افراتفری کا سبب کون۔۔۔۔؟

منگل 22 جولائی 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

محترم احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں فرمایاکہ مسلم لیگ نون کی حکومت پر جو دباوٴ نظر آ رہا ہے اُس کی وجہ پرویز مشرف کے وہ دوست ہیں جو پیچھے بیٹھے ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔اگر آج حکومت اِس مسٴلے کو نظر انداز کر دے تو یہ دباوٴ ختم ہو جائے گا لیکن اِس کے لیے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی جس کے مطابق سیاستدانوں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے لیے الگ الگ قانون بنانا ہوگاتاکہ سیاستدانوں کو جب جی چاہا،لٹکا دیا اور فوجی ڈکٹیٹروں کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کر دیا۔

احسن اقبال صاحب کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے انتہائی محترم بھائی عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم کے آخر میں لکھا ہے”۔۔۔باقی رہی پرویز مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے میری رائے،تو وہ وہی ہے جس کا اظہار اِن کالموں میں کرتا چلا آ رہا ہوں،مگر میرے نزدیک یہ فعل وہ سور ہے جو ہنگامی حالت میں شرعاََ کھانے کی اجازت ہے“۔

(جاری ہے)

مجھے قاسمی صاحب کے اِس تجزیے سے مکمل اتفاق ہے،آخر ہم نے ایک تہتر سالہ بیمار”بُڈھے“کو لٹکا کر کونسا ہمالیہ سَر کر لینا ہے لیکن مسٴلہ یہ ہے کہ اِس معاملے کے بیچ تو خود مسلم لیگ نون میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔خادمِ اعلیٰ اور چودھری نثار احمد پرویز مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے کے زبردست حامی ہیں جبکہ”خواجگان“اور پرویز رشید ایسی بات زبان پر لانے والوں کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

البتہ بڑے میاں صاحب کو ایسے”فضول“کاموں میں سَر کھپانے کی پہلے فُرصت تھی نہ اب ہے۔وہ تو اِسی بات پر خوش ہیں کہ اُن کی اور عسکری قیادت کی آجکل گاڑھی چھنتی ہے اِس لیے راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔جتنی بار وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں کر چکے ہیں،اُنہیں مدِ نظر رکھتے ہوئے تو اُن کا نام گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے۔


عطاء بھائی نے اپنے کالم میں جو یہ فرمایا ہے کہ ہنگامی حالت میں ”سور“کھانا شرعاََ جائز ہے،اِس پر یقین نہ کرنے کی بظاہر تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ وہ ایسے مذہبی گھرانے کے سپوت ہیں جس کی وجاہتِ علمی سے مفر ممکن نہیں۔باوجودیکہ اندر سے چھوٹے موٹے مفتی عطا بھائی خود بھی ہیں لیکن ہم نے بہتر جانا کہ کسی سند یافتہ مفتی صاحب سے بھی مشورہ کر لیا جائے۔

ویسے تو پورا پاکستان ہی”مفتیان“سے بھرا پڑا ہے اور سب سے بڑے مفتی تو ہمارے وہ لکھاری اور تجزیہ نگار ہیں جن کے تجزیوں اور تبصروں کو من و عن قبول کرنا عین عبادت ہے کیونکہ اگرقبول قبول نہ کہا جائے تو وہ ٹھَک سے”بھاڑے کے ٹٹو“جیسے فتوے بھی صادر فرما دیتے ہیں۔لیکن ہم ٹھہرے تھوڑے”وہمی“اِس لیے ایک عالمِ دین تک جا پہنچے جِس نے ہمیں مزید الجھا کے رکھ دیا۔

اُس نے فتویٰ دیا کہ”سور“کی کئی قسمیں ہوتی ہیں،جِن میں سے کچھ کو بحالتِ مجبوری کھانا شرعاََ جائز ہے اور کچھ کوکھانا ناجائز خواہ بھوک کے ہاتھوں موت ہی واقع کیوں نہ ہو جائے۔اب عطاء بھائی کیا کہتے ہیں بیچ اِس”فتوے“کے؟۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم،قاف لیگ،مولانا طاہر القادری اور شیخ رشید تاحال”عشقِ مشرف“میں مبتلاء ہیں اوریہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ اِن کی ڈوریاں ہلانے والے کون ہیں لیکن میاں نواز شریف صاحب کی مسلم لیگ نے بھی اِن لوگوں کو”بانس“پر چڑھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی صورت میں مولانا طاہر القادری کو بیٹھے بٹھائے لیڈر بنا دیا اور چودھری برادران توکسی ایسے روزن کی تلاش میں تھے ہی جہاں سے اُمید کی کوئی کرن نظر آئے۔اُنہیں مولانا طاہر القادری کی شکل میں”جائے اماں“مِل گئی اور وہ وہیں کے ہو رہے ۔اِدھر اُدھر لڑھکنیاں کھانے والے شیخ رشید کا عالم یہ ہے کہ
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
وہ کبھی کپتان صاحب کی طرف لڑھکتے ہیں تو کبھی مولانا طاہر القادری کی طرف۔

پچھلے دنوں وہ اور چودھری برادران بِن بلائے”آستانہٴ قادریہ“پر جا پہنچے تومولانا طاہر القادری نے عالمِ غیض میں اُنہیں ایک گھنٹے تک باہر بٹھائے رکھا۔شیخ صاحب کراچی میں ایم کیو ایم یاترا بھی کر آئے اور الطاف بھائی سے”تمغہٴ کلاشنکوف“بھی وصول کر لیا لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ عمران خاں صاحب کے ساتھ ہیں حالانکہ خاں صاحب نے تو واشگاف الفاظ میں ایم کیو ایم کو”مافیا“قرار دے رکھا ہے۔

شیخ صاحب یہ سب کچھ حبِ علی میں کر رہے ہیں نہ بغضِ معاویہ میں۔اُن کی نظر تو چھوٹی موٹی وزارت پرہے، خواہ وہ نریندر مودی ہی سے کیوں نہ مل جائے۔اُدھرجنابِ نواز شریف نے یہ کہہ کر شیخ رشید کو نہال کر دیا کہ”جنہیں خود استعفیٰ دینا چاہیے وہ ہم سے استعفیٰ مانگتے ہیں“۔اب شیخ صاحب گلی گلی یہ شور مچاتے پھر رہے ہیں کہ وہ بھی بہت”پہنچی ہوئی شے“ہیں اسی لیے تو وزیرِ اعظم نے اُن سے استعفیٰ مانگا ہے۔


جنابِ آصف زرداری نے تو جنابِ نواز شریف کو بادشاہ نہ بننے کی تلقین کی ہے لیکن اصل بادشاہ تو ایم کیو ایم ہے جسے شاید خود بھی یاد نہیں کہ اُس نے کتنی بارپیپلز پارٹی کی حکومت کو داغِ مفارقت دیا اور کتنی بار گلے سے لگایا۔پیپلز پارٹی کے منظور وسان کہتے ہیں کہ ہمارا اور ایم کیو ایم کا رشتہ میاں بیوی جیسا ہے لیکن”میاں“ہم ہیں۔ویسے وسان صاحب نے بات پتے کی کہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں ایم کیو ایم کا کردار اُس جھگڑالو بیوی کا سا ہی رہا ہے جو ہر دو تین ماہ بعد روٹھ کر میکے چلی جاتی ہو۔شاید اسی لیے وسان صاحب نے پیپلز پارٹی کو خاوند کا درجہ دے کر ایم کیو ایم کو بیوی بنا دیا۔آجکل یہ”بیوی“مولانا طاہر القاری سے پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہے لیکن اُمیدِ واثق یہی ہے کہ وہ ایک دفعہ پھر شیخ الاسلام کو بیچ منجدھار چھوڑ کے چلی جائے گی کیونکہ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :