کیا عید آئے گی

منگل 22 جولائی 2014

Hussain Jan

حُسین جان

عید کی آمد آمد ہے ،تو سوچا یہ عید آخر ہوتی کیا ہے ہاں بچپن میں ایک تہوار ایسا ضرور آتا تھا جب نئے کپڑئے ،جوتے وغیرہ مل جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کچھ روپے بھی غالباً خرچ کرنے کے لیے اب تو بھول ہی گئے ہیں یہ عید ہوتی کیا ہے اور اسے کیسے منایا جاتا ہے۔
پھر سوچا چلو اچھی بات ہے جرمنی تو جیت گیا مغربی کلچر کے دلدادہ خوشی سے ناچ رہے ہیں کیا ہوا جو فلسطین پر بم گرائے جا رہے ہیں یہ کوئی پہلا ملک تھوڑی نہ ہے جو حالت جنگ میں؟ پورا عالم اسلام تو اپنوں کا خون بہا رہا ہے ایسے میں اگر یہودیوں نے چار پانچ سو مسلمان مار دیے تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ کہتے ہیں کہ دکھ سے وہی آشنا ہوتا ہے جس کے گھر لاش پڑی ہو، خالی تسلی دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں ۔

سوشل میڈیا پر جذباتی تصاویر اور تحریر لکھنے سے کسی کا غم کم نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے سے ہی مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ کسی بھی کام میں عمل سے دوری ہے، ہم سوچتے ہیں کہ بس جو ہمارے لیے اچھا ہے ویسے ہی ہو جائے محنت و عمل کرنے سے کوسوں دور بھاگتے ہیں،جبکہ گورئے 80سال کی عمر میں بھی جہازوں سے چھلانگے لگاتے پھرتے ہیں۔


دماغ پھر گھوم کرعید پر چلا گیا اسے کیسے منائیں گے، لوڈشیڈنگ کا ماتم کرکے،غربت افلاس کے پارک میں جاکر، خودکشیوں کی نہر میں نہا کر، یا بے روزگاروں کے ساتھ سڑکوں پر ہم تو آج اُس مقام پر کھڑئے ہیں جہاں ہمیں بھی اپنی خبر نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ حکمرانوں کی ٹامک ٹوئیاں عوام کو تسلی دینے سے قاصر ہیں جس ملک کے وزیر خود مانتے ہوں کہ یہ ملک اللہ کے آسرئے پر ہی چل رہا ہے ایسے ملک کا کیا انجام ہو گا۔

ہمارئے حکمران کہتے تھے ہمارئے پاس بہترین لوگوں کی ٹیم موجود ہے جو بہت جلدملک کو مسائل سے نکال لائے گی مگر افسوس ڈیڑھ سال ہونے کوہے مگر ابھی تک ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ الیکشنز سے پہلے کہ بڑئے بڑئے دعوئے سب ہوا ہوئے۔ جن حکمرانوں کے غیر ملکی دورئے ہی ختم ہونے میں نا آرہے ہوں اُن کے پاس ملکی مسائل کے لیے کہاں ٹائم ہو گا۔ہمارے کئی وزیر مشیر جب اپنے اپنے منصب پر بیٹھے تو ایسے ایسے بیانات دے رہے تھے یوں لگتا تھا کہ بہت جلد ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑئے ہوں گے۔

ریلوئے سے لیکر بجلی پانی کے وزیر تک سب نے میڈیا پر عوام کو تسلی دی تھی 16مہنے میں کیا ایک بھی ریل اپنے وقت پر چلی، لوڈشیڈنگ میں کچھ کمی ہوئی۔ اب تو دبنگ انداز میں کہا جا رہا ہے کہ ہم تو عید کے تین دن بھی بجلی مہیا نہیں کرسکتے۔
عید نام ہے خوشیوں کا ایک دوسرئے سے ملنے کا غم و در د دور کرنیکا ،ہنسنے اور ہنسانے کا مگر لگتا نہیں کہ ہم اس خوشی کو منا پائیں گے۔

ہر طرف اندھیر نگری لاقانونیت،چوری چکاری،قتل و غارت مہگنائی غربت لارچارگی جیسی آفتیں ہمارا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں یہاں تو یہ عالم ہے روزہ دار کے لیے افطاری کرنا محال ہے وہ بیچارا عید کی خوشیاں کیا منائے گا۔ وہ جو اپنے بچے کا پہلا روزہ نہیں رکھواتا کہ افطاری میں کیا اہتمام کرئے گا۔ وہ انسانجسے پہلے روزے سے ہی یہ فکر ستانا شروع کر دے کہ عید پر بچوں کے لیے نئے کپڑئے جوتے کہاں سے خریدے گا اُس بیچارے کی کہاں کی عید۔

ہاں عید آئے گی ضرور مگر مٹھی بھر لوگوں کے گھر ، چاند رات بھی ہو گی مہندی کے دیزائین بھی بنے گے مارکیٹوں میں رش بھی لگے گا، نئے نئے کپڑئے بھی خریدے جائیں گے۔ سویاں بھی کھلائی جائیں گی،نوٹوں کی نئی نئی گڈیوں سے عیدی بھی دی جائے گی،یہ سب ہو گا ضرور مگر کسی غریب کے گھر نہیں اُن چند لوگوں کے گھر جنہوں نے پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔

کشادہ بنگلوں میں رہنے والوں کی ہی عید ہو گی، کاٹن کا سوٹ پہنے گردن میں سریا ڈالے صاحب بڑی سی گاڑی میں درجن بھر سیکورٹی گارڈز کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے جائیں گے۔ میاں صاحب تو خیر ابھی سے عمرے پر اپنی فیملی کو لے گئے ،عام آدمی کا کیا ہے وہ بیچارہ پاکستان سے ہی اللہ اور رسول ﷺ کے گھروں دیدار کرنے کی کوشش کرئے گا کہ یہاں تو عمرہ اور حج جیسی مذہبی عبادات بھی عام مسلمانوں کی پہنچ سے دور ہیں۔


اُس ماں کے درد کو محسوس کریں جس کے بچے عیدکے دن بھی ٹوٹی جوتی کے ساتھ گھر میں بیٹھے کسی ہمسائے کی طرف سے سویاں آنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ایسی ماں کو اگر کوئی کہے کہ خودکش جیکٹ پہن لو تمہارئے بچوں کو سب کچھ دے دیا جائے گا تو وہ ایک لمحہ بھی نا سوچے۔ کہتے تو ہیں کہ مفتی صاحب اس دفعہ پھر عید کے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرئیں گے اور پھر کافی لڑائی جھگڑئے کے بعد علان کر کے اپنے گھر کو سدھار جائیں گے۔

پھر صبح پتا چلے گا کہ ملک میں اس دفعہ پھر دو عیدیں منائی گئیں۔ اخبارات میں دو دن کی چھٹی ہو گی،لیکن ان کی کمی کو پورا کرنا کرنے کے لیے ہمارے نیوز چینل سارا سارا دن چلائیں گے اور عید کی خوشیوں کو ماند کردیں گے، پھر دو دن بعد اخبارات کی باری، ایسی ایسی "Exclusive"خبریں لگائیں گے کہ لوگوں کا سکھ چین برباد ہو جائے گا۔ ہم رہے یا نہ رہیں عید تو آئے گی لیکن بہت سوں کو رولا جائے گی ،غم و دکھ کا ایک ایسا سیلاب لائے گی جس میں کروڑوں پاکستانی بہ جائیں گے،پھر سے زندگی کا آغاز کریں گے، پھر سے کوششوں میں لگ جائیں گے کہ جو کمی اس عید پر راہ گئی تھیں اگلی دفعہ اُسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے ، بچوں کو نئے نئے کپڑئے لا کر دیں گے، بہن بھائیوں کو عیدی دے گے۔

کاش کے ایسا ہو لیکن ہو گا نہیں اور نا ہی ہمارے سیاسی عمائدین ایسا کچھ ہونے دیں گے۔ اُن کے اپنے جہاز،دورئے اور بڑئے بڑئے گھر تب ہی چلیں گے جب اس ملک کے عوام کی حالت بری ہو گی۔ ٹیکس کا پیسہ اپنے بچوں پر دل کھول کر خرچ کرنے والے یہ نام نہاد سیاسی لٹیرے عوام کو سوائے دکھوں کے کچھ نہیں دے سکتے۔
پھر سوچتا ہوں کیا عید آئے گی؟پتا نہیں کیسی ہو گی ہماری یہ عید،خون میں لت پت لاشوں کو دیکھنے میں گزرئے گی یہ عید، فلسطین کے شہیدوں پر ماتم کرنے پر گزرئے گی یہ عید؟کب تک ہم خود سے بھاگتے رہیں گے کب تک خود پر ہوتا ظلم سہتے رہیں گے، اپنی خوشیوں کا گلا کاٹنے والوں کے گریبان کب پکڑئیں گے۔

کب آئے گی ہماری اصل عید،کب خوشیوں کے شادیانے بجے گئیں کب ہو گا غریب کا گھر روشن، کب وہ لا پائے گا اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی۔اب دیکھنا ہے عید کیسی آئے گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :