تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی

پیر 28 جولائی 2014

Sajjad Khan Jadoon

سجاد خان جدون

انسان جسے اللہ تعالیٰ نے افضل ترین مخلوق کا درجہ دیکرزمین پر پھیلایا تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے خیر کا سبب بن سکیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انسانوں کے ایک بہت بڑے گروہ نے اپنے اشرف ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیے اور رب کائنات کے عطاکردہ علم سے اپنے جیسے انسا نوں کی فلاح کے لیے نت نئی ایجادات کیں جس سے انسانیت کا سر فخر سے بلند ہوگیا ۔

دنیا کے سب سے پہلے انسان اور پیغمبرکی تخلیق کے بعد رب نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم  کوعلم کی بنیاد پر سجدہ کیا جائے سوائے شیطان مردود کے سب سجدہ ریز ہوگئے۔خالق کائنات نے ابلیس کو تکبر اور اپنے حکم سے روگردانی کے جرم میں ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنادیا ہے اوریوں رہتی دنیا تک ہر طرح کی لعنت و ملامت شیطان اور شیطان صفت انسانوں کا مقدر بن چکی ہے ۔

(جاری ہے)

جو لوگ عبادات کے ساتھ ساتھ فلاح آدمیت کے لیے کام کرے گا وہ اپنے رب کا محبوب ترین بندہ اور جو ابلیس کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کرے گا وہ بذات خود ابلیس کہلائے گا۔اگر ہم اپنے کردار سمیت ارد گرد کا مفصل جائزہ لیں تو ہم دنیاکو دو حصوں میں منقسم پائیں گے ا یک گروہ جو خالصتاً اللہ کی رضا اور بہبود انسانی کے لیے کام کرتا ہے اور دوسرا وہ جو شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتا ہے، اسی پیمانے پر ہم اپنے ملک کے حکمرانوں کی پیمائش کریں تو ماسوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

حکمرانوں کا درجہ ماں باپ جیسا ہوتا ہے جس طرح ان کے دل میں اولاد کے لیے نرم گوشہ ہوتا ہے اور وہ ان کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوجاتے ہیں اسی طرح کا احساس جب کسی قوم کے حاکم کے دل میں جاگزیں ہوجا تا ہے تووہ ان کے دکھ کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔اسلامی تاریخ ایسے ہی ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے خود کو مسلمان کہلوانے والے ہمارے ملک کے راجاؤں اور مہاراجاؤں نے اپنے اسلاف کی روایات سے تو کوئی سبق نہیں سیکھالیکن اس سے بھی زیادہ افسوس کا پہلو یہ ہے کا اپنے طرز عمل میں دور جدید کے ان حاکموں سے بھی کوسوں دور ہیں جنہیں یہ اپناسیاسی مائی باپ مانتے ہیں۔

ہم اپنے اس دکھ کا جتنا بھی اظہار کریں وہ کم ہے کہ ہمارے ملک کو ایسے غیر ت مند حکمراں نصیب ہی نہیں ہوئے جو قوم کو غیروں کے آگے گروی رکھنے کے بجائے ملک کے دستیاب وسائل سے استفادہ کرتے، قوم کو بھی شکروقناعت سے زندگی گذارنے کی تلقین کرتے اور خو د کو اللہ اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار کرتے لیکن ہوااس کے برعکس آج ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے وہ سب ان عاقبت نا اندیش حکمرانوں کی وجہ سے ہے جو برسوں سے اقتدار کے ایوانوں میں فرعون کی طرح براجمان ہیں اور یقینا تاریخ کے اوراق میں محفوظ فرعون کے انجام سے بھی واقف ہیں اورعوام کے غیض و غضب سے بھی لیکن انہیں اس بات کا بھی حوصلہ ہے کہ قوم کے حکمراں بھی ہم ہیں اور راہ نمابھی اور دور دور تک کوئی موسیٰ نما نظر نہیں آتا۔

زمانہ امن ہو یا کوئی مشکل گھڑی حزب اقتدار ٹولا ہمیشہ ہاتھ میں کشکول تھامے ان ممالک کا دورہ کر رہا ہوتا ہے جن کا ہماری بربادی میں برابر کا حصہ ہے اور اس موقعے پر حزب اختلاف کشکول توڑنے کا شور مچا رہا ہوتا ہے اور بدقسمتی تو دیکھیے یہی حزب اختلاف جب اقتدار میں آتا ہے تو اس کا طرز عمل یکسر تبدیل ہو جاتا ہے جس کشکول کو توڑنے کی دہائیاں دی جا رہی تھیں وہی گداگری اب اچھی لگنے لگتی ہے۔

دنیا بھر سے عوام کے نام پر مانگی گئی امداد عوام کی خوشحالی کے بجائے حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برداروں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں کی رٹ ختم ہی نہیں ہوتی۔پاکستان کا شمار دنیا کے چند بڑے ایٹمی ممالک میں ہوتا ہے لیکن حال یہ ہے کہ ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، ہم ایک زرعی ملک کے باسی ہیں لیکن شرم کی بات یہ کہ فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے تو درکنارپینے کے لیے پانی دستیاب نہیں،خود کو امن پسند قوم کہلوانے والے خود امن کو ترس رہے ہیں اور جمہوریت کی رٹ لگانے والے ملک میں جمہوریت سے زیادہ آمریت کا عمل دخل رہا ہے ۔

بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر چلنے والے حکمرانوں سے خیر کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے اور گداگر قوم کے نصیب میں دھتکار کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت جسے ہمیشہ عوام کے اکثریتی ووٹوں سے منتخب ہونے کا خبط رہا ہے اس کے انتخابات سے قبل کے دعوؤں پر غور کیا جائے اور بعد کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا ۔

قوم کو وہ وقت بھی یاد ہے جب پنجاب کے سدا بہاروزیراعلیٰ الیکشن سے قبل مینار پاکستان کے احاطے میں لگے کیمپ میں اپنی صوبائی کابینہ سمیت احتجاجا منتقل ہوگئے تھے اور پنکھا جھیلتے ہوئے فوٹو سیشن کے دوران تین ماہ کے اندر توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کر تے دکھائی دیتے تھے آج ان کی ہی حکومت کے خلاف پورا پاکستان سراپا احتجاج ہے مگر اس بحران سے نمٹنے اور اس کا حل ڈھونڈنے کے بجائے موجودہ کابینہ کے ایک وزیر جن کے پاس پانی و بجلی کی وزارت کا قلمدان ہے اپنی حکومت کی ایک سال سے زائد مدت گذرجانے کے بعد اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کو مشورہ د ے رہے ہیں ،اگر وہ گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے عفریت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کے حضور استغفار اور بارش کی دعا کریں۔

یاد رہے وزیر موصوف اور اس وقت کے کئی متوقع وزراء کے بارے میں ان کے قائد انتخابی جلسوں میں ان کے ہاتھ فضامیں بلند کر کے انتہائی فخر سے کہا کرتے تھے یہ میرے شیر پاکستان کو خوشحال بنانے اور اسے بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ موقع کی مناسبت سے ہم ان چہیتے وزیر کو مشورہ مفت دینے کو تیار ہیں کہ وہ عوام سے اپیل کے بجائے اپنے باس اور کابینہ کے ارکان کو قوم سے جھوٹ بولنے کی پاداش میں اللہ کے حضور معافی مانگنے کا مشورہ دیں اگر نیت اچھی ہو تو اللہ یقینا بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔

عوام مہنگائی اور انتشار کے اس دور میں کس حال میں جی رہے ہیں شاید حکومتی ارکان کواس کا ادراک نہیں ورنہ خواجہ آصف اتنی آسانی سے عوام کورمضان کے مہینے کی اس قیا مت خیز گرمی میں صبر کی تلقین نہ کرتے بلکہ ان رکاوٹوں اور سازشوں کی نشاندہی کرتے جن کی وجہ سے آج انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑرہاہے ۔پاکستان کی اکثریتی آبادی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ غربت، مہنگائی اور ان جیسے کئی اور عذاب جھیلنے پر مجبور ہے اگر ان مسائل کا سامناایوان میں بیٹھے ہوئے کسی ایک رکن اسمبلی نے بھی کیا ہوتا تو وہ کب کا وزارت سے استعفیٰ دے چکا ہوتا ۔

ساٹھ، اسی اور 120گز کے تنگ گھروں میں بجلی ، گیس اور پانی جیسی ضروری سہولتوں کے بغیرمتوسط اور مزدور طبقہ کس طرح زندگی گزارتا ہے اور دن بھر کی محنت کے بعد جسے رات کی چند ساعتوں کا آرم بھی میسرنہیں ۔اگر خواجہ آصف اور ان جیسے وزراء کو ایسے گھروں میں چند ایام کے لیے مقید کردیا جائے تو یہ امر یقینی ہے کہ پھر کوئی وزیر عوام کو ایسے حالات میں صبر کرنے کا مشورہ نہیں دے گا۔


لیگی حکومت خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن سمجھتی ہے لیکن اس کے بنیادی اصولوں سے یکسر بے بہرہ ہے جمہوریت کی آبیاری کے لیے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو بلاتفریق، تحریر و تقریر کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں ،بہ زور قوت ان کے حقوق کو سلب کرنے سے گریز کیا جائے جو ایک جمہوری ریاست ان کو عطا کرتی ہے اس سلسلے میں حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ حکومتی رویہ سب کے سامنے ہے کس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر پنجاب پولیس نے چڑھائی کی جس کے نتیجے میں درجن بھر معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔

پیپلز پارٹی کوملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا حق حاصل ہے ، جمہوری نقطہ نظر سے ایک کثیر طبقہ اس سے بھی اختلاف رکھتا ہے۔ اس جماعت کو اپنے سابقہ دور میں غیرجمہوری قوتوں کے جانب سے جس قدر مزاحمت کا سامنا تھا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس دور میں مخالفین کے ساتھ جس قدر نرمی اور درگزرکا معاملہ کیاگیا وہ سب کے سامنے ہے۔عمران خان کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے مسلسل الزامات سامنے آرہے ہیں اور ان کے ان الزامات کی تائیددوسری سیاسی جماعتیں بھی کر رہی ہیں حکومت ایک جانب جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا رونا رورہی ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کے آذادی مارچ کو کچلنے کی دھمکیاں بھی دے رہی ہے کیا طاقت کا مظاہرہ کرنے سے جمہوریت داغ دار نہیں ہوگی۔

اگر جمہوریت کا تحفظ اتنا ہی عزیز ہے تو اپوزیشن کے مطالبات کو مان کیوں نہیں لیا جاتا ایسی صورت حال میں حکومت کی ہٹ دھرمی ناقابل فہم ہے۔بہر کیف اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ کی حکومت آمنے سامنے ہے عمران خان اپنے موقف سے ذرا بھر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور نا ہی لانگ مارچ کے حوالے سے حکومتی تیور اچھے نظر آتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق چند حکومتی ارکان نے وزیر اعظم کو پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نابرتنے کا مشورہ دیا ہے ان کے مطابق اس صورت میں سارا فائدہ عمران خان کو پہنچے گا اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا ان چہ مگویوں سے قطع تعلق وزیر اعظم نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دے دی ہے جو چند دنوں میں تحریک انصاف کے مطالبات کا جائزہ لے گی۔

ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار طرفین کے اخلاص اور ملکی سلامتی کو ذاتی انا سے مقدم سمجھنے میں ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ حزب اختلاف واقتدار کی تمام جماعتیں ہمیشہ ملک سے وفاداری کا راگ الاپتی ہیں تو سب کافرض بنتا ہے کہ اس موقع پر تد بر اور بردباری کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس وقت ملک کسی قسم کی آزمائش کا متحمل نہیں ہو سکتا ایک طرف افواج پاکستان دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے دوسری طرف پاکستان کرپشن سمیت مختلف قسم کی اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکارہے اس غیر یقینی سیاسی صورت حال سے جہاں ملک میں دہشت گردی کو تقویت ملی ہے وہیں ملکی و غیرملکی سرمایا کاروں کے اعتماد میں بھی کمی آئی ہے جس سے دہرا نقصان ہوا ہے اک طرف معیشت کی کمزوری سے بے روزگاری اور مختلف قسم کے مسائل نے جنم لیا ہے دوسری جانب ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بیرونی دنیا میں پاکستان کاامیج بھی خراب ہوا ہے۔

ایسے حالات میں حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی ،غیر سیاسی ، مذہبی اورعسکری قیادت ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے خود بھی سنجیدہ کوششوں کا حصہ بنیں اور عوام کو بھی اعتماد میں لیتے ہوئے ملکی مفاد میں آگے بڑھنے کا عزم کریں ۔جو بھی ملکی قیادت ،وسیع النظری کا مظاہرہ کرنے ، موجودہ معاملات کا درست حل نکالنے اور عوام کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگئی صرف اس کا وجود تاریخ کے اوراق میں زندہ رہے گااور جو اپنی اناکے خول سے باہرنہ آ سکے وہ مٹ جائیں گے کیوں کہ تاریخ کسی کومعاف نہیں کیا کرتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :