مودی ،مسئلہ کشمیر اور اقوامِ متحدہ!

جمعرات 24 جولائی 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

پہلے اقوامِ متحدہ کی طرفسے اسکے پاس زیرِ التوا تنازعات کی فہرست سے کشمیر کو ہٹانے کی ”غلطی“پھر اقوامِ متحدہ کے جموں و کشمیر میں تعینات فوجی مبصرین کو یہاں سے نکال دئے جانے کا ہندوستانی مطالبہ اور اب مودی سرکار کی جانب سے ان مبصرین کا دفتر بند کر دئے جانے کاباضابطہ فیصلہ…مسئلہ کشمیر کی کوکھ میں ایک نیا تنازعہ پلنے لگا ہے۔


حالانکہ جموں و کشمیر میں تعینات اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین United Nations Militory Observers Group in India and Pakistan (UNMOGIP)کی حیثیت اور انکی باقی ضرورت کے حوالے سے ہندوستان ایک عرصہ سے سوال اُٹھاتا رہا ہے لیکن نریندر مودی کی سرکار نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی جس طرح (UNMOGIP)کا دلی دفتر بند کر دینے کا فیصلہ لیا ہے وہ غیر متوقع بھی ہے اور انتہائی معنیٰ خیز بھی۔

(جاری ہے)

حکومتِ ہند نے (UNMOGIP)کو نئی دلی کے پُرانا قلعہ روڑ پر واقعہوہ سرکاری بنگلہ خالی کرنے کو کہا ہے کہ جس میں40سال سے اسکا صدر دفتر قائم رہا ہے۔یہ بات گذشتہ دنوں اچانک ہی سامنے آئی اور اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کو دفتر خالی کرانے کا با ضابطہ نوٹس دیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اُنکا منڈیٹ ختم اور مشن غیر متعلق ہو کے رہ گیا ہے لہٰذا وہ اُس سرکاری بنگلے کو خالی کردیں کہ جو دفتری استعمال کے لئے اسے مفت فراہم کیا گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے اس اہم پیشرفت کی نہ صرف تصدیق کی ہے بلکہ کہا ہے کہ اس نے فوجی مبصرین کے لئے نئے دفتر کے لئے جگہ کی تلاش بھی شروع کر دی ہے۔چناچہ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ حکومتِ ہند کا نوٹس نوٹسموصول ہوتے ہی نئی دلی میں کسی متبادل جگہ کی تلاش شروع کردی گئی ہے اور اسے کیلئیبازار میں ریٹ وغیرہ بھی معلوم کئے جا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے نائب ترجمان فرحان حق نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ اس معاملے میں حکومتِ ہند کے ساتھ رابطے میں ہیں اور حکومت کو اپنا پورا تعاون فراہم کررہے ہیں۔

اس حوالے سے اپنی طرفسے وضاحت کرتے ہوئے وزارتِ کارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے کہاہے کہ ہندوستان فوجی مبصرین کے اس گروپ کو غیر متعلق سمجھتا ہے اور اسلئے وہ سرکاری بنگلہ خالی کرانے کا فیصلہ لیا گیا ہے کہ جس میں ان مبصرین کا دفتر واقع ہے۔اُنکا کہنا ہے” یہہندوستان کا دیرینہ موقف ہے کہ(UNMOGIP) اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوچکی ہے اور اسکی جگہ شملہ ایگریمنٹ اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی)پر کئے گئے انتظامات نے لی ہے“۔


بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے کہ حکومتِ ہند کسی بین الاقوامی ادارے کو ایک سرکاری بنگلہ خالی کرنے کو کہے،لیکن جس طرح نئی دلی نے صاف صاف کہا ہے کہ ان مبصرین کا منڈیٹ ختم ہو گیا ہے اور انکے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے ہی اُنہیں بنگلہ خالی کرنے کے لئے کہا گیا ہے اُس سے بات بہت اہم ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئی دلی کے اس فرمان پر اگرچہ پاکستان نے محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا تاہم کشمیر کے علیٰحدگی پسند خیمے کی طرفسے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے نئی دلی پر حقائق سے آنکھیں چُرانے کا الزام لگایا گیا۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اسلام آباد میں معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اس ھوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نئی دلی کے اس اقدام سے پاکستان کا یہ موقف تبدیل نہیں ہوگا کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔اُنہوں نے یہ بات بھی واضح طور بتائی کہ پاکستان ہندوستان کے اس دعویٰ کے ساتھ اتفاق نہیں کرتاہے کہ جموں کشمیر اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا ”ہم ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو تسلیم نہیں کرتے“۔ تسنیم اسلم کا مزید کہنا تھا ” اقوام متحدہ مبصرین کو اپنا دفتر تبدیل کرنے کیلئے کہنے سے کشمیر ی عوام کا وہ حق خودارادیت ختم نہیں ہوجاتا جس کی ضمانت انہیں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت دی گئی ہے“۔اُن کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے کشمیر کے اہم مسئلے کو لیکر پاکستان کے” دیرینہ موقف“ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

مبصرین کے مطابق پاکستان نے جان بوجھ کر اس حوالے سے کوئی ”سخت ردِ عمل“ظاہر نہیں کیا اور نہ کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا ۔ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے”پاکستان کو اگرچہ اس فیصلے کی اہمیت اور اسکے پیچھے ہندوستان کی اصل سوچ کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نے محتاط ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے اس نے نئی دلی کے فیصلے کو ایک سرکاری بنگلے کو خالی کرانے کے معمول کے انتظامی معاملے کی طرح دیکھا ہو“۔

مذکورہ تجزیہ نگار کا مزید کہنا تھا”پاکستان در اصل یہ نہیں چاہتا ہوگا کہ اس معاملے پر شور مچائے اور پوری دنیا میں یہ تاثر ہو کہ جیسے ہندوستان نے اقوامِ متحدہ کے رول کو قطعی طور رد کر دیا ہو“۔
پاکستان کے محتاط ردِ عمل کے بر عکس جموں و کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں نے کسی مصلحت کے بغیر اس پیشرفت پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اگرچہ نئی دلی کے اس اقدام سے مسئلہ کشمیر کی حیثیت کسی بھی طرح متاثر نہیں ہو سکتی ہے تاہم ،بقولِ اُنکے،اس طرح کے فیصلوں سے نئی دلی غیر حقیقت پسندی کا ثبوت دیتی ہے۔

بزرگ علیٰحدگی پسند سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی حریت کانفرنس نے نئی دلی کے فیصلے کیشدید مکالفت کرتے ہوئیاپنے ردِ عمل میں کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے مسئلہ کشمیرکی حیثیت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسطرح سے اس دیرینہ تنازعہ کو حل کیا جانا ممکن ہے۔ نئی دلی کے اس موقف ،کہ شملہ سمجھوتے نے اقوامِ متحدہ کے مسئلہ کشمیر میں کردار کو ختم کر دیا ہے،کے جواب میں حریت نے واضح کیا کہ کشمیری عوام چونکہ شملہ سمجھوتے جیسے معاہدوں میں شامل نہیں رہے ہیں، وہ اسے تسلیم کرنے کے پابند نہیں ہیں اور نہ ہی اس سمجھوتیکی وجہ سے کشمیر قضیے کی بین الاقوامی حیثیت کسی بھی طور سے متاثر ہوگئی ہے۔

علیٰحدگی پسندوں کے ایک اور دھڑہ حریت(ع)نے ایک اجلاس بلانے کے بعد جاری کردہ بیان میں نئی دلی کے فیصلے کو” ایک غیر حقیقت پسندانہ اور تاریخی حقائق سے جان بوجھ کر انحراف پر مبنی رویہ “قرار دیا۔بیان میں کہا گیا” حکومت ِہند کو حقائق سے منہ چرانے کی بجائے یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ مسئلہ کشمیر ایک زندہ حقیقت ہے جس کے حل کے لئے سیاسی جرات مندی پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے اور محض UNO مبصرین کا دفتر بند کرانے سے یا کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا“۔

بیان کے مطابق اجلاس میں کہا گیا” مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے رول سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں، اگرچہ اس ادارے نے اس مسئلہ کے حل کے ضمن میں حد درجہ بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اور اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس ادارے نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی بامعنی اقدام نہیں اْٹھایاہے“۔
جموں و کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی کا پسِ منظر کیا ہے اور ہندوستان اِن مبصرین کو غیر متعلق قرار دلوانے کے لئے بے تاب کیوں ہے یہ ایک اہم اور دلچسپ معاملہ ہے۔

دراصل ریاست میں ان مبصرین کی تعیناتی تقریباََ اتنی ہی پُرانی ہے جتنا کہ مسئلہ کشمیر نام کا آدم خور دیو…!۔
خود اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر،جموں و کشمیر میں اس عالمی ادارے کے فوجی مبصرین کی تعیناتی کی وجوہات کے بطور ،درج ہے کہ کب،کیوں اور کس طرح فوجی مبصرین کے اس گروپ کی ریاست میں تعیناتی عمل میں آئی ہے۔چناچہ ہندوپاک کی آزادی کے فوراََ بعد جب کشمیر کو لیکر دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا اور نوبت لڑائی تک پہنچی تو معاملے کے اقوامِ متحدہ تک پہنچ جانے کے بعد سلامتی کونسل نے 39(1948)قرارداد پاس کی جسکے تحت تنازعے کی تحقیقات و ثالثی کے ذرئعے معاملے کا نپٹارہ کرنا طے ہوا۔

اسی سلسلے کے تحت بعد ازاں 24جنوری1949کو اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کا پہلا غیر مسلح دستہ ہندوپاک کے مابین موجود کنٹرول لائن کی نگرانی کی ذمہ داری کے ساتھ جموں و کشمیر آپہنچا ۔اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کے تعینات کردہ ان مبصرین نے ملٹری ایڈوائزر کی قیادت میں ریاست کے دونوں جانب نگرانی کا ذمہ سنبھالا۔
ہندوستان نے 1972میں ہوئے ایک معاہدے کے بعد ہی یہ موقف اختیار کیا کہ (UNMOGIP)کا کردار ختم ہو چکا ہے تاہم پاکستان مبصرین کے رول کو باقی بھی اور اہم بھی بتاتا رہا۔

دلچسپ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق جہاں پاکستان نے فوجی مبصرین کے پاس بارہا کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی شکایات درج کرائی ہیں وہیں نئی دلی نے جنوری1972سے ان مبصرین کے پاس کوئی بھی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔حالانکہ ہندوستان مکرر یہ بات کہتا رہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے نہ صرف شدت پسندوں کو جموں و کشمیر میں داخل کرایا جاتا ہے بلکہ پاک فوج بھی وقت وقت پر کنٹرول لاین پر جنگبندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتی آرہی ہے۔

اسکے باوجود بھی نئی دلی محض اسلئے مذکورہ فوجی مبصرین کے پاس کوئی شکایت درج نہیں کرنا چاہتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں کسی بھی طرح کے تیسرے فریق کی ثالثی کے خلاف ہے۔دراصل مسئلہ کشمیر میں تیسرے فریق کی ثالثی کے لئے تیار نہ ہونے کی پالیسی ہی ہے کہ جسکے تحت ہندوستان (UNMOGIP)کو ،جسے پاکستان اور کشمیر کی علیٰحدگی پسند قیادت کشمیر کے متنازعہ ہونے کا ثبوت بتاتے آرہے ہیں،جموں و کشمیر سے چلے جاتے دیکھنا چاہتا ہے۔


سال 2010میں جب اقوامِ متحدہ کے پاس ،موجود دنیا کے متنازعہ مسائل کی فہرست سے ،کشمیر کو Dropکر دئے جانے کی خبر،جو بعدازاں ایک ”غلطی“ثابت ہوئی،سامنے آئی نئی دلی نے اس خبر کی تصدیق کا انتظار کئے بغیر جٹ سے اسکا زبردست خیر مقدم کیا۔اس (غلط)خبر کا خیر مقدم کرتے ہوئے اُسوقت کی وزیرِ (مملکت)برائے امورِ خارجہ پرنیت کور نے نئی دلی میں نامہ نگاروں کو بتایاتھا”ایسی خبریں آئی ہیں کہ سلامتی کونسل نے متنازعہ مسائل کی فہرست میں سے مسئلہ کشمیر کو ہٹالیا ہے،اگر ایسا ہے تو ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں“۔

انہوں نے مزید کہاتھا کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہی کہتا آیا ہے کہ” کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے،ہمیں امید ہے کہ اقوامِ متحدہ اسی طرح ہمارے (ہندوپاک کے)دوطرفہ مسائل کو لے لے گا“۔اس واقعہ کے خلاف پاکستان کا احتجاج تو تھا ہی لیکن اقوامِ متحدہ کی متنازعہ فہرست سے یوں کشمیر کو ہٹا لئے جانے کو ناممکن بتانے والوں نے انتہائی اہمیت کے ساتھ یہ بات کہی تھی کہ اگر ایسا ہے تو پھر جموں و کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے مبصرین تعینات ہی کیوں رہتے۔

اس خبر پر عالمی سہارا کی جانب سے پوچھے جانے پرقانون کے پروفیسر داکٹر شیخ شوکت حسین نے سوالیہ انداز میں کہا تھا ”اگر اقوامِ متحدہ کے لئے مسئلہ کشمیر اب متنازعہ رہا ہی نہیں تو پھر سرینگر اور مظفر آباد میں تعینات فوجی مبصرین کو ہٹا کیوں نہیں لیا جاتا ہے“۔پاکستان اور علیٰحدگی پسند قیادت بھی جموں و کشمیر میں فوجی مبصرین کی تعیناتی کو مسئلہ کشمیر کے متنازعہ ہونے کے ایک بڑے ثبوت کے بطور پیش کرتی رہی ہے جیسا کہ سید علی شاہ گیلانی کا تکیہٴ کلام ہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کرنے کے دوران وہ بار بار اقوامِ متحدہ کی مداخلت کو ناگزیر گردانتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سرینگر اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر کی تعیناتی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مسئلہ کشمیر متنازعہ ہے اور یہ کہ اقوامِ متحدہ کااس مسئلے میں ایک اہم کردارہے۔
چناچہ پاکستان اقوامِ متحدہ سے مسئلہ کشمیر میں مداخلت کرنے کے لئے کہنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے جس پر ہندوستان شدید احتجاج کرتا رہاہے۔

ہندوستان کا کشمیر کے بارے میں موقف ہے کہ پاکستان اور اسکے درمیان حصوں میں بٹا ہوا یہ علاقہ اسکا ”اٹوٹ“انگ ہے اور اس سے متعلق کوئی بھی فساد اسکا ”اندرونی مسئلہ“ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ جتنا زور پاکستان اور اسکا ہمنوا جموں و کشمیر کا علیٰحدگی پسند حلقہ اس بات کے لئے لگاتا رہا ہے کہ وہ کسی طرح اقوامِ متحدہ کو مسئلہ کشمیر میں مداخلت کرنے پر آمادہ کرے اتنا ہی تندہی اور جانفشانی سے ہندوستان یہ کوشش کررہا ہے کہ اقوامِ متحدہ مسئلہ کشمیر میں مداخلت سے باز رہے۔

ہندوستان کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ اقوامِ متحدہ کو منڈیٹ حاصل ہونے کے با وجود بھی پاکستان ابھی تک اسے مسئلہ کشمیریا اسکے ضمنات کے حل میں راست کردار نبھانے پر ابھی تک آمادہ نہیں کر سکا ہے۔گو 2010میں وادیٴ کشمیر کے کئی ماہ تک ایک خونین عوامی تحریک سے دوچار رہنے کے دوران اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے یہاں کی خراب صورتحال پر تشویش کا اظہار تو کیا تاہم اُنہوں نے اس مسئلے میں تب تک کوئی مداخلت کرنے سے انکار کر دیا کہ جب تک دونوں ممالک اس سلسلے میں با ضابطہ درخواست نہ کریں۔

تاہم ہندوستان کی جانب سے اس ادارے سے درکواست کرنا تو دور اسے ضمنی مسائل پر بھی اقوامِ متحدہ کی معمولی مداخلت بھی منظور نہیں ہے جیسا کہ دو ایک سال قبل ایل اوسی پر سپاہی ہیمراج کے سر کاٹ دئے جانے کے وقت ثابت ہوا۔اس معاملے پر ہندوپاک کے مابین کشیدگی بڑھنے پرپاکستان نے ایک بار پھر مذکورہ بالا فوجی مبصرین کو بیچ میں لاتے ہوئے اس واقعہ کی انہی مبصرین کے ذرئعے تحقیقات کرائے جانے کی بات کہی تھی جسے ہندوستان نے یکسر مسترد کیا۔

اس واقعہ کے چند ہی دن بعد نیویارک میں ہندوپاک سفراء کے مابین (UNMOGIP)کی حیثیت کو لیکر گرم گفتاری ہوئی اور ادھرجموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی کشمیر میں اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے ایک طرح سے یہ اشارہ دیا کہ کشمیر کی ”بدلی ہوئی“صورتحال کے بیچ نئی دلی نے یہ ارادہ باندھ لیا ہے کہ (UNMOGIP)کو غیر متعلق ”ثابت“کرائے جانے کا مشن شروع کیا جائے گا۔

مودی سرکار کا تازہ فرمان اسی مشن کی عمل آوری کی جانب پہلا قدم معلوم ہوتا ہے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے جیسے عالمی ادارے کے تعینات کردہ مبصرین سے دفتر خالی کرنے کو کہکر در اصل ہندوستان نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسکے سامنے اس عالمی فوجی مشن کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے اور وہ انکی موجودگی کو نوٹس بھی نہیں کرتا ہے۔حالانکہ اقوامِ متحدہ کے لئے دلی میں کرایہ کے ایک مکان کا انتظام کرنا مشکل نہیں ہو سکتا ہے اور اس بات سے مرکزی سرکار بھی بے خبر نہیں ہو سکتی ہے لیکن ایک سرکاری بنگلے سے مشن کو بے دخل کرنے کا ہندوستان کاایک مقصد مسئلہ کشمیر کے متعلقین پر یہ دباوٴ بنانا بھی ہو سکتا ہے کہ جس ادارے پر انکی اُمیدیں ہیں اپسکی ہندوستان کے لئے اتنی معمولی حیثیت ہے کہ اسے ایک معمولی کرایہ دار کی طرح جب چاہے اپنے یہاں سے نکال باہر کر سکتا ہے۔

پھر اس بات کو نریندر مودی کی جانب سے کشمیر پر خاموشی اختیار کئے جانے کے رویہ کے ساتھ بھی جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ صدر ہند پرنب مکھرجی کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس سے تقریر،جو کہ وزیرِ اعظم کی پالیسی کا آئینہ دار ہوتی ہے،میں کشمیر کا کہیں ذکر تک نہیں تھا جبکہ اپنے حالیہ دورہٴ جموں و کشمیر کے دوران بھی وزیرِ اعظم نے مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنا ”مون بھرت“جاری رکھا۔

ایسا لگتا ہے کہ مسٹر مودی کشمیر مسئلہ کو اس طرح نظر انداز کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہو بلکہ یہاں کا اصل مسئلہ یہاں سے جا چکے کشمیری ہندووٴں کی وطن واپسی اور سڑک پانی بجلی کی فراہمی کا ہو۔لیکن کیا مودی کی یہ حکمتِ عملی کامیاب ہو سکتی ہے؟ھیرت انگیز حد تک اُتار چڑھاوٴ دیکھ چکے مسئلہ کشمیر کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کے پاس فی الوقت اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹفن دجارے نے گذشتہ دنوں معمول کی ایک یومیہ بریفنگ کے دورانایک صھافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ”یقینا میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ہندوستان میں یواین ایم او جی آئی پی دفتر بند کئے جانے سے مسئلہ کشمیرمتاثر ہوگا“لیکن کیا مودی سرکار کے لئے (UNMOGIP)کا واقعتاََ ہندوستان میں بوریہ بسترہ گول کرانا ممکن ہے…محال لگتا ہے…!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :