استاد بلا اور خالہ جی کے کردار

منگل 8 جولائی 2014

Shehbaz Saeed Aasi

شہباز سعید آسی

پروفیسرجاوید اکرام صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو ضرور کوئی ایسا قصہ چھڑ جاتا ہے جس کو وہ اتنی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ مکمل قصہ سنے بغیر اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ وہ کسی بھی واقعہ یا کہانی کو ایسی لڑیوں میں پروتے جاتے ہیں کہ سننے والے پر حصار طاری ہو جاتا ہے ، یوں گماں ہونے لگتا ہے جیسے ان کی گفتگو اندر تک اتر رہی ہے اور سننے والا کسی خواب نگرمیں ٹہل رہا ہے اور اپنی آنکھوں دیکھا حال ملاخطہ کررہا ہے۔

جاوید اکرام صاحب خود بھی کہہ چکے ہیں کہ گروہ پروفیسر نہ ہوتے تو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں قصہ خواں ہوتے۔ پروفیسر صاحب نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے قصور میں اپنے محلے کے اہم کرداراستاد بلا کے بارے کچھ یادداشتیں سنائیں۔
محلے کاکوئی فلاحی کام ہو،تھانے کچہری جانا ہو، لڑکا باپ کا کہا نہ مانتا ہو، لڑائی جھگڑے کا فیصلہ ہو،گھریلو ناچاقی دور کرانی ہوتو ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے اور وہ ہے استاد بلا۔

(جاری ہے)

استاد بلامحلے کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بغیر کوئی بھی محلہ نامکمل ہے۔ان دنوں علاقے میں بڑھتی چوری ، راہزنی کی وارداتوں کا حل استاد بلا نے یہ نکالا کہ وہ خود رات کو اپنے محلہ کی گلی میں چند نوجوانوں کے ساتھ پہرا دینے لگے۔ چونکہ استاد جی کے گوڈوں میں اکثر درد رہتا اس لئے وہ ایک موڑھے پر بیٹھے رہتے لیکن وہ اپنے ساتھ ڈیوٹی دینے والے نوجوانوں کو چاق چوبند رکھتے،ایسے میں وہاں رات 9بجے کے بعد کسی کو آنے کی جرأت نہ ہوتی۔

اگر کوئی مشکوک شخص آجاتا تو وہ استاد جی سے بچ نہ پاتا، استاد بلا نے ایک پنجابی سٹائل کا ”سوٹا “رکھا ہوتا تھا جو تقریبا ہر وقت ان کے پاس رہتا تھا۔ ایک بار ایک لڑکا سائیکل پر ٹہلتا ہوا گلی میں داخل ہوا، ایک کے بعد جب اس نے دوسرا چکر لگایا تو استاد بلا نے مضبوط سوٹا اس کی سائیکل کے پہیے میں گھسیڑ دیا، وہ لڑکا دھڑم سے نیچے گر پڑا اور استاد جی نے اپنے لڑکوں کو آواز دی ” اوے پھڑو اینو“ وہ لڑکے کو پکڑ کے لائے تو استاد جی نے بڑے پیار سے اسے پوچھا ” ہاں پتر کہا ں سے آئے ہو؟، باپ دادا کا کیا نام ہے اور کرتے کیا ہیں، اور یہاں اس وقت کیا کرنے آئے ہو؟“ جب لڑکا سب بتا دیتا تو استاد جی غصے میں اسے دو تین تھپڑ جھڑ دیتے کہ یہ ابا جی کی گلی ہے جو یہاں اس وقت ٹہلنے آدھمکے ۔

اور لڑکوں کو حکم صادر کرتے کہ لگاؤ اسے پھینٹی، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ شریفوں کا محلہ ہے،بہو، بیٹیاں رہتی ہیں یہاں۔اس طرح ایک طرف تو جرائم کم ہوجاتے اور ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام بھی ہو جاتا۔ صبح کو اکثر استاد بلا کو تانگے پر کچہری جاتے بھی دیکھا، اور عصر کی نماز کے بعد اکثر استاد بلا کی سرپرستی میں محلے کا جرگہ بھی لگتا تھا۔

جس میں لوگ اپنے بنیادی مسائل لے کر آتے، اکثر گھریلو لڑائیاں او ر جھگڑے حل کئے جاتے، ایک دفعہ تو میاں بیوی کے درمیان نوبت طلاق تک پہنچ گئی تھی۔ استاد بلا کی حکمت اور دانش کہ ایسا سمجھایا کہ دونوں راضی ہو گئے اور ہنسی خوشی گھر لوٹ گئے۔استاد بلا جی محلے کے کئی نوجوانوں کو راہ راست پر لا چکے تھے۔ بیشتر اوقات استاد بلا محلے کے بچوں کو اپنے پاس بلا کرباری باری اخبار پڑھنے کو کہتے، اور انہیں بڑوں کی عزت، والدین کی فرمانبرداری،چھوٹوں سے شفقت اور خواتین کی عزت کرنے کا درس بھی دیتے۔


پروفیسر صاحب نے ایسے ہی ایک کردار خالہ جی پر بھی روشنی ڈالی۔ خالہ جی بھی ایسے ہی ایک محلے میں رہائش پذیر تھیں جو سب کی خالہ تھیں۔ بڑوں سے یہی سنا کہ خالہ جی پیدا بھی اسی محلے میں ہوئی تھیں، ان کے والد محکمہ مال میں ملازم تھے اور والدہ محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھیں۔ خالہ جی بھی محلے کی بچیوں کو سپارہ پڑھاتیں، ان سے قرآن پاک پڑھنے والے گو کہ خود بچوں والے ہو گئے تھے لیکن وہ آج بھی خالہ جی کی عزت ویسے ہی کرتے آرہے تھے۔

زندگی کے آخری ایام میں آنکھیں کمزور ہونے پر خالہ جی نے سپارہ پڑھانا چھوڑ دیا لیکن بچیوں کو درس دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ محلے کی ہر خوشی غمی میں شریک ہوتیں۔ محلے کی کئی کنواری لڑکیوں کے رشتے کروائے۔ خالہ کو معلوم ہوتا کہ کس گھر میں کتنی بچیاں اور بچے کنوارے ہیں خالہ بغیر کسی لالچ کے یہ فریضہ خود ادا کرتیں۔ کیونکہ اس زمانے میں زیادہ رواج تھا کہ لڑکی کے والدین کسی سے رشتہ کی بات نہیں کرتے تھے، انہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان کی بچی جیسے ہی جوان ہوگی اچھے رشتے آ جائیں گے۔

یا تو رشتہ داروں میں سے کوئی لڑکی کو مانگ لیتا یا پھر خالہ جی ایسی بچیوں کے رشتے کروا دیتی۔ خالہ کا کمال یہ تھا کہ اس نے جتنے بھی رشتے کروائے وہ آج تک قائم ہیں اورخالہ کو دعائیں بھی دے رہے ہیں۔ خالہ جی اکثر خواتین کوگھریلو ٹوٹکے بھی بتاتیں، محلے کی خواتین اپنے دکھ سکھ بھی خالہ سے ہی شیئر کرتیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ آج یہ دونوں کردار کہاں کھو گئے ہیں۔

شاید انہی دو کرداروں کا ہمارے معاشرے میں نہ ہونا تمام مسائل کی بڑی وجہ ہے۔ ان دونوں کی موجودگی سے کم از کم محلے کے مسئلے محلوں میں ہی حل ہو جاتے تھے، بچے نہ صرف گھر بلکہ محلے کے دیگر چاچو، تایا، مائی خیراں، مائی استانی، استاد بلا اور خالہ جی سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔ گویا پورا محلہ ہی ایک گھرانہ ہوتا۔ والدین بے خوف و خطر اپنے بچوں کواڑوس پڑوس جانے دیتے تھے۔

بچیاں گھروں تک محدود نہیں رہتی تھیں۔ سب کی عزت کی جاتی تھی۔ خاص طور پر بوڑھوں کو سرمایہ اور گھر کی رحمت و برکتوں کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور ان سے عقدت کی جاتی تھی۔لوگوں کے پاس وقت تھا، یوں افراتفری نہیں تھی، سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے، ہمسایوں سے خاص عقیدت ہوتی تھی۔ آپسی رنجشیں صرف بہو بیٹی کے ا یک دوسرے کے گھر جانے پر ختم ہو جایا کرتی تھیں۔

لوگ خواتین کی عزت، بچیوں سے شفقت کرتے تھے۔ نوجوان دوسروں کی بہنوں کو اپنی بہنیں سمجھتے اور اگر کوئی دوسرے محلے کا لفنگا کسی لڑکی کو تنگ کرتا تو محلے کے نوجوان ڈھال بن جاتے تھے۔ ابھی دو روز قبل ہی خبر پڑھی کہ برطانیہ کی70سالہ خاتون کی لاش چھ سال بعد فلیٹ سے برآمد ہوئی۔ اور وہ خاتون فلیٹ میں اکیلی رہتی تھی۔ کیا ایسے ہمسائے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں6سال تک توفیق نہ ہو سکی کہ ضعیف خاتون نظر نہیں آ رہی ایک بار فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر خیریت ہی دریافت کرلیں۔

ویسے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بھی اب ایسا ہی سلسلہ چل پڑ اہے۔ لیکن ہم ابھی اتنے بے بس اور لاپروا نہیں ہوئے کہ کسی ہمسائے کو6سال تک پوچھیں ہی نہ۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے جمعتہ المبارک ،رمضان المبارک اور عیدین کے ایسے تہوواروں سے نوازا ہے جس میں ہمیں ایک دوسرے کے بغل گیر ہونے اور خیرو عافیت دریافت کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ دوستو کوشش کریں اپنے اردگرد انسانوں کا حال دریافت کرتے رہیں، اللہ کے بندوں کا خیال رکھیں، انشاء اللہ، وہ ہمارا خیال رکھے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :