ٹی وی چینلز کی رمضان دکانیں

منگل 22 جولائی 2014

Farhan Ahmed Fani

فرحان احمد فانی

یہ جوکچھ دھما چوکڑی جاری ہے ۔اُسے کیا نام دیا جائے ۔اسے شعبدے بازی کہا جائے یا مسخرہ پن۔یہ کیا ہو گیا ہے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو ۔رمضان تو پہلے بھی آتا تھا۔مذہبی پروگرام بھی ہوتے تھے۔خصوصی رمضان ٹرانسمیشنز بھی چلتیں تھیں ۔لیکن یہ جو اُچھل پھاند اب جاری ہے ۔بالکل نئی چیز ہے ۔سرمایہ داری نظام بہت بے رحم ہے ۔اس کا بے لگام پرافٹ موٹو(Profit Motive) پورے سماج سے کھیل رہا ہے۔

دکان داروں نے بس ہر وہ کام کر گزرنا ہے جس سے پیسہ آئے ۔کوئی حد نہیں۔اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے ۔اس سے انھیں کوئی غرض نہیں۔کیونکہ ضابطہ اخلاق تو محض کاغذوں میں لکھی باتیں ہیں۔کسی بدیسی اخبار نے تنقید کی ۔کہا کہ پاکستان میں لوگوں کے مذہبی جذبات کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

رپورٹ دیر سے آئی جبکہ مذہبی جذبات کی تجارت بہت پہلے سے جاری ہے ۔

بس سٹائل بدلتا ہے وقت کے ساتھ۔کسی نے کہا تھا کہ پیسہ اس دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے ۔مجھے لگتا ہے کہنے والاکچھ اِسی قسم کے مشاہدات سے متاثر تھا۔
اس وقت تقریباً سب چینلز افطار وسحر کی نشریات پیش کر رہے ہیں۔اداکاروں ،گلوکاروں،نعت خوانوں،ماڈلز کی خدمات انھیں حاصل ہیں۔مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کر رہی ہیں۔کچھ ٹکڑے بھی پھینکتی ہیں ساتھ۔

تشہیر بُری چیز نہیں۔ضوابط کے دائرے میں ہو تو حق ہے یہ تاجروں کا۔لیکن یہ جو تشہیر کے پردے میں سامعین کی تذلیل وتحقیر ہو رہی ہے۔یہ کیا ہے؟وہ کیا منظر ہوتا ہے۔جب کوئی میزبان اداکار ہاتھ میں لفافے اٹھائے لوگوں میں سے گزرتا ہے۔کس طرح لپکتے ہیں لوگ۔وہ میزبان کس انداز میں اُچھالتا ہے یہ ٹکڑے عوام پر۔ایک شور وغل اورا ودھم مچا ہوتا ہے سحر وافطار کے وقت۔

داد دیجئے ان میزبانوں کو ۔چار چار گھنٹے چلّاتے ہیں ۔اچھلتے ہیں ۔بھاگتے ہیں دوڑتے ہیں۔مگر مجال ہے کوئی فرق آئے ان کی جسمانی کارکردگی میں۔ ماحول بناتے ہیں۔بند ر ،طوطے،کبوتر اور خرگوشوں کے ساتھ پسِ منظر کے چوبارے میں دستار پوشوں کوبھی بٹھاتے ہیں۔جو بوقت ِ ضرورت اور حسب ضرورت اشارے پر سبحان اللہ ،ماشاء اللہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ گردنیں ہلاتے ہیں جھومتے ہیں۔

پوچھے گئے سوال کا درست جواب دے کر انعام ملنے تک جو مراحل آتے ہیں ۔کتنے واہیات ہوتے ہیں۔طرح طرح کے سوالات۔میزبان کہتا ہے اپنی فیملی کو بلائیں۔پھر جو منہ میں آئے بکتا جاتا ہے۔وہ فیملی والا بھی انعام کی ترنگ میں باچھیں کھولتا رہتا ہے۔کچھ توحدیں پار کر گئے۔ایک پروگرام میں انعام دینے سے قبل خاتون کو رقص کرنے کا کہا۔اس نے اجنبی میزبان کے ساتھ رقص کیا بھی۔

کیا ہمارے سماج میں یہ سب معمول کی بات ہے ؟ کہیں افطار کے وقت انتہائی بھونڈے اندازمیں سامعین کے منہ میںآ م ٹھونسے جاتے ہیں۔ اور نہ جانے کیا کیا۔
وہ دن ہوا ہوئے ۔جب گھر کے سب افراد افطار وسحر کے اوقات میں ایک دستر خوان پر مل بیٹھتے تھے۔دعائیں مانگتے تھے۔کوئی خیر کی بات کرتے تھے۔رمضان اپنے پورے تقدس کے ساتھ ہر گھر میں جلوہ گر ہوتا تھا۔

پھر آئیڈیاز کا دور آیا۔کاروباری جغادڑیوں نے سوچا کہ مال یوں بھی بیچا جاسکتا ہے۔رمضان میں لوگ تلاوت کرتے ہیں۔نعت اہتمام سے سنتے ہیں۔اس نوع کی دیگر سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں۔سو انہوں نے ان چیزوں کو بیچنے کا سوچا۔کسی بڑے چینل نے ابتداء کی۔دوسروں کو پتہ چلا جب، کہ بکتا ہے مال ۔تو وہ بھی آگئے میدان میں خم ٹھونک کر۔جعلی ریٹنگ کی دوڑ میں بس سب اندھے ہوگئے ۔

اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا دیں۔خرافات میں مصروف کر دیا عوام کو۔کئی اداکاروں کے بارے میں پتہ چلا کہ ٹیم بٹھاتے ہیں اسٹوڈیو جانے سے قبل ۔وہ دھاڑی دار تعریفی میسیج کرتے ہیں ۔ان پیغامات کی عبارتیں بھی انھیں پہلے سے لکھ کر دی جاتی ہیں۔پھر ٹِکّر چلتے ہیں کہ ”فلاں بھائی! آپ کا پروگرام دین کی عظیم خدمت ہے“۔”بھائی جان! آپ نے تو رمضان کی برکتوں کو دوچند کردیا“فلاں بھائی! ہم شوق سے دیکھتے ہیں آپ کو۔

ایسا اچھا معلوماتی پروگرام کرنے پر مبارک باد“۔”آپ کا کُرتا بہت اچھا ہے“۔اور فلا ں اورڈِمکاں۔ اس سے ان پروگراموں کی ریٹنگ کا اندازہ لگتا ہے ۔اس بنیاد پر اشتہار لئے جاتے ہیں۔مطلب یہ کہ ایک مصنوعی ریس جاری ہے ۔کوئی چیک ہے نہ کوئی جانچ۔بس سب اناپ شناپ چل رہا ہے۔
بات کی جائے علماء کی۔اگر عالم محض دراز داڑھی،بڑی دستار،طویل شملے،اور کھلے کُرتے میں ملبوس شخص کا نام ہے تو یہ بے شمار ہیں۔

ان پروگراموں کے لئے باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔وہ بھی ارزاں نرخوں پر۔اُن کا دُکھ ہے اور نہ ان سے کوئی شکوہ۔ایسی بھیڑ ہرعہد میں رہی ہے۔شکوہ تو صرف ان لوگوں سے ہے۔جن کی قدر ہے علمی حلقوں میں۔سنجیدہ صاحب علم ہیں وہ۔ان میں سے بھی کچھ میں نے خاموش بیٹھے اس اچھل پھاند کو دیکھتے دیکھے ہیں۔میزبان ان کی بات بس اُتنی سنتا ہے،جتنی سے اُس کا کام چلے۔

باقی ایک علامتی مجسمے سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہاں۔یہ اللہ کے سادہ دِل بندے استعمال ہو جاتے ہیں جوکروں کے ہاتھوں۔ٹھگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں۔پتہ بھی نہیں چلتا۔اگراُن کی بات سنی جائے۔انھیں موقع دیا جائے۔تو کچھ خیر کی بات پہنچے عوام تک۔ان اہل علم سے انکساری سے عرض ہے۔جناب! اور بہت فورمز اور اسٹیج ہیں آپ کے لئے۔

دین کی خدمت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی کاوشیں ان سرکس نماپروگراموں سے پہلے بھی جاری تھیں۔خدا را اِن جوکروں کے ہاتھوں میں کھلونے نہ بنیے۔لوگ آپ پر بھروسہ کرتے ہیں۔سادہ دل لوگوں کا آپ پر اعتماد یہ دکان دار کیش کر رہے ہیں۔اِن سے بچئے۔قوم کو آپ کی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔
ہم لوگوں کا ایک مسئلہ ہے ۔مذہب سے ہماری دلچسپی اکثر جذباتی ہوتی ہے۔

سنی سنائی باتوں پر منحصر۔تحقیق ومطالعے کا رواج کم ہے۔دین کو بس ظاہری سراپے،عمارتوں اور لباسوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ہم سطحی لوگ عالم دین اسے سمجھتے ہیں جو سر پر ٹوپی،تن پر کرتا،جیب میں مسواک ، ہاتھ میں تسبی اور چہرے پرلمبی داڑھی لگائے پھرتا ہو۔بھلے بے چارے کو ہوا بھی نہ لگی ہو دینی علوم کی۔بس وہ مولانا ہے۔بلکہ اب تو اس قسم کے علامہ حضرات گلی گلی پھرتے ملتے ہیں۔

اِسے تو ل لواسے مول لو۔حلیہ علماء کا باقی سب کچھ کا خدا حافظ۔اسی طرح ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ہماری مارکیٹ میں جس چیز پر اسلام کا لیبل لگایا جائے ۔وہ خوب بکتی ہے۔کوئی شہد کو مسلمان کر کے بیچتا ہے توکوئی اسلامک کُرتے لے کر بازار میں آجاتا ہے۔اسلامک خوشبو،اسلامک موبائل اور نہ جانے کیا کیا۔یار! یہ اسلا م کوئی مذاق ہے کیا۔ اس کا نام لگا کر چیزیں بیچی جائیں اور بس۔

یہی مارکیٹ اب ذرا وسیع ہوئی ہے۔اب ٹی وی چینلز کیش کر رہے ہیں اس نام کو۔مال بک رہا ہے دھڑا دھڑ۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔کھیل جاری ہے اورریفری بھنگ پر کر سو رہے ہیں۔
ہم عوام کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔اس قسم کی جعلی سرگرمیوں کا ایندھن بنتے ہیں۔ تسلیم کہ معاشی مسائل ہیں لوگوں کے۔خود بھی میرا خیال ہے اخلاقیات پر معاشی حالات کا بہت کافی اثر ہوتا ہے۔

لیکن ذرا شعور رکھنے والا شخص جان سکتا ہے سب تماشے کو۔سامعین کو سامان تو دیا جاتا ہے ۔موبائل اور بائیکیں بانٹی جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ بیچ عوام کے ان کی عزتِ نفس کا جنازہ بھی نکلتا ہے ۔میزبان پوچھتاہے۔”آپ کے پاس تھی ایسی بائیک پہلے“۔”آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں بائیک لے کر“ پھر اس کی فیملی کو ساتھ اسٹیج پر بلوا کر ان کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

ہر دم شریعت کی بات کرنے والے یہاں منہ میں گھنگھنیاں لے کر کیوں بیٹھے رہتے ہیں۔نہی عن المنکر کے وعظ سنانے والوں کو یہاں کچھ کیوں نظر نہیں آتا ؟لوگ بات کرتے ہیں کہ اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے ۔گاہے سڑکوں پر بھی آجاتے ہیں۔بہت دفعہ پرتشدد تحریکیں بھی چلتی ہیں۔ ٹی وی پروگرامز جو سماج میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ان پر سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟لوگ باہر کیوں نہیں نکلتے؟متعلقہ نگران اداروں تک شکایت کیوں نہیں پہنچاتے؟بس بیٹھ کے تبصرے کرنا کافی ہے کیا؟
ڈھونڈو تو گنتی کے چند پروگرام ہیں۔

مناسب ہیں۔اہلِ علم کو بطور مہمان بلاتے ہیں۔ڈھنگ سے بٹھاتے ہیں۔کوئی ناچ کود نہیں ہوتا۔لفافے نہیں اُچھالے جاتے ۔میزبان لوگوں کو اپنے پیچھے بھگاتا نہیں پھرتا۔سنجیدہ علمی فضاء ملتی ہے۔رمضان کے مسائل اور دیگر اسلامی موضوعات پر سوال جواب ہوتے ہیں۔کچھ لوگ براہِ راست رابطہ کر کے راہ نمائی بھی لیتے ہیں۔یہ ہے طریقہ۔مگر مقابلے کی دوڑ میں بہت خال خال ملتے ہیں ایسے پروگرام۔

بس مشکل سے ایک یا پھر دو کہہ لیجیے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں بس کیا کریں لوگ یہی تماشے دیکھتے ہیں ۔پسند کرتے ہیں۔تو اس کا یہ مطلب ہے آپ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں؟ آپ کا بچہ آپ سے بہت کچھ مانگتا ہے ۔ناسمجھ ہوتا ہے نقصان دہ چیزوں کو نہیں جانتا ۔ کتنی احتیاط کرتے ہیں آپ ۔چھان پھٹک کر دیتے ہیں ایک ایک چیز اُسے ۔یہاں جب مال بیچنے کی بات آتی ہے توجو طریقہ سمجھ میں آئے استعمال کرتے ہیں۔

یہ کھلا تضاد نہیں کیا؟عوام میں اگر شعور کی کمی ہے ۔تو ان کی تربیت آپ کی ذمہ داری نہیں کیا؟اگر نہیں تو ابلاغیات کی دنیا میں یہ انفارمیشن ،ایجوکیشن کے راگ کیوں الاپتے ہیں آپ؟سیدھا کاروبار کہیے بس۔لیکن کاروبار کی بھی تو اخلاقیات ہوتی ہیں کچھ۔سرکس کے بھی قوانین ہوتے ہیں۔یہ جو کچھ مذہب کے نام پر جاری ہے کیا ہے یہ؟ کیا نام دیا جائے اِسے؟مداری ڈگڈگیاں بجا رہے ہیں۔

اور لوگ ناچ رہے ہیں ۔لفافے اُچھل رہے ہیں اور لوگ لپک رہے ہیں۔کوئی سوال اُٹھانے والا نہیں۔مصلحین خود تماشا گاہ کی رونق بنے بیٹھے ہیں۔اب کس سے گلہ کرے کوئی۔بس یہ ایک فریاد تھی جو کر دی گئی ۔دِل پر دھرا ایک بوجھ تھا جو ورق پر اُتار دیا۔اختتام اس بات پر کہ خدا را آنکھیں کھولیے۔مذہب کو جنسِ بازار نہ بنائیے۔کچھ خوف خدا کیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :