مغرب کا دوہرامعیار

پیر 14 جولائی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

برطانوی شاہی خاندان کی بہو کیٹ مڈلٹن اپنے شوہر نامدار شہزاد ہ ولیم کے ہمراہ فرانس میں چھٹیاں منارہی تھی اور اس دوران ماحول کے مطابق انہوں نے کچھ کھلا ڈلا لباس بھی پہنا ہوا تھا ‘ ایک فرانسیسی جریدہ ”کلوزر“ کے فوٹوگرافر نے اس جوڑے کی کچھ نیم عریاں تصاویر بنالیں اور بقول فوٹوگرافرجوڑا اس وقت سڑک کے بیحد قریب تھا جسے باآسانی دیکھاجاسکتاتھا ۔

تصاویر شائع ہونے پر شاہی خاندان میں بڑی ہی ہلچل مچ گئی ‘کہیں سے آواز اٹھی کہ یہ انسا ن کے ”بنیادی حقوق “ کی خلاف ورزی ہے اور کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ ”ذاتی زندگی “ میں دخل اندازی کے مترادف ہے‘ جبکہ اس کے بارے میں جریدے کی خاتون ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر اتنی بھی حیران کن نہیں ایسی لاکھوں خواتین آپ ساحل سمندر میں اس سے بھی زیادہ ” کھلے ڈلے “ ماحول میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن چونکہ معاملہ شاہی خاندان کا ہے اس لئے اس پر بطور خاص توجہ دی جارہی ہے کہ اس کی بدولت برطانوی شاہی خاندان کی عزت پر حرف آیا ۔
ایک امریکی شہری کو ایک کتے نے کاٹ لیا ‘کتا پھر بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑرہاتھا ‘ اس نے پاس پڑا ایک بھاری بھرکم پتھر اٹھاکر کتے کے سر میں دے مارا ‘ کتا یہ بھاری پتھر برداشت نہ کرسکا اور چل بسا‘ کتے کے مالک اور جانوروں کے حقوق کی محافظ تنظیم نے اس شخص کے خلاف مقدمہ دائر کردیا‘ عدالت میں پیشی کے دوران ایک مسلمان صحافی نے سوال کیا کہ ایک کتے کے قتل پر آپ کو سزا سنائی جانے والی ہے ؟ اس نے شرمندگی کے مارے سر جھکایا ‘پھر شرمندہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ”ہاں یہ مجھ سے جرم ہوا ہے ‘ لیکن کیاکرتا کہ مجھے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہاتھا “ اس صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی یہ شرمندگی ”مسلمانوں کے قتل “ عام پر کیوں نہیں ہوتی‘ اس شرمندہ شخص کارویہ تبدیل ہوگیا‘ آنکھوں میں شرمندگی کی جگہ نفرت جھلکنے لگی‘ گردن اکڑ گئی اور پھر اس نے نخو ت سے جواب دیا ”مسلمان اور کتے کا کیا مقابلہ‘ مسلمان تو اس سے بھی برے ہوتے ہیں“عقدہ کھلا کہ وہ ایک کھلنڈرا امریکی جوان ہے جس نے اپنے حکمرانوں کے گھڑے ہوئے ڈرامے ”نائن الیون“ سے یہی سبق سیکھا کہ مسلمان نفرت کے قابل ہیں اورانہیں چوراہے میں پکڑکربھی مار دیاجائے تو کوئی سزا لاگونہیں ہوتی۔


یہ دومختلف ممالک کے واقعات ہیں‘ ایسے ممالک جنہیں انسانی حقوق کے حوالے سے معیار تسلیم کیاگیا ہے اول واقعہ ماضی قریب میں ایشیا کے سیاہ سفید کے مالک برطانوی شاہی خاندان کا ہے کہ جہاں ”آزادی رائے “ کو بڑی ہی اہمیت دی جاتی ہے ‘ کہاجاتاہے کہ کسی بھی انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ جومرضی آئے کرتا رہے(قانون کے دائرہ میں رہ کر) اب یہ الگ بحث کہ یہ آزادی رائے محض اس وقت تک ہی رہتی ہے جب تک دیگر مذاہب کے لوگ اس سے متاثر ہوتے رہیں لیکن جونہی برطانیہ کے اپنے مفادات یا عیسائیت پر حرف آنے لگے تو ان کامعیار یکسر بدل جاتا ہے ‘ فرانسیسی جریدے میں شاہی خاندان کی بہو کی نیم عریاں تصاویر شائع ہونے پر احتجاج سامنے آیا اوراسے انسانی کے بنیادی حقوق میں دخل اندازی سے منتج کیاگیا تو یقین کریں کہ ہماری نظروں کے سامنے وہ بیانات آجاتے ہیں جو چند ماہ قبل ہی برطانیہ کی اہم ترین شخصیات کی طرف سے شائع کئے ‘ یہ غالباً اس وقت کی بات ہے جب ایک سماجی ویب سائٹس پر حضوراکرم ﷺ کے حوالے سے گستاخانہ خاکوں کامقابلہ ہورہاتھا اس وقت کے اہم برطانوی عہدیدا رنے کہا تھا کہ ” ہرشخص کو رائے کی آزادی حاصل ہے وہ جس بھی چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اسے بیان کرنے کا حق حاصل ہے تاہم برطانیہ یہ سمجھتاہے کہ ایسا نہیں ہوناچاہئے “ ایسے ہی بیانات اس وقت کئی دوسرے مغربی ممالک کی طر ف سے بھی شائع ہوتے رہے کہ آزادی رائے ہرانسان کابنیادی حق ہے اوراسے اس حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا لیکن ان لہجوں سے تعصب واضح طورپر جھلکتا ہے ۔

اب کہنا یہ مغربی ممالک کی ”اشرافیہ “ کے روئیے ہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں عام مغربی شہری جو علم سے کوسوں دور ہے جسے حقیقت کا ادراک نہیں ‘ جسے سیاہ سفید کی خبر نہیں وہ بھی حقائق جانے بغیر مسلمانوں سے اس قدر نفرت کرتاہے کہ اس کی نظر میں مسلمان کتے سے بھی بدتر ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی ‘ ٹیری جونز نامی وحشی آدمی جب مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کو جلانے کا ارادہ کرتاہے تو ریکارڈ گواہی کیلئے کافی ہے کہ اس وقت مغربی دنیا کے اخبارات نے اسے روکنے کی کوشش نہیں بلکہ ایسے حالات پیداکئے گئے کہ ”وہ جس کام کاارادہ رکھتاہے اسے کرگزرنا چاہئے“ بعض شدت پسندوں کی طرف سے ایسے بیانات کی اشاعت کو نہ صرف ”اشرافیہ “ کی طرف سے سراہاگیا بلکہ ان کی نیم رضامندی بھی یہی ظاہر کرتی رہی کہ وہ بھی اس فعل بد میں شامل ہیں۔

اس وقت بھی مغرب کی طرف سے ”آزادی رائے “ کا نعرہ بلند کیاجاتا رہا ‘ جب حضوراکرم کی ذات بابرکات پر براہ راست طنز‘ تنقید اور ہتک آمیز رویوں پر مبنی فلم منظر عام پرآئی ہے تو آج بھی اسے ”آزادی رائے “ کاحق کہہ کر درخور اعتنا نہیں سمجھاگیا۔ آج بھی مغرب اورخاص طورپر امریکہ اس بات پر اشتعال میں تو ہے کہ دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کو آگ کیوں لگائی گئی ؟شاید یہ احساس نہیں کہ یہ بھی ”آزادی رائے “ کاپڑھایاہوا وہ سبق ہے جسے مسلمان اب ازبرکرنے کی کوشش کررہے ہیں‘
مغرب ‘امریکہ کو خبر ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن پیغمبر اسلام کی توہین نہیں اسے یہ بھی پتہ ہے کہ مسلمان نہ صرف نبی آخرالزماں کا احترام کرتے ہیں بلکہ دیگرانبیا کا احترام اورانہیں صحیح دل دماغ سے تسلیم کرنااسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔


مغرب ‘ امریکہ اس کے دوہرے روئیے کی بدولت آج پھر ”جہاد“ کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں ایسا عموماً اس وقت ہی سامنے آتا ہے جب اسلام کی بنیاد کو خطرہ ہو‘ لیکن ہم نے چند روز پہلے بھی عرض کیاتھا کہ امت مسلمہ سوچ سمجھ کر اقدام اٹھائے کہ آنیوالا کل ان پر بھاری بھی ہوسکتاہے ۔ جیسا کہ عرض کیاجاچکا ہے کہ ٹیری جونز ہویا دوسرا کوئی عام امریکی ‘مغربی ممالک کاشہر ی‘ انہیں کسی بھی ایسے ”آزادی رائے “ کے اقدام کے پس پردہ #”اشرافیہ ‘’‘ کی معاونت ضرور حاصل ہوتی ہے اورپھر اس بنیاد پر نئی طرز کا کھیل کھیلاجاتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :