دوسروں سے آگے نکلنے کاہنر

منگل 8 جولائی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کلاس روم میں سناٹاطاری تھا‘ طلبہ کی نظریں کبھی استاد کی جانب اٹھتیں اورکبھی بلیک بورڈ کی جانب‘ان کے پاس استاد کے سوال کا جواب بھی نہیں تھا‘سوال ہی ایسا تھا ‘ استاد نے کلاس میں داخل ہوتے ہی بغیر کچھ کہے بلیک بورڈ پر ایک لائن کھینچی اورپھر اپنے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا ”تم میں سے کون ہے جو اس لکیرکو چھوئے بغیر چھوٹاکردے“ ۔

طلبہ کی خاموشی طول پکڑگئی تو کلاس کے سب سے زیادہ ذہین طالبعلم نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا ”لکیر کوچھوٹاکرنے کیلئے مٹاناپڑیگا لیکن آپ نے تو اسے چھونے سے بھی منع کردیا ہے “ باقی کلاس بھی سمجھ ناسمجھی کی کیفیت میں اس ذہین طالبعلم کی حمایت کررہی تھی‘ استاد نے جب دیکھا کہ کوئی جواب نہیں دے پایاتو بغیر کچھ کہے انہوں نے پہلے سے کھنچی لائن کو مٹائے بغیر بالکل اس کے متوازی ایک اورلکیر کھینچ دی جو پہلی لکیر سے بڑی تھی۔

(جاری ہے)

سب طلبہ نے دیکھ لیا کہ استاد نے پہلی لکیرکو چھوئے بغیر کیسے چھوٹاکردیا۔گویا یہ سبق تھا کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر‘ انہیں بدنام کئے بغیر‘ ان سے حسدکئے بنا کیسے آگے نکلاجاسکتاہے
عملی زندگی میں اس سبق کی حیثیت یہی ہے کہ محض اسی ایک روش کی وجہ سے ہم نہ صرف بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس طرح سے دوسروں کا دل بھی جیتا جاسکتاہے۔

حسد کے ضمن میں بھی یہی کچھ کہاجاتاہے کہ محض اس ایک برائی کی وجہ سے نہ صرف اپنے لئے کئی دشمن پیداکرلیتے ہیں بلکہ اپنے دوستوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ۔یقینا زمانہ موجود کی تیز رفتار ی میں دوسروں سے آگے نکلنے کیلئے کئی طرح کے ہنر آزمائے جاتے ہیں ان میں سے کئی تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن محض مال ودولت کا منبع شہرت سمجھتے ہوئے سردھڑ کی بازی لگالیتے ہیں لیکن یہ عزت بھی عارضی ہی ثابت ہوتی ہے ۔


ایک بہت ہی معروف سائنسدان سے کسی نے پوچھا کہ تم نے بلند مقام کیسے پایا؟ جواب میں اس نے عجیب سی بات کہی کہ ” میں حاسدین کی وجہ سے اس مقام پر پہنچاہوں“ پوچھنے والا حیران رہ گیا ‘ پوچھا مگر کیسے“سائنسدان بولا” میں جب ہائی سکول داخل ہونے گیا تو میرٹ میں میرے مقابل ایک امیرباپ کا بیٹاتھا اسے یقین تھا کہ وہ اپنی دولت ‘جاہ وجلال کی وجہ سے میری جگہ لے سکے گا ‘ہمیں کہا گیا کہ میرٹ ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والا ہی داخل ہوسکے گا میں نے دو دن میں بہت کچھ حاصل کرلیا ‘ پھر جب میں سکول داخل ہوگیا تو پھر کئی طرح کے مقابلوں کو میں نے مثبت اندا ز میں جیتا‘ جب عملی میدان میں سامنے آیا تو کئی حاسدین نے میری حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے ”مقابلے “ میں آنے کی دعوت دی میں نے محض اس دعوت کو ”مسکرا“ کر ٹھکرا دیا‘ میں بڑھتا ہی چلا گیامیں نے کسی سے حسد نہیں کیا‘ کوئی بغض نہیں رکھا اپنے دل میں ‘ میرے حاسدین جتنی بھی زیادہ کوششیں مجھے گرانے کیلئے کرتے میں اتنا ہی محنت تیز کردیتا پھر وہ دن بھی آگئے کہ میں کئی راتوں سے مسلسل سونہ سکا کہ مجھے اپنے حاسدین کو بچھاڑناتھا‘ میں نے بہت محنت کے بل بوتے پر آج مقام پالیا لیکن میرے حاسدین ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔


یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ خالق کائنات کی پیداکردہ مخلوق جسے آدمی کہاجاتاہے ‘جو انسان بننے کیلئے کئی طرح کے مراحل طے کرتاہے ‘لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے بعض اوقات آدمی ہونے کا وصف بھی کھوبیٹھتا ہے۔ خداوند قدوس نے سبھی کاخمیر ایک ہی مٹی سے اٹھایا‘ ولدیت الگ ہوسکتی ہے‘ جائے پیدائش مختلف ہوسکتی ہے ‘رنگ ونسل کا فرق بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ کہیں بھی نہیں ہوا کہ کسی بھی علاقے کے تمام لوگ صلاحیتوں کے اعتبار سے دوسروں سے کم ترہو۔

یقینا ہرشخص اپنے اوصاف کی وجہ سے دوسروں سے کم تر بھی ہوتاہے اورکہیں کہیں اسے برتری بھی ہوتی ہے ۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ صلاحیتوں میں برتری رکھنے والا ہرمیدان میں ہی کم تر صلاحیتوں کے حامل افراد پر بھاری رہے ‘ کوئی نہ کوئی میدان‘ کوئی نہ کوئی شعبہ ایسا ضرور ہوتاہے کہ جس میں وہ بہت زیادہ صلاحیتوں والا ‘بہت کم صلاحیت رکھنے والوں سے پیچھے دکھائی دیتا ہے۔

یہ ایک عجیب کھیل ہے ‘ لیکن اصل امتحان تو یہیں سے ہی شروع ہوتا ہے کہ ہرمیدان کا فاتح جب کسی ایک میدان میں بھی شکست کھاجائے تو وہ اپنے لئے زندگی موت کامسئلہ بنالیتاہے پھر جب دوبارہ شکست ہوتو وہ لازمی طورپر منفی راستے بھی اختیارکرسکتا ہے ‘ پھر ہوتا یوں ہے کہ یہ حسد ان میدان میں بھی اسے ذلیل ورسواکردیتاہے جن میں کبھی اس کانام ہوا کرتاتھا ‘ جن میدانوں کو فاتح رہ چکا تھا۔

یقینا یہی وہ حسد ہے جو سوکھے پتوں کے ساتھ ساتھ سرسبز درختوں کو بھی چبا ڈالتاہے۔ سوچ کامثبت زاویہ ہی کسی بھی مقابلے میں مثبت فتح میں کردار اداکرسکتاہے۔یہاں ایک اورنقطہ بھی سامنے آتاہے کہ کیا فتح بھی مثبت اور منفی ہوا کرتی ہے؟ یقیناجواب واضح ہے کہ مثبت فتح تو دوسروں کو برا بھلاکہے بغیرمحض اپنے متعین کردہ راستے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن جونہی منفی ہتھکنڈوں‘ جاہ وحشم کا استعمال کرکے فتح حاصل کی جائے تووہ منفی فتح کہی جاسکتی ہے‘ یہ فتح دلوں کی فاتح نہیں ہوتی بلکہ یہ فتح کی آڑ میں شکست ہی کہلائے گی اور مثبت سوچ رکھنے والا اگر شکست بھی کھاجائے تو وہ قابل داد ‘ قابل تحسین شکست سمجھی ‘تصور کی جائیگی۳ ۔

محض یہ کہنا کہ شکست سبھی کچھ ختم کردینے کانام ہے تو یہ سوچ سراسر غلط ہے ‘ شکست دراصل آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے اوراگر اسے سامنے رکھ کر مثبت انداز فکر اختیار کیاجائے یہ باعزت شکست ‘باعزت فتح کا باعث بھی بن سکتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :