مودی کا دورہٴ کشمیر!

اتوار 20 جولائی 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

اقتدار میں آنے کے ماہ بھر بعد ہی جموں و کشمیرآکر نریندرمودی اس حوالے سے پہلے وزیرِ اعظم بن چکے ہیں کہ جنہوں نے اس حساس ریاست کا دورہ کرنے میں یوں جلدی کی ہو۔تاہم وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ریاست کے اس اولین دورے کو وہ کسی بھی طرح سے نمایاں بنانے میں یا تو ناکام رہے ہیں یا پھر اُنہوں نے جان بوجھ کر ایسا کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے دماغ کے اندر بن رہے اُن منصوبوں کا اشارہ دیا ہے کہ جو بہر حال کشمیریوں کی اکثریت کے لئے بے چینی کا باعث ہو سکتے ہیں۔


حالانکہ مودی کی طرفسے سرینگر میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات نہ کرنے یا اُنکے محض ایک دورہٴ جموں و کشمیر کو بنیاد بناکر اُنکی کشمیر پالیسی کے خدوخال کے بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہوگا۔یہ بات اپنی جگہ کہ تمام امکانات و قیاس آرائیوں کے باوجود نریندر مودی اپنے پہلے دورہٴ جموں و کشمیر کے دوران، مثبت یا منفی،کسی بنیادی کشمیر پالیسی پر وضاحت کے ساتھ بات نہ کرکے تجزیہ نگاروں کی سوچ کو نئی سمت دے چکے ہیں لیکن اُنکے ابتدائی اقدام کو پیمانہ بناکر اُنکی مستقبل کی کشمیر پالیسی کے بارے میں حتمی طور کہنا بھی سیاسی اعتبار سیبلا جوازقرار پاتا ہے۔

(جاری ہے)


انتہائی سنسنی خیز اور حیرانکن لوک سبھا انتخابات کے بعد وزیرِ اعظم بننے والے نریندر مودی کو دفتر سنبھالے ابھی ماہ بھر کا ہی وقت ہوا ہے کہ اُنہیں کشمیر آنے کی سوجھی۔کسی بہت زیادہ اور غیر معمولی تشہیر کے بغیر نریندر مودی 4جولائی کو ،محض چند ایک روز بتائے گئے،منصوبے کے مطابق پہلے جموں آئے اور یہاں ایک مختصر سے ریلوے ٹریک کا افتتاح کرنے کے بعد سرینگر آپہنچے جہاں فوجی کمانداروں اور سکیورٹی فورسز کی دیگر ایجنسیوں کے افسرانِ بالا کے ایک اجلاس کی صدارت کے بعد وہ شمالی کشمیر میں ایک بجلی پروجیکٹ کا رِبن کاٹنے کے بعد واپس دلی لوٹ گئے۔

وزیرِ اعظم کی جانب سے جموں و کشمیر کی سیاسی صورتحال پر کوئی بات ہوئی اور نہ ہی اس ریاست کے لئے کسی خاص یا ”آوٹ آف ٹرن“اقتصادی پیکیج کا ہی اعلان ہوا جیسا کہ اُنکے پیش رو ہم منصب اس طرح کے دوروں کے دوران کرتے آئے ہیں۔وزیرِ اعظم کے اس دورے کو اگر ”خاموش دورہ“کہا جائے تو شائد مبالغہ نہیں ہوگا یا پھر اسے کسی کمپنی کے منیجر کے دورے کے ساتھ تشبیع دی جا سکتی ہے کہ جو اپنے کسی دائرہ اختیار کا کاروبار دیکھنے کے بعد چُپ چاپ لوٹ جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ پہلے اپنے محض ماہ بھر پرانے دورِ اقتدار میں جموں و کشمیر کے جیسی سیاسی افراتفری کی شکار ریاست کا دورہ اور پھر اس دورے کے دوران یہاں کی صورتحال کو لیکر اپنے منصوبوں کا تذکرہ نہ کرنا…مودی نے ایسا کرکے کئی حلقوں کو حیران کر دیا ہے۔مودی کو جموں و کشمیر کا یوں عجلت میں دورہ کرنے کی کیا جلدی تھی یہ بھی بعض حلقوں میں حیرانگی کا باعث ہے کہ جن دو ترقیاتی منصوبوں کا اُنہوں نے رِبن کاٹا ہے وہ در اصل اُنکی کارکردگی نہیں ہے بلکہ دونوں ہی منصوبے سابق سرکار کے ہی دور میں افتتاح کے لئے تیار تھے ۔

پھر ان دونوں منصوبوں کا ریاست کو کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ہے جیسا کہ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ وضاحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ ریلوے لائن ویشنودیوی کے مندر کے زائرین کی سہولت کے لئے ہے اور اوڑی کا بجلی گھر بھی جموں و کشمیر کے اندھیرے کو دور کرنے کی بجائے بیرون ریاست روشنی پھیلانے کے لئے ہے۔
حالانکہ موجودہ وزیرِ اعظم کے دو نزدیکی پیشرو،اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ،بھی جموں و کشمیر کے ایسے دوروں پر آتے رہے ہیں لیکن اُنہوں نے،اچھی یا بُری،اپنی کشمیر پالیسی کو منوایا ہوا تھا اور اُنکے بارے میں اس حوالے سے ماحول کافی حد تک واضح تھا۔

چناچہ اٹل بہاری واجپائی کی ”کشمیر پالیسی“سے متعلق دلچسپ یہ ہے کہ اُنکے اقتدار میں آنے پھر جانے اور آج تک واضح طور کسی کو اس پالیسی کے بارے میں صحیح صحیح معلوم نہیں ہے کہ اُنکی اصل میں کوئی کشمیر پالیسی تھی بھی یا نہیں اور اگر تھی تو کیا تھی لیکن اسکے باوجود ابھی تک”انسانیت کے دائرے میں“والی اُنکی ”پالیسی“کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔


فی الحقیقت لوک سبھا انتخابات کے دوران نریندر مودی کو علیٰحدگی پسندوں کے ایک دھڑے کی جانب سے غیر متوقع حوصلہ بھی اسی بات پر ملا تھا کہبی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی حکومت بننے کی صورت میں کشمیر سے متعلق ”جرأت مندانہ“اقدامات ممکن ہو سکتے ہیں۔چناچہ علیٰحدگی پسند حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے لیڈر مولوی عمر فاروق نے یوپی اے اور این ڈے اے کا مقابلہ کرتے ہوئے واجپائی کی ”پالیسی“کی زبردست تعریفیں کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی تھی کہ این ڈے اے کے اقتدار میں لوٹنے کی صورت میں کشمیر کے حوالے سے تصفیہ کشمیر کے حوالے سے پیشرفت ہو سکتی ہے۔

اب جبکہ این ڈی اے با ضابطہ حکومت میں ہے بھی،عمر فاروق جیسے لوگوں کو مایوسی ہی نہیں ہو رہی ہوگی بلکہ مبصرین کے مطابق اُمیدوں کی جگہ خدشات نے لینا شروع کی ہے۔
جموں کے مضافات میں ادھمپور-کٹرہریلوے لائن کا افتتاح کرنے کے بعد ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیرِ اعظم نے کہاکہ وہ تعمیر و ترقی کے ذرئعہ کشمیریوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں تاہم جس وقت وہ جموں کے مضافات میں ویشنو دیوی کے مندر کے پاس کشمیریوں کے دلوں میں بسنے کی باتیں کر رہے تھے سرینگر کی جامع مسجد میں لوگوں کو رمضان کا پہلا جمعہ ہونے کے باوجود نماز کی ادائیگی سے روکا جا رہا تھا۔

وزیرِ اعظم کے دورہ کے دورانوادیٴ کشمیرمیں ایک طرف علیٰحدگی پسندوں کی کال پر زبردست ہڑتال تھی تو دوسری جانب احتجاجی مظاہروں کے خدشے سے پریشان سرکار کی جانب سے کرفیو نافذکیا گیا تھا جسکی وجہ سے پوری وادی میں معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو کے رہ گئے تھے۔وزیرِ اعظم کے دورے کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ہڑتال کی کال دیتے ہوئے بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے ایک بیان میں کہا تھا’ہماری اُن کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے، البتہ وہ اُس ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے یہاں کا دورہ کررہے ہیں، جس نے ہم کو جبراً غلام بنایا ہوا ہے اور جس کی افواج ایک منصوبہ بند طریقے پر ہمارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار رہی ہیں“۔

علیٰحدگی پسند دھڑہ حریت(ع)نے بھی اس دن کے لئے ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا ہے”ہوسکتاہے بھارت کے وزیر اعظم کے دورے کے کچھ اقتصادی محرکات ہوں مگر اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کوئی اقتصادی یا معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے جس کے ساتھ سوا کروڑ لوگوں کا سیاسی مستقبل جڑا ہوا ہے اورجس کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کئے بغیر اس خطے میں معاشی و اقتصادی ترقی اور دائمی امن کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا“۔

لبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے کے لیڈر یٰسین ملک نے بھی 4جولائی کے لئے ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا ہء” وزیر اعظم ہندریاست ہندوستان کے سربراہ کی حیثیت سے کشمیریوں کے حق آزادی کی نفی‘ یہاں ڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم اور مصائب کے لئے علامتی طور ذمہ دار ہوتے ہیں، اسی حقیقت کے پیش نظر کشمیری مسٹر مودی کی آمد پر اپنی مکمل ہڑتال کے ذریعے اپنا احتجاج درج کروائیں گے“۔


ادھمپور میں اپنے خطاب کے دوران مودی نے وادی میں اُنکی آمد پر ہوئی ہڑتال کا کوئی تذکرہ کئے بغیر کہا”میں کشمیر کی دھرتی پر آیا ہوں،ماتا ویشنو دیوی کا آشیرواد لینے آیا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی ڈھانچہ تعمیر و ترقی کی ماں ہے‘ ۔ انہوں نے کئی منصوبوں کا حوالہ دے کر کہا ’ہم کشمیریوں کے دل و دماغ جیتنا چاہتے ہیں“۔اُنہوں نے کہا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کشمیر سے متعلق اُنکا شروع کردہ سفر پورا کرینگے۔

اُنہوں نے اس سفر کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ یہ کس سمت میں ہوگا اور اسکی اصل منزل کیا ہوگی تاہم تعمیرو ترقی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے اُنکی ”کشمیر پالیسی“کے خدوخال جاننے کا اشتیاق رکھنے والوں کے لئے ایک طرح سے ایک سراغ ضرور چھوڑا اور احساس دیا کہ وہ کھلی سڑکوں،اونچی عمارتوں اور خم دار فلائی اوروں کے ستونوں کے نیچے اُن سبھی آوازوں کو دبادینا چاہتے ہیں کہ جو مجموعی طور”مسئلہ کشمیر“کہلاتی ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ مسٹر مودی کے سبھی پیشرو جموں و کشمیر میں تعمیروترقی کے سبھی ریکارڈ توڑ دینے کے وعدے تو کرتے رہے ہیں تاہم عملی طور ابھی تک ترقی کے محاذ پر بھی کشمیر نے کچھ نہیں دیکھا ہے ۔تجربے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ترقی کے یہ نعرے بھی در اصل سیاسی ہوتے ہیں اور سیاست میں ضروری نہیں کہ سیاستدان جو کہے وہ عملی طور ایسا ہی کرے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ اِتنے اور اُتنے ہزار کروڑ روپے کے اقتصادی پیکیجوں کا اعلان کرنے والی سرکاریں برسوں قائم رہنے کے بعد چلی بھی جائیں مگر کشمیر میں ترقی نہ ہوئی ہو۔


سید علی شاہ گیلانی نے وزیرِ اعظم کی جموں و کشمیر کی ترقی سے متعلق باتوں پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر جموں و کشمیر میں سونے کی سڑکیں بھی بچھائی جائیں کشمیری اپنے حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہونگے۔گو کہ مولوی عمر فاروق یا دیگر علیٰحدگی پسندوں نے اس حوالے سے کوئی لب کُشائی تو نہیں کی تاہم وزیرِ اعظم کے دورہٴ ریاست پر تبصرہ کرتے ہوئے سید گیلانی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بات نہ کرنا” شُتر مرغ کے ریت میں سر چُھپانے کے جیسا ہے۔

ایک بیان میں اُنہوں نے کہا ہے ” مسٹر نریندرمودی نے مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہ کرکے اصل میں بھارت کی روائتی ضد اور ہٹ دھرمی والی پالیسی کا اعادہ کیا ہے اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد، امنگوں اور قربانیوں کو کسی خاظر میں نہیں لاتے ہیں“۔ وزیر اعظم کی طرفسے کشمیریوں کے دل جیتنے کے لئے کوشاں ہونے کی دعویداری پر تبصرہ کرتے ہوئے بیان میں کہا گیاہے” کشمیریوں کو لالی پپ دکھلا کر بہلایا جاسکتا ہے اور نہ الفاظ کے ہیر پھیر سے انہیں فریب دیا جاسکتا ہے “۔

سید گیلانی نے کہا ہے کہ” مسٹر مودی نے اصل میں یہ کہہ کر بہت زیادہ سیاست کی ہے کہ کشمیر سیاست کرنے نہیں دل جیتنے آیا ہوں، کیونکہ حقائق کو نظرانداز کرکے دل نہیں جیتے جاتے ہیں اور نہ اس طرح سے زخموں پر مرہم رکھا جاسکتا ہے۔ یہ آپ کے غرور اور بے پروائی کو ظاہر کرتی ہے کہ آپ کو لوگوں کے دکھ درد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس ٹیس کو محسوس کرتے ہیں، جو کشمیریوں کے دلوں سے اُٹھتی ہے“۔


مبصرین کا ماننا ہے کہ سید گیلانی کی پریشانی در اصل یونہی نہیں ہے بلکہ نریندر مودی نے کشمیر کی سیاسی صورتحال پر بات نہ کرکے ایک طرح سے غیر محسوس انداز میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اُنکی کشمیر پالیسی مسئلہ کشمیر کو ایک الگ ہی ہیئت دینے کی ہے ۔ان مبصرین کے مطابق نریندر مودی واقعتاََ جموں و کشمیر میں تعمیروترقی کے کام کرنے کے علاوہ وادی چھوڑ کر گئے گئے ہندووٴں کو واپس کشمیر لے آنے کے جیسے فروعی معاملات پر زیادہ توجہ کرنے کے جیسے اقدامات کو ترجیح دیکر کشمیر کی صورتحال اور یہاں کے” مسئلہ “کو فروعی مسائل کی آڑ میں گھم کر دینے کی پالیسی پر کاربند رہیں گے۔

معنیٰ خیز ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنے دورہٴ کشمیر کے دوران ہی کشمیر پر خاموش نہیں رہے ہیں بلکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے صدرِ ہند کی تقریر،جو وزیرِ اعظم کی جانب سے اپنائی جانے والی پالیسی کی آئینہ دار ہوتی ہے،بھی اس ھوالے سے خاموش تھی اور اس میں کشمیری ہندووٴں کی وادی واپسی کے منصوبے کے بغیر اس ریاست کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔


یہاں پر یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ نریندر مودی ایک ایسے وقت پر مرکزی سرکار کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں کہ جب وادیٴ کشمیر کی سکیورٹی صورتحال قدرے پُر سکون ہے اور دوسری جانب جموں میں بی جے پی کا ،پہلی بار،اسقدر اثر بڑھتا دکھائی دے رہا ہے کہ پارٹی اپنے آپ کو جموں و کشمیر میں ایک اہم فریق تصور کرنے لگی ہے۔لوک سبھا انتخابات میں جہاں پی ڈی پی نے وادیٴ کشمیر کی تینوں نشستیں اپنے نام کر لی ہیں وہیں بی جے پی نے جموں کی دو اور لداخ کی ایک ایک سیٹ پر قبضہ کرکے اسقدرحوصلہ پایا ہے کہ پارٹی نے اسمبلی انتخابات میں 87رکنی اسمبلی کی کم ازکم44نشستوں پر نظریں مرکوز کر لی ہیں۔

جموں و کشمیر جیسی ریاست میں،جہاں ماضیٴ قریب تک بی جے پی کے لئے چند ایک سیٹوں کی تمنا کرنا بھی دیوانے کے خواب کی طرح تھا،44سیٹوں کا حصول پارٹی کے لئے کتنا ممکن ہو سکتا ہے یہ الگ لیکن اتنا ضرور ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں سامنے آئی ووٹنگ ٹرنڈ کے مطابق جموں صوبہ میں ہندو اکثریت والے اُن علاقوں میں پارٹی کو خوب ووٹ ملے ہیں کہ جہاں کبھی کانگریس کا دبدبہ ہوتا تھا۔


سیاسی پنڈتوں کا اندازہ ہے کہ نریندر مودی نے ایک طرف مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مون بھرت اختیار کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اب جبکہ کشمیر میں کوئی ہنگامہ بھی نہیں ہے اُنہیں علیٰحدگی پسندوں یا دیگر حلقوں کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے تو دوسری جانب وہ ریاست میں اسمبلی کے انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں۔لیکن کیا کشمیر کے پُرسکون رہنے کی کوئی ضمانت ہے اور کیا اقتصادی اقدامات سے یہاں کی سیاسی صورتحال کو قابو کیا جا سکتا ہے…ماضی میں ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملا کرتا رہا ہے …!!!(بشکریہ عالمی سہارا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :