Thank you for the great surprise
ہفتہ 26 جولائی 2014
ایسٹرن اینڈ اورینٹیل ایکسپریس کا چار دن اور تین راتوں کا لگزری سفر، پھر زندگی کا پانچ سال پر محیط ایک تھکن بھرا سفر ، اس سفر میں کئی ایسے مرحلے بھی آئے جب امید ریگستان کی اس سوکھی جھاڑی کی طرح تھی جو اپنی ہریالی قائم رکھنے کے لیے بارش کے چند قطروں کی محتاج ہو ، لیکن اس کے باوجود واپس پلٹنے کا خیال کبھی نہیں آیا ، آج جب وہ سب کچھ پاس ہے جس کا خواب میں نے دیکھا تھا تو ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ اصل بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ کتنے محنتی ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ کتنے پازٹیو ہو آپ اپنی محنت کو کسطرح یوٹیلائز کر رہے ہو یا آپ کی ترجیحات کیا ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود سیٹل ہو نہیں سکتے اور دوسروں کو سیٹل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، دوستوں ، رشتے داروں، برادری میں ناک اونچی رکھنے کے لیے کم از کم ایک کوٹھی یا بنگلہ ضروری سمجھا جاتا ہے، جو باہر کما رہا ہے اس کی حالت کو سمجھے بغیر اس سے مطالبات کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنا اس کا حق ہے ، اصل میں ہم ایک ایسے معاشرے میں سروائیو کر رہے ہیں جہاں ہر آدمی کی نظر دوسرے کی پاکٹ پر ہے اور وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے، خیر یہ ہمارا المیہ ہے جس سے شاید ہم کبھی باہر نہیں نکل سکتے، مجھے جہاں
زندگی سے اپنے حصے کی خوشیوں کی تلاش نے وہ سب کچھ دیا جو میں چاہتا تھا وہیں کچھ ایسا چھین لیا جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، جس دن امی کی ڈیتھ ہوئی اس دن اکاونٹ میں صرف اتنے پیسے تھے جن کی بمشکل ٹکٹ مل سکتی لیکن ملی وہ بھی نہیں ، ایک ایسا خلا جو کبھی بھر نہیں سکتا، شاید اولڈمین Luke ٹھیک کہتا تھا کہ وقت نہیں گزرتا لیکن انسان گزر جاتے ہیں ایک ایسے وقت کا انتظار کرتے ہوئے جب وہ زندگی کی سب خواہشوں کو حقیقت کو روپ دھارتے دیکھ سکیں ، آج ناممکن نظر آنے والی کئی خواہشیں حقیقت بن چکی ہیں لیکن یہ ایک ایسا سفر تھا جس نے زندگی کے اس روپ کو اجاگر کیا جو ان سب پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل ہے جو آج بھی یورپ جانے یا یونان کے لیے ڈنکی مارنے کو اپنا فیوچر سمجھتے ہیں ،اور اس فیوچر کے انتظار میں اپنا قیمتی وقت اور خون پسینے سے کمایا ماں باپ کا پیسہ اجاڑتے ہیں شاید اس کی وجہ اس معاشرے کا ڈبل سٹینڈرڈ بھی ہے جہاں ایک طرف ہم مغربی روایات کو دن رات بُرا بھلا کہتے ہیں وہیں ان سب چیزوں تک رسائی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں ، اس میں ایک چیز نفرت بھی شامل ہے ، ان رشتے داروں کی نفرت کو کسی اچھے مقام پر پہنچنے کے بعد دوسروں کو اچھے یا بُرے ہونے کا سرٹیفکیٹ دینا اپنا حق سمجھتے ہیں ، خیر یہ ایک ایسا ایشو ہے جو ٹروجن ہارس کی طرح اس معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے اور ہر مڈل کلاس آدمی کو ان سب پرابلمز کا سامنا ہے ایک عرصے بعد یہ سب لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ نو اگست کو میں Changsha ( چائینہ) جا رہا ہوں ایسٹرن اینڈ اورینٹیل کے ٹکٹ کی پہلی قسط ادا کرنے اور jeo yeng کو تھینک یو بولنے جس نے زندگی کا فلسفہ ایک ڈفرنٹ طریقے سے سمجھایا اور جتنی دفعہ بھی خدا کا شکر ادا کروں وہ کم ہے جس نے وہ مجھے سب کچھ دیا جو میری اوقات سے بھی زیادہ ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احمد عدیل کے کالمز
-
تصویر کا دوسرا رخ
بدھ 7 جولائی 2021
-
تب تک تو میں بوڑھا ہو جاؤں گا
جمعرات 10 جون 2021
-
آپ کے آپشنز کیا ہیں؟
جمعہ 4 جون 2021
-
ڈونٹ گیو اپ
ہفتہ 29 مئی 2021
-
واہ میرے راہبرواہ
منگل 18 مئی 2021
-
Rootless People
بدھ 16 دسمبر 2020
-
Well Done Pakistan Post and EMS
منگل 8 دسمبر 2020
-
ہماری بے بسی اور ہماری سوچ
منگل 27 اکتوبر 2020
احمد عدیل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.