ایک لمحہ ٹھہر کر سوچئے

اتوار 20 جولائی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ایک آدھ دن نہیں‘ دو چار گھنٹے نہیں‘ محض ایک لمحہ ٹھہر ‘جہاں آپ موجود ہیں ‘جس بھی حالت میں ہیں‘ ٹھہر کر ‘ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچئے ‘ہم خدانخواستہ نہیں چاہتے کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو لیکن محض اس لئے کہ آ پ ان لوگوں کی تکلیف کا احساس کرسکیں۔ سوچئے کہ آپ اپنی اولاد ‘مال متاع کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں‘ اچانک آپ پر طیاروں سے ‘ میزائلوں سے بمباری شروع ہوجاتی ہے‘ آپ کے آس پاس ہرسوقیامت برپا ہے‘ آپ کا مال متاع‘ معصوم بچے اسی قیامت کی نذر ہوجاتے ہیں۔

آپ کا گھر کاگھر لٹ جاتاہے‘ آپ خود بھی زخمی ہیں‘ آپ گھر کی طرف دیکھتے ہیں تو سوائے کھنڈرات کے کچھ نہیں ملتا‘ سوچتے ہیں کہ ظالموں نے آپ کے ساتھ ہی ایسا ظلم کیا ‘آپ کے دیگر عزیز واقارب کیسے ہونگے؟؟ یہی سوچ کر بھاری قدموں اور پژمردہ دل کے ساتھ آپ عزیزو ں کی طرف جانکلتے ہیں وہاں سوائے موت اور کھنڈرا ت کے کچھ نہیں نظرآتا۔

(جاری ہے)

گویاآپ کے آس پاس کچھ ہی دیر پہلے زندگی اپنی پوری رنگینی کے ساتھ موجودتھی اب وہاں موت کے سائے ہوں۔

سوچئے کہ آپ پر کیا بیتے گی؟؟ یہ سوال دکھی دل کے ساتھ کررہے ہیں ‘محض اس تصور کے ساتھ کہ خدا نہ کرے کہ ایسا ظلم کسی کے ساتھ ہو‘ لیکن اگر ایسا ظلم امت مسلمہ کے ایک جزولاینفک کے ساتھ ہورہاہو تو یقینا پوری امت تکلیف میں ہوگی۔
سوچئے ‘ذرا دل پرہاتھ کر پھر فیصلہ بھی کرنا ہے ‘آپ کے ساتھ اگر یہ قیامت کاساسماں محض ایک مرتبہ ہو تو یقینا زندگی بھر قلق رہے گا لیکن اگر فلسطینیوں کے ساتھ یہ سلوک بلکہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ بدترین رویہ ہردوسرے تیسرے ماہ اختیا ر کیاجاتاہوتو سوچئے کہ ان کے روئیے کیاہونگے؟؟
صاحبو! ہم اپنی اولاد‘ ماں باپ ‘بہن بھائی اوراہل وعیال کے ساتھ جب افطار یا سحری کیلئے دستر خوان پر موجودہوتے ہیں تو محض ایک لحظہ نوالہ منہ میں ڈالنے سے قبل محض یہی سوچنے کیلئے رک جائیں کہ پتہ نہیں ان معصوم فلسطینی بچوں کو بھی دو وقت کا کھانا میسر ہوگا جن پر اسرائیل جیسے سفاک درندے میں کارپٹڈ بمباری کی انتہا کردی۔

ہمارا خیال ہے کہ ہرذی شعور مسلمان یہی سوچتا ہوگا ‘ دنیا بھر کے اربوں مسلمان بھی یہی سوچتے ہونگے کہ یہ سبھی ایک ہی چین میں جڑے ہوئے ہیں ۔پھر ذہن میں خیال آتا ہے کہ دنیا کے پچاس سے زائد مسلمان ملکوں کے حاکمین بھی اسی درد میں ڈوبے ہوئے ہونگے لیکن خدا جانتا ہے کہ ہم نے پچا س سے زائد مسلمان ممالک کے کسی بھی حاکم کے چہرے پر فلسطینی عوام کا دکھ نہیں دیکھا ۔

شاید انہیں اُس کرب کا احساس نہیں جس سے فلسطینی عوام‘ معصوم بچے‘ عورتیں اور بزرگ گزررہے ہیں۔
دنیا کے امیر ترین ممالک یا امیر ترین حاکمین کی فہرست دیکھی جائے تو امت مسلمہ فخر سے سراٹھاکر کہہ سکتی ہے کہ ہاں ہم تیل کی دولت سے مالا مال ہیں(یہ ایسی دولت ہے جس کی چاہ دنیا کے ہرچھوٹے بڑے ملک کو ہے)اس کے ساتھ ساتھ دیگر اہم ترین ذخائر سے یہ امت مالا مال ہے ‘مگر اسے بدقسمتی ہی تصور کیاجائیگا کہ امت مسلمہ جہاں کئی خانوں میں بکھری ہوئی ہے وہاں ان پر حکمرانی کرنیوالے لوگوں کی ترجیحات بھی الگ ہیں۔

سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کے تقریباً سبھی اسلامی ممالک پر ایک آکٹوپس کا سایہ ہے اور یہ آکٹوپس ہرآنیوالے دن کے ساتھ اس کی رگوں سے خون نچوڑنے کے علاوہ انہیں گہری دلدل میں دھکیلتا جارہاہے ۔ یہ آکٹوپس جسے دنیا امریکہ کے نام سے جانتی ہے ۔اس نے نفرت‘ لسانیت ‘ فرقہ واریت کا زہر جس انداز میں امت مسلمہ کی رگوں میں انڈیلا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

دوسرا اور انتہائی کریہہ آمیز فعل جو امت مسلمہ کے اس دوست نما دوست نے انجام دیا وہ یہ ہے کہ اس نے ہرمسلمان کو ”دہشتگرد “ کا روپ دیدیا ۔ آج دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمان اپنی پہچان یعنی سنت رسول کے ساتھ کھلے عام نہیں پھرسکتا۔ اسے ستم ظریفی سے ہی متنج کیاجائیگا کہ پہلے اسلامی ممالک کو ”جہاد “ کی راہ پر ڈالنے والا امریکہ اب فساد فی الارض کے بعد ظاہراً انہی لوگوں کامتلاشی ہے مگر درپردہ انہی کی حمایت بھی کررہاہے۔

آج شاید ہی دنیا کاکوئی مسلمان اس صورتحال سے بے چین نہ ہو۔
چاہئے تو یہ تھا کہ امت مسلمہ کے اس دوست نما دشمن کو شہید ہونیوالے فلسطینی عوام ‘معصوم بچے بچیوں کیلئے ہمدردی کے دو لفظ ہی بول دیتا مگر اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی اس نے اپنے پالتو ملک کو زیادہ اہمیت دی جو نہ صرف اپنے وجود کیلئے خطرہ ہے بلکہ اس کی بدولت امریکی بنیادیں بھی خطرے سے دوچار ہیں۔


بہرحال یہ الگ بحث ہے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے محض یہی کہنا ہے کہ پاکستان پر ”مولویوں “ کا قبضہ اور عورتوں کو غلام بناکررکھنے والے مردوں کی حکمرانوں کا واویلا کرنیوالے وہ نام نہاد سماجی کارکن بھی منظر سے غائب ہیں جن کی دال روٹی کبھی امریکن ڈالرز سے چلتی ہے تو کبھی کسی دوسرے غیرمسلم کے ڈالرز‘ پاؤنڈز اس کی آنکھوں کو خیرہ کئے دیتے ہیں۔

وہ این جی اوز جو خود ساختہ دوچار سروے کے بعد اعلان کردیتی ہیں کہ اس معاشرے میں عورتوں کو باندی بناکررکھا گیا ہے ‘یہی این جی اوز ہی ڈھنڈورہ پیٹتی دکھائی دیتی ہیں کہ عورتوں کو اصل مقام نہیں دیاجاتا ‘ ان کا ڈھنڈورہ تو یہ بھی ہوتاہے کہ بچوں سے بدسلوکی کی جاتی ہے ‘ یہ واویلا پوری امت مسلمہ کے حوالے سے بھی ہے لیکن جونہی امت مسلمہ کسی سانحے‘ حادثے سے دوچار ہوتی ہے تو یہ این جی اوز جانے کس بل میں جاگھستی ہیں اور ان کی انسانیت نوازی پردہ پوشی کے بعد جانے کہاں چھپ جاتی ہے۔

کہنا محض اتنا ہے کہ مسلمان اوراسلام کو بدنام کرنیوالوں کو کیا وہ معصوم فلسطینی بچے نظرنہیں آتے جن کیلئے زندگی عذاب بنادی گئی ہے۔ انہیں روتی بلکتی عورتیں نظرنہیں آتی جن کے شوہر‘بھائی ‘ والد دہشت کانشانہ بن گئے۔ کیا وہ عورتیں بنیادی حقوق کی حقد ار نہیں؟ کیا ان بچوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ؟؟ کیا یہ بچے ‘یہ عورتیں اس قدر بھی حق نہیں رکھتے کہ آزادی کے ساتھ اپنے ملک میں جی سکیں ‘ ایک ایسا ملک جسے اسرائیلی چوہوں نے کتر کتر کر اتنا سمیٹ دیا ہے کہ فلسطینیوں کیلئے سانس لینا بھی محال ہوچکا ہے؟ یا پھر انسانیت نوازوں کی نظر میں مسلمان انسان ہی نہیں ہوتے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر مسلم معاشروں سے ان نام نہاد انسانیت نوازوں کو ‘جو اس وقت امت کیلئے ناسور بن چکے ہیں‘ فوری طورپر باہر نکالنا ہوگا ۔

کیونکہ انہی کے سروے اور نشاندہی نے پوری امت کو بدنامی سے دوچار کررکھا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :