فائدے ہوتے ہیں ، علا ج جتنا طویل ہوتا ہے پیسے بٹورنے کا عمل بھی اتنا طویل ہو جا تا ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ مریض علاج کی طو الت سے تنگ آکر حکیم کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجا ئے علاج کروانا بند کردیتا ہے اور شر مندگی سے بچنے کیلئے کسی سے اسکا ذکر تک کرنا پسند نہیں کرتا جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے جرائم پیشہ عناصر پولیس کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں اگر کوئی بھولا بسراپولیس تک رسائی حاصل بھی کر لے تو اس کی شنوائی نہیں ہوتی جس کی بڑی وجہ وہ پیشگی اجازت ہے جو جرم کرنے سے پہلے ایسے عناصر متعلقہ تھانوں سے حاصل کرلیتے ہیں پھر اس کے بعد انہیں کسی اور سرٹیفکیٹ کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ۔

خواتین اور بڑی عمر کے افراد فطری طور پر ایسے حکیموں کے چنگل میں جلد پھنس جا تے ہیں۔خواتین کو جنسی طو ر پر ہراساں کرنے کے کیسزآئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ۔ایک خا تون نے نام ظا ہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ با نجھ پن کے علاج کے لئے ایک حکیم کے پاس گئیں، پہلے پہل تو حکیم نے ان سے علاج کی غرض سے اچھی خا ص رقم بٹوری ہتکہ خا تون نے اپنے زیور تک حکیم کو دے دئیے اورجب علاج کا رگر نہ ہوا تو حکیم نے ان سے جنسی تعلقات استوار کرنے کی کو شش کی جب اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو وہ انھیں بلیک میل کرنے لگا ۔

ایک صاحب مردانہ طا قت کے علاج کے لئے ایک سنیاسی باوا کے پاس گئے اورمضر صحت ادویات کی وجہ سے اتنے بیما رہو ئے کہ بستر سے جا لگے۔کراچی کی ایک مشہور شاہراہ پر یک حکیم کے بورڈپر لکھا ہوا ہے کہ"ہر طرح کے کینسر ،ہیپا ٹا ئٹس اور دما غی امراض کا علاج ایک ہفتے میں کیا جا تا ہے "حالانکہ اس قسم کا دعویٰ کوئی کوالیفا ئڈ ڈاکٹر بھی نہیں کرسکتا۔

کراچی کے علا قوں،تین ہٹی ،لسبیلہ ،شیر شاہ،محمود آباد،بلدیہ ، اورنگی ،قصبہ، صدر ٹاون، ملیر، قا ئدآباد ، داؤد چورنگی اور بھینس کالونی میں ایسے ہی جعلی حکیموں اور سنیا سی باوؤں کے ٹھکانے پھیلے ہوئے ہیں جہاں کینسر،ہیپا ٹائٹس،بواسیر شوگر ،گردے اور مثا نے کی پتھری،بلڈپریشر اور خواتین و حضرات کے پوشیدہ جنسی امراض کا علاج ہوتا ہے ۔

حیرت کی با ت یہ ہے کہ کراچی کے 90% حکماء نہ صرف جعلی سندوں پر کام کرتے ہیں بلکہ وہ ابتدائی تعلیم سے بھی بے بہرہ ہیں اس کے سا تھ سا تھ ان کا پس منظر بھی قابل بھروسہ نہیں ان میں سے زیادہ ترکا تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے ہوتا ہے۔انتظامیہ تو ان سے شاذونادرہی الجھتی ہے اگر ان کے ہاتھوں لٹنے والاان سے جھگڑا کر بیٹھے تو آناًفاناً ان کے حمایتی نکل آتے ہیں اور اس موقع پر لینے کے دینے بھی پڑجاتے ہیں ۔

کراچی کے مضا فاتی علاقوں میں پھیلے ان حکماء کا زیا دہ تر تعلق پنجا ب کے شہروں گجرات،سیالکوٹ،ملتان ، لاہور،اورگجرانوالہ سے ہے۔ان کی دکا نوں پر فریم میں سجی سندیں بھی پنجا ب کے نام نہا د حکمت کے اداروں کی جا ری کردہ ہوتی ہیں۔جن کاوہاں کوئی وجودیا ریکا رڈ ہی نہیں ہوتا اور بعض اصلی سندوں پر نام تبدیل کرکے بھی کا م کررہے ہیں ۔فیس کا بھی کو ئی خا ص تعین نہیں ا ٓ سامی دیکھ کر مو قع محل کے مطا بق فیس طے کر لی جا تی ہے اور بسا اوقات مرض کو خطرناک بتا کر مزید پیسے ہتھیانے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔

کچھ حکماء روحانی علاج بھی کر تے ہیں اور جادوی ٹوٹکوں کی مددسے آنے والوں کو ذہنی مریض ظا ہر کرکے اپنے مذموم مقا صد حا صل کر تے ہیں۔ کرا چی میں ایسے جعلسازوں کی ایک بہت بڑی کھیپ مو جود ہے جو وقت اور حا لا ت کے مطا بق کبھی حکیم ،کبھی سنیا سی ،کبھی عا مل ،کبھی روحانی استخارہ کرنے والے تو کبھی ماہر ڈینٹسٹ بن جا تے ہیں اور ان سب کا اولین مقصد عوام کو لو ٹنا اور اپنی جیبوں کو گرم کرنا ہے ان جعلسازوں کے جرم میں انتظا میہ برابرکی شریک ہے ورنہ محکمہ صحت اور دوسرے متعلقہ اداروں کی ملی بھگت کے بغیر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کرا چی میں ایسے حکما ء کا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :