نعمت اوررحمت

پیر 14 جولائی 2014

Muhammad Tahir Masood Atta

محمد طاہر مسعود عطاء

”اللہ تعالیٰ آپ کوخوبصورت بیٹاعطافرمائے۔“یہ سن کروہ چونک اٹھا۔وہ رنج والم کی تصویربن گیا۔
عابدنام کاایک نوجوان ہمارے آفس میں” آفس بوائے “تھا۔وہ انتہائی شریف انسان تھا۔وہ جب اپنی پنجابی زبان میں بات کرتاتوبہت ہی اچھالگتا۔وہ کبھی میرے پاس آبیٹھتا۔میرے ساتھ اپنی باتیں شیئرکرتا۔مجھے بھی اس سے اُنس ہوگیا۔جب وہ نہ آتاتومیں اس کوتلاش کرتارہتا۔

راستہ میں ملاقات ہوتی تواس سے نہ ملنے کاشکوہ کرتا۔ آگے سے وہ اپنی مصروفیت کارونارودیتا۔اس کی شادی ہوچکی تھی ۔اللہ نے اس کو ایک پیاری سی بیٹی دی ۔عابدکوبیٹی سے بہت زیادہ پیارتھا۔بیٹی بھی اس سے زیادہ مانوس تھی۔آفس سے جانے کے بعد وہ بیٹی سے کھیلتارہتا۔بیٹی کی محبت اس میں رچ بس گئی تھی ۔

(جاری ہے)

اللہ کی شان گیارہ ماہ کے بعد اس کی بیٹی اللہ کوپیاری ہوگئی۔


عابدبہت افسردہ ہوا۔بیٹی کی موت سے اس کوبہت دکھ ہوا۔اس کو بیٹی کی یادستاتی رہتی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سنبھل گیا،لیکن بیٹی کی یاد اس کے دل سے محونہیں ہوئی ۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کی بیوی کوامیدہوئی ۔اس نے اللہ سے دعاشروع کی کہ اللہ اسے ایک اوربیٹی دے۔اللہ نے اسے ایک بیٹاعطافرمایا۔بیٹے کی اسے خوشی ہوئی لیکن بیٹی کی حسرت پھربھی باقی رہی۔

کچھ دن پہلے اس نے مجھے بتایاکہ” اس کی بیوی ماں بننے والی ہے۔“ ایک دن میرے ساتھ وہ لفٹ میں تھا۔میں نے اسے کہا”اللہ پاک آپ کو خوبصورت بیٹاعطافرمائے“۔یہ سن کروہ چونک اٹھا۔اس نے جواب میں آمین بھی نہیں کہا۔میں حیرت سے اسے تکنے لگا۔میں نے دیکھاکہ میری دعاسے وہ خوش نہیں ہوا،بلکہ وہ رنج والم کی تصویربن گیا۔اس نے بڑی حسرت سے کہا ”دعاکرواللہ مجھے بیٹی دے“۔

مجھے اوربھی حیرت ہوئی کہ لوگ نرینہ اولادکی دعائیں کراتے ہیں ۔میں اس کودعادے رہاہوں اور یہ بیٹی مانگ رہاہے۔وہ کہنے لگاکہ” میری ایک بیٹی تھی ۔وہ گیارہ ماہ کی تھی جب وہ اللہ کوپیاری ہوگئی ۔میں نے توپہلے بھی اللہ سے بیٹی مانگی تھی۔مگراس نے بیٹادے دیا۔ اب پھر بیٹی مانگ رہاہوں۔آپ بھی دعاکریں اللہ مجھے بیٹی دے دے۔“پھرکہنے لگاکہ” ٹھیک ہے بیٹابھی اللہ کی نعمت ہے مگربیٹی تورحمت ہے نہ جی۔

“عابدیہ کہہ کرلفٹ سے اتر گیا ۔
عابدکی باتیں سن کرمیں ماضی کے اوراق میں کھوگیا۔میرے سامنے ماضی کے ورق الٹنے لگے۔اچانک ایک ورق پرمیری نظرپڑی تومیراسرشرم سے جھک گیا۔انسانیت کی پست ترین شکل میرے سامنے تھی۔جگہ جگہ بنت ِ حواکاخون بکھرا پڑا تھا۔بہت سے انسانوں کے ہاتھ اس کے خون سے رنگین تھے۔جب میں نے غورسے دیکھاتومعلوم ہوا قاتل کوئی اور نہیں ۔

خودوالدین ہیں۔ کہیں پروالداپنی لختِ جگرکاگلاگھونٹتا نظرآیا توکہیں ماں کے ہاتھ خون سے رنگین نظرآئے ۔الہی یہ کیاماجراہے ؟یہ کیسے والدین ہیں ؟کیایہ اتنے سنگ دل ہوگئے ہیں کہ معصوموں کی سسکیاں بھی ان پراثرنہیں کرتیں۔میں اسی کرب کے ساتھ بارباران اوراق کودیکھتاجارہاتھا۔اچانک میری نظر بھٹک کرکچھ گڑہوں پرجاپڑی۔ ان کے کنارے کچھ خواتین بیٹھی نظرآئیں۔

میں حیرت واستعجاب میں مبتلاان کے اس طرح بیٹھنے کی وجہ معلوم کرنے کے لیے بے چین ہوگیا۔پتہ چلا کہ یہ مائیں بننے والی ہیں۔یہ مائیں بننے والی ہیں اوریہاں گڑھے کے کنارے بیٹھی ہیں!!میں کچھ سمجھ نہ پایا۔کچھ ہی دیرمیں ایک آوازنے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔”یہ یہاں اس لیے بیٹھی ہیں کہ اگربیٹا پیدا ہوا تو ٹھیک ۔ اگربیٹی پیداہوئی تواس کواسی گڑھے میں دفن کر دیں۔

“میرے اوپرحیرتوں کے پہاڑٹوٹ پڑے۔میں تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ ایک ماں بھی ایساکرسکتی ہے ۔میں زیادہ دیراس بھیانک منظرکونہ دیکھ سکااورآگے بڑھ گیا۔
ماضی کاایک اورورق پلٹا۔دیکھاتواب وہ تاریکی چھٹ چکی تھی۔ہرطرف نورہی نورپھیلاہواتھا۔اب چھوٹے بچوں کے ساتھ ساتھ کئی معصوم کلیاں بھی نظرآرہی تھیں۔پتہ چلاکہ عرب کے ریگ زاروں سے رحمة للعالمینﷺ کی بعثت ہوچکی ہے۔

انہوں نے بیٹیوں کوزندہ درگورکرنے کی ممانعت کردی ہے۔ایک ورق اورپلٹاتو مدینہ کی بچیاں نبی امی ﷺ کی آمدپرخوشی کے گیت پڑھتی نظرآئیں۔میں خوشی سے جھوم اٹھا۔اب جوکان لگایاتورحمتِ کائنات ﷺکی آوازکانوں میں رس گھولنے لگی۔ ارشادہوا”جس شخص کے ہاں لڑکی پیداہو،پھروہ نہ تواسے کوئی ایذاء پہنچائے،نہ اس کی توہین اورناقدری کرے اورنہ محبت اوربرتاوٴمیں لڑکوں کواس پرترجیح دے تو اللہ تعالیٰ لڑکی کے ساتھ اس کے اس حسنِ سلوک کے صلے میں اس کوجنت عطافرمائے گا۔

“پھرارشادہوا”جس کسی پراللہ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی ، اور اس نے ان کے ساتھ اچھاسلوک کیاتویہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاوٴکاسامان بن جائیں گی۔“پھرارشادہوا”جس بندے نے تین بیٹیوں یاتین بہنوں یادوبیٹیوں یادوبہنوں کاباراٹھایااوران کی اچھی تربیت کی اوران کے ساتھ اچھاسلوک کیااورپھران کانکاح بھی کردیاتواللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بندے کے لیے جنت کافیصلہ ہے۔

“کتنی ہی دیرمیں ماضی کے ان حسین مناظرمیں کھویارہا۔
ماضی کے بعد ایک نظراپنے موجودہ معاشرے پرڈالی ۔مجھے پھربنتِ حوامظلوم نظرآئی۔ہرجگہ اس کے حقوق پامال ہوتے نظرآئے ۔کہیں وہ وراثت سے محروم ہورہی ہے توکہیں والدین اپنے مفادات کی خاطراسے داوٴ پرلگارہے ہیں۔کہیں اس کی شادی قرآن سے کی جارہی ہے توکہیں اسے نحوست خیال کیا جا رہا ہے۔

آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح کئی والدین بیٹی کی پیدائش پرغمگین نظرآتے ہیں توکہیں والدین بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کوترجیح دیتے نظرآتے ہیں۔ میں نے سوچا مادیت زدہ اس دنیاکورحمة للعالمین ﷺ کاپیغامِ رحمت پہنچاوٴں۔انہیں سمجھاوٴں کہ بیٹے بے شک نعمت ہیں مگر بیٹی رحمت ہے۔یہ وہی رحمت ہے جواللہ نے رحمة للعالمین ﷺ کوعطافرمائی۔یہ وہی رحمت ہے جس کی پرورش پرجنت کی بشارتیں دی گئیں۔

آج دنیامیں بیٹی کے ساتھ اچھاسلوک کروکل قیامت کے دن تمھارے لیے آگ سے بچاوٴکاسامان ہو ں گی۔
مجھے عابدجیسے باپ کودیکھ کرخوشی بھی ہوئی اورحیرت بھی جوبیٹے کے بجائے بیٹی ملنے کی دعاکروارہاتھا۔ایک طرف میں بیٹیوں کوزحمت سمجھنے والے والدین کودیکھ کرکڑھتا ہوں تودوسری طرف عابدکودیکھ کرمیں سمجھتاہوں کہ دنیامیں خیرباقی ہے۔اس کاوہ جملہ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہاہے ”بیٹابھی اللہ کی نعمت ہے مگربیٹی تورحمت ہے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :