بجلی مہنگی،پھر بھی ملتی نہیں۔۔!

بدھ 16 جولائی 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

بتایا جاتا ہے جو یقیناً سچ کے قریب ہے کہ پاکستانی عوام دنیا بھر کے ممالک میں سب سے زیادہ ایسی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں جو انہیں ملتی بھی پوری نہیں بلکہ جو بجلی مہیا کی جاتی ہے اس کی ترسیل کا کوئی موثر نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے جب دل کرتا ہے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں یا ادارے صارفین کو مہیا کر دیتے ہیں اور جب دل چاہتا ہے بند کر دیتے ہیں ،بلکہ جب مہیا کی جاتی ہے اس وقت بھی وولٹیج کی کمی سے صارفین کی الیکٹرونکس اشیاء جل جاتی ہیں جس کے کے نقصاں کا تخمینہ اس وقت تک نہیں لگ سکتا جب تک صارفین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم ،زیادتی اور نقصان کے لئے عدالتوں کا بھاری دروازہ نہیں کھٹکٹاتے یا صارف عدالتوں سے اپنے نقصان کے ازالے کے لئے رجوع نہیں کرتے سنا ہے صارف عدالتوں کی کارکردگی اور معیار سے سائل بہت خوش ہیں بس ہمت کی بات ہے اگر صارفیں عدالتوں سے داد رسی چاہنے کی مشق کو عام کر لیں تو ہو سکتا ہے لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات کے ساتھ بجلی کی کمی بیشی سے ہونے والے نقصانات سے بھی بچ سکیں ورنہ وزیر بجلی پانی نے تو فرمادیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے بارش کی لئے دعا کی جائے موسم ٹھندا ہو گا تو بجلی کی کھپت کم ہو کر سپلائی بہتر ہو جائے گی ،کیسی قسمت ہے اس قوم کی جہاں اس قدر اعلیٰ ذہانت کے حامل وزیر اور حکومت ہے۔

(جاری ہے)


ڈیم ہم بناتے نہیں یا بننے نہیں دیئے جاتے جن سے ملکی پانی اور بجلی کی ضروریات سستے داموں پوری ہوسکیں جبکہ مہنگی بجلی(جس میں تیل کا استعمال ہوتا ہے اور بہت سارے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے) پیدا کرنے کی طرف ہماری بھاگ دوڑ بہت زیادہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ دو ماہ سے جو بجلی کے بل آ رہے ہیں انہیں ادا کرتے کرتے بجلی کے صارفین کی باں باں ہو گئی ہے حکومت تو جواب دینے سے قاصر ہے ورنہ اس سے پوچھا جاسکتا تھا کہ صارفین کے پاس ایسا کون سا خزانہ آگیا ہے کہ بجلی کی قمیتیں سو فیصد سے بھی زیادہ کر دی گئی ہیں امیر غریب ایک ہی صف میں لا کھڑئے کر دئے ہیں نہ کوئی بندہ رہنے دیا ہے اور نہ کوئی بندہ نواز مساوات صرف یہاں ہی کیوں، بھوک اور اندھیرے کو کیوں ساری اشرافیہ اور معاشرے پر تقسیم نہیں کر دیا جاتا۔


پاکستان میں بجلی اس کی رسد اور کھپت کے ساتھ قیمتوں کے حوالے سے اس جائزہ رپورٹ میں بھی کچھ حقائق بیان کئے گئے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی جائزہ رپورٹ 2012 اور 2013 کے مطابق پاکستان میں توانائی کے حصول تقریباً نصف قدرتی گیس پر مشتمل ہے جبکہ درآمدی تیل سے29 فیصد توانائی پیدا کی جاتی ہے۔پاکستان میں 146 گیس فیلڈز سے قدرتی گیس حاصل ہو رہی ہے۔

ملک میں گیس کے زیر استعمال ذخائر سندھ میں موجود ہیں اور سندھ میں 74 گیس فیلڈز سے قدرتی گیس نکالی جا رہی ہے جبکہ پنجاب میں 13، خیبر پختوانخوا میں 2 اور بلوچستان میں موجود گیس کے 7 ذخائر سے قدرتی گیس مل رہی ہے۔پاکستان کے علاوہ خطہ کے دوسرے ممالک بنگلہ دیش میں 73 فیصد توانائی کا انحصار قدرتی گیس پر ہے جبکہ بھارت میں گیس کے ذخائر کم ہیں اور وہاں صرف 9 فیصد بجلی گیس سے حاصل کی جاتی ہے۔

پاکستان کوئلے کے ذخائر کی فہرست میں میں دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔لیکن ملک میں صرف 10 فیصد توانائی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے۔پاکستان کے اقتصادی جائزہ رپورٹ 2012 اور 2013 کے مطابق پاکستان میں 29 فیصد بجلی قدرتی گیس سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ پانی سے 35.7 فیصد اور درآمدی تیل سے35 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ملک میں بجلی زیادہ تر بجلی قدرتی گیس سے حاصل کی جاتی ہے۔

اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کے جولائی 2012 سے مارچ 2013 کے دوران گیس کی سپلائی گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 2 فیصد کم رہی ہے گیس کی سپلائی میں کمی سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
ماہرین نے ملک میں جاری توانائی کے بدترین بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت کو تجویز دی ہے کہ بجلی کے موجودہ بحران کے دیرپا حل کے لئے نئے ذرائع پر غور کیا جائے اور کوئلے و پانی جیسے سستے ذرائع سے بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کو اولین ترجیح دی جائے۔

۔ کوئلے سے بجلی کی پیداوار سے مجموعی لاگت میں کمی آئیگی اور وصول نہ ہونے والی ادائیگیوں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ اس اقدام کی صورت میں فی یونٹ اوسط قیمت تقریباً نو روپے ہوگی جس سے حکومت پر سبسڈی کے بوجھ میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل المدت منصوبہ بندی کے لئے تھر میں پائے جانے والے کوئلے کے وافر ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ دریاؤں کے کناروں پر مختلف ایسے منصوبوں کی تنصیب سے، جن کیلئے ڈیم بنانے کی بھی ضرورت نہیں، باآسانی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے تاہم ان منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کرنا ہوگی اسلئے ایسے منصوبوں کے لئے سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بجلی کے بحران پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں بجلی کی پیداوار کے مختلف ذرائع پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ سب سے زیادہ بجلی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے جو ۴۱ فیصد ہے۔

اس کے علاوہ گیس سے ۲۱ فیصد بجلی حاصل کی جاتی ہے جو توانائی حاصل کرنے کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان میں اس کے برخلاف ہائیڈل اور فرنس آئل کو بجلی کی پیداوار کے سب سے بڑے ذرائع کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، جو بالترتیب تقریباً ۹۲ء۳۵ فیصد اور ۳۰ء۳۴ فیصد ہیں، جبکہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار انتہائی کم ترین سطح پر ہے جو صرف ۱۱ء۰ فیصد ہے۔

قدرتی گیس بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک بڑا ذریعہ ہے حالانکہ ملک میں گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ جوہری توانائی بجلی کی پیداوار کیلئے دنیا میں چوتھا سب سے بڑا ذریعہ ہے تاہم پاکستان میں اس سے صرف ۹۶ء۳ فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے جو پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک برداشت نہیں کرسکتا اور یہی وجہ ہے کہ تیل سے بجلی حاصل کرنے کے باعث پاکستان کی معیشت مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔


اس طرح کے جائزے اور رپورٹیں ہمارے لئے مثل راہ ہو سکتی ہیں اگر ہم روشنی کی قدر و قیمت کو جانیں اور ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہو کہ پاکستان کی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان انرجی کے بحران کی وجہ سے ہورہا ہے حکومت کو باقی سب کام چھوڑ کر صرف بجلی کے مسلے کو پاکستان کا پہلا اور آخری مسلہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی تب جاکر بجلی کا مسلہ حل ہوگا ورنہ اندھیرئے سب کچھ کھا جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :