بیرونی امداد کاضیاع

منگل 8 جولائی 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

بیرونی امدادکچھ خفیہ اور کچھ ظاہری شرائط سے جڑی ہوتی ہے۔ امداد کا بڑا حصہ بیرونی کمپنیوں، مشیروں، ٹھیکیداروں اورتیکنیکی ماہرین کے ذریعے واپس امداد دینے والے ملک کو پہنچ جاتا ہے۔ امداد لینے والے ملک کے پاس صرف پچیس فیصد رہ جاتا ہے۔امداد کا پچیس فیصد بھی یہ ملک اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتا بلکہ یہ امداد دینے والے ملک کی شرائط سے مشروط ہوتا ہے۔

یہ قرض ایسا ہے جس میں مول سے ویاج بڑھ جاتا یعنی اصل سے سود بڑھ جاتا تھا۔پچیس فیصد تو جیسے تیسے قرض لینے والے ملک تک پہنچتا ہے ،باقی پچھتربمعہ سود بھی اس کے ذمے ہوتا ہے۔ ادھر قرض چند افسران کے ثواب دید پر ہوتا ہے۔یہ ان کے اخلاص ، ان کی حب الوطنی ، ان کی اہلیت پر ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے لئے قرض لیا جا رہا ہے مطلوبہ مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں یایہ ادھر اُدھر کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اتنی کڑی شرائط سے حاصل کیا گیا قرضہ اکثر تساہل پسندی لاپرواہی لاڈلے پن یا بد نیتی کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے یا مطلوبہ مقاصد پورے نہیں کر پاتاجبکہ ملک جس رقم کا سود برسوں تک عوامی پیٹ کاٹ کر ادا کرتا رہتا ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو زمین سے آسمان پر پہنچا نے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے فیوض و برکات دیکھ کر غیر ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کے منہ بھی پانی بھر آتا ہے۔

وہ بھی ترقی یافتہ ممالک سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے درخواست کرتے ہیں لیکن محتاجی چاہے کسی فرد کی ہو ادارے کی ہو یا ملک کی ہو بہت بری ہوتی ہے، سو ترقی یافتہ ممالک مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ ایسی شرائط سے ٹیکنالوجی دیتے ہیں جس سے دینے والے کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور لینے والے کو کم فائدہ ہوتا ہے۔اگر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ تربیت دینے کے لئے اس ٹیکنالوجی کے ماہرین نہ آئیں تو آلات بیکار پڑے رہتے ہیں اور اگر ماہرین تربیت دینے کے لئے آئیں تو وہ اتنے بھاری معاوضے لیتے ہیں کہ امداد کا بھاری حصہ معاوضوں کی شکل میں واپس ان کے ملک میں منتقل ہو جاتا ہے۔

ادھر جو لوگ ٹریننگ کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں وہ گہرے غورو فکر کے بعد منتخب نہیں کئے جاتے ۔یہ جلد بازی اور ہیجانی کیفیت میں انتخاب کیا جاتا ہے۔اس ہیجانی کیفیت میں کئے گئے انتخاب سے بعض اوقات بہت مضحکہ خیز صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اُن ملازمین کو فالتو سمجھ کر ٹریننگ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے جن کے ریٹائرمنٹ میں سال دو سال رہتے ہوتے ہیں۔

یہ ٹرینڈ افراد کسی جذبے سے عاری ہوتے ہیں ، انہیں کسی ترقی سے کوئی غرض نہیں ہوتی، یہ تو اپنا وقت پورا کر رہے ہوتے ہیں۔اس طرح ٹریننگ پر کئے گئے اخراجات ضائع ہو جاتے ہیں اور مشینیر ی پڑے پڑے گل سڑ جاتی ہے۔بعض اوقات جنہیں ٹریننگ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے وہ نااہل ہوتے ہیں اور ٹیکنالوجی سے صحیح استفادہ حاصل کرنے کی اُن میں اہلیت ہی نہیں ہوتی۔

یہ جدت کے دشمن اور تخلیقی مادے سے عاری ہوتے ہیں۔جن با صلاحیت افراد کوتربیت دلوائی جاتی ہے انہیں درآمد شدہ ٹیکنالوجی سے وابستہ کرنے کی بجائے کسی ایمرجنسی کی وجہ سے کسی دوسرے کام سے منسلک کر دیا جاتا ہے اور یہ کام وہ نااہل ، ناعاقبت اندیش افسران کرتے ہیں جو ان کے اوپر ہوتے ہیں۔ تربیت یافتہ افراد اُس دئیے کی مانند ہوتے ہیں جس سے کئی دئیے جلائے جا سکتے ہیں ۔

ایک تربیت یافتہ شخص کئی تربیت یافتہ اشخاص پیدا کر سکتا ہے اور یہ تربیت یافتہ افراد آگے کئی تربیت یافتہ افراد پیدا کر لیتے ہیں لیکن تربیت یافتہ افراد بھاری ٹی اے ڈی اے ہضم کرنے کے بعد روٹین ورک سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ جب کوئی پروگرام بنایا جاتا ہے تو پروگرام بنانے والے کے مدِ نظر اس پروگرام کے کچھ فوائد ہوتے ہیں، کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔

وہ بیرونی تربیت یافتہ افراد سے کوئی بڑا کام لینا چاہ رہا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات ان مقاصد اور پروگراموں کو ضابطہ تحریر میں نہیں لایا جاتا اور زبانی جمع خرچ تک محدود ہوتا ہے۔بعض وجوہات کی وجہ سے جب ایسے افسر کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسراافسر اس کام کو وہ اہمیت نہیں دیتا جو پہلے افسر کے ذہن میں اس کام کی ہوتی ہے۔ایسے میں سارا سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تربیت کے بعد جب کسی ٹرینی کو متعلقہ ادارے کے سربراہ کے سپرد کیا جائے تو ساتھ ہی ایک مینول بھی بھیجا جائے کہ اس ٹریننگ کے کیا مقاصد تھے اور اب اس ٹرینی سے اس طرح کاکام لیا جائے گا ۔ٹریننگ کے انتخاب پر پوری پوری جانچ پڑتال کے بہت ٹیلنٹڈ لوگوں کا انتخاب کیا جائے جن میں تخلیقی صلاحیت، کام سے دلچسپی اور حب الوطنی کا جذبہ موجود ہو تاکہ خون پسینے کی کمائی سے لی گئی ٹریننگ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :