عید الفطر۔۔۔صرف ایک دن کا نام؟

پیر 28 جولائی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

رمضان کا آخری عشرہ رحمتیں بکھیرتے ہوئے گزر رہا ہے۔ رمضان کا مہینہ جیسے جیسے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور جیسی " بدنظمی" و " بد تہذیبی" کا مظاہرہ " فرزندان اسلام " نے رمضان کے مہینے میں کیا اس کا عملی مظاہرہ دوبارہ سے سڑکوں پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دوبارہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ رمضان کے درمیانی عشرے میں لوگ کسی نہ کسی حد تک معاشرے کی لغویات، یعنی گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے ، غصے ، دھکم پیل وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔

لیکن جیسے ہی رمضان اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے وہی پرانی عادات پھر لوٹ آٹی ہیں۔
شاید میں نے اپنے پہلے کسی کالم میں ذکر کیا تھا کہ ہم لوگوں نے رمضان کو صرف ایک مہینہ سمجھ لیا ہے۔

(جاری ہے)

پورا دن ہم بھوک پیاس سہتے ہیں۔ اپنی جبینوں پہ سجدوں کے نشاں بھی سجاتے ہیں۔ لیکن ہم معاشرتی برائیوں سے اجتناب نہیں کرتے۔ خود کو چھوٹی چھوٹی ایسی برائیوں سے نہیں بچاتے جو بظاہر تو چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ہماری عبادات کو ہوا میں معلق رکھنے کا سبب بن جاتی ہیں۔

ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم پر اس مقدس مہینے کے روزے کیوں فرض کیے گئے۔ یہ ایک مہینے سے زیادہ زندگی کے مچلتے سمندر کی طلاطم خیز لہروں کو حالت سکون میں لانے کا نام ہے۔ اس مہینے کا مقصد باقی سال میں بھی ایک متوازن راہ اپنانا ہے۔ جو باقاعدگی ہماری زندگی میں اس مخصوص مہینے میں آتی ہے ویسی ہی باقاعدگی باقی مہینوں میں بھی ہماری زندگیوں میں شامل ہو یہی اس مہینے کا تقاضا ہے۔

لیکن ہم بطور مسلمان رمضان کے حقیقی فلسفے کو پوری زندگی کے لیے اپنانے کے بجائے اسے صرف ایک مہینہ سمجھ کر گزار دیتے ہیں۔ رمضان بس ایک سیڑھی کا نام ہے جس پہ چڑھ کر ہم پوری زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں ۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ۔
کچھ ایسا ہی ہم عید کے تہوار کے لیے کرتے ہیں۔ ہم اس کو صرف ایک دن کا تہوار سمجھتے ہیں۔ نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔

اور خوشبوؤں میں بس کر مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ گھروں میں نت نئے کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ صرف ایک اس دن کی تیاری میں لاکھوں روپے صرف کر دیتے ہیں۔ اگر آپ آج کل بازاروں کی حالت دیکھیں تو " آٹھ لاکھ سے زائد اندرونی مہاجرین" رکھنے والے اس ملک کے بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ایک ایک لباس کی قیمتیں کسی خاندان کے پورے مہینے کے راشن کے برابر ہوں گی ۔

وجہ ؟ کیوں کہ رمضان جیسا بابرکت مہینا گزارنے کے بعد عید کے تہوار کا ایک الگ لطف و سرور ہے۔ لیکن اس لطف و سرور میں ہم اس دن کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کیا ہم میں سے کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ہم جب لاکھوں روپے صرف ایک اس دن کی تیاری میں خرچ کر ڈالتے ہیں تو جو بچہ سگنل بند ہوتے ہیں ہماری گاڑی کی طرف دوڑ کر آتا ہے صرف اس خواہش میں کہ گاڑی کا شیشہ صاف کرنے پہ اسے چند روپے مل جائیں گے۔

کیا آپ کے خیال میں وہ بچہ وہ روپے اپنے لباس کے لیے استعمال کرتا ہو گا؟ کیا ایسا نہیں کہ ان چند روپوں سے ہو سکتا ہے اس کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی مہیا نہ ہو سکتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہمارے عید کے تہوار پر خرچ کیے گئے لاکھوں روپے روز آخرت ہمارے لیے پھندہ نہیں بن جائیں گے۔ کیا ہم سے سوال نہیں ہو گا کہ استطاعت رکھنے کے باوجود ہم نے عید کے دن کو "احساس کے دن " کے طور پر کیوں نہیں منایا؟ میں عالم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے خرچ کردہ ایک ایک روپے کا حساب ضرور ہو گا۔

ہم سے سوال ہو گا کہ جب ہم اپنے گھر میں عید کے پکوان تیار کر رہے تھے تو ساتھ والے گھر میں غریب کے بچے بھوکے کیوں سوئے۔ کم از کم ہمارا ضمیر ہم سے سوال ضرور کرے گا کہ عید کی خوشیوں میں 08 لاکھ سے زیادہ وزیرستان کے مہاجر ہم کو یاد رہے؟ کیا ان میں بچے شامل نہیں جو اس بات سے لاعلم ہیں کہ جنگ کیا ہے اور امن کیا ہے۔
ہم میں سے کتنے صاحب حیثیت لوگ ہیں جنہوں نے عید کے لیے اپنے ماتحت کام کرنے والے کسی چائے دینے والے، کسی چپڑاسی، کسی ڈرائیور یا کسی خانساماں کے لیے بھی اپنے جیسا لباس پسند کیا ہو؟ فطرانے کی ادائیگی شوال کا چاند نظر آنے کے بعد کی جاتی ہے۔

جس سے بہت سے غریب عید کی خوشیوں میں مکمل طریقے سے شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آخری رات اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ گھر کے افراد کے لیے خریداری کر سکیں۔اسلام نے زکوٰة و فطرانے کا نظام اسی لیے دیا کہ وہ لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی خوشیاں منا سکیں۔ لہذا اس معاملے پر بھی علماء اپنا کردار اداکریں اور ہماری رہنمائی کریں کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ فطرانے کی رقم کی ادائیگی پہلے ہو جائے تا کہ ضرورت مند بھی عید کی خوشیاں صاحب ثروت لوگوں کے ساتھ منا سکیں۔


ہم سب کو خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم بطور مسلمان عید کو صرف ایک دن سمجھ کر نہیں گزاریں گے۔ بلکہ اس کو ایک ایسے نظام کے طور پر گزاریں گے جس کا اثر ہمیں آئندہ دنوں میں بھی محسوس ہو گا۔ یوم عید کو ہم ایک ایسا آغاز بنائیں گے جو اس معاشرے کو مثبت روش پر چلانے میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔ ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھیے یہ عہد کر کے آپ دلی طور پر خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :