لاہور کے سرکاری ہسپتال

اتوار 6 جولائی 2014

Hussain Jan

حُسین جان

وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاونِ برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے اپنے ایک حا لیہ بیان میں کہا ہے کہ ہسپتال کا عملہ غریب و نادار مریضوں سے حسنِ سلوک سے پیش آئیں اور اُن کو تمام سہولیات مہیا کریں۔آنے والے دنو ں میں پنجاب حکومت ڈینگی بخار میں مبتلا ہونے والی ہے کہ برسات کہ مہنے میں ڈینگی پھر سر اُٹھانے کو ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ڈینگی کے حوالے سے پنجاب حکومت نے کچھ بہتر کام کیا۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پورے پنجاب میں صرف ایک ڈینگی کی بیماری راہ گئی ہے۔ ابھی تک ڈینگی کا کوئی قابلِ زکر علاج دریافت نہیں ہوا ۔ لیکن اس کے باواجود چند ضروری اقدامات کر کے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ پوری حکومتی مشینری سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اسی کے پیچھے پڑ جائے ۔

(جاری ہے)

جبکہ ہر کام کے لیے الگ الگ ادارئے بنے ہوئے ہیں اُن کو یہ کام کرنے دیں اور جو اپنی زمہ داری سے غفلت برتے اُسے قرارواقع سزا دی جائے۔


شہباز شریف کے تقریبا 8سالہ دور حکومت میں ایک بھی قابلِ زکر بڑئے سرکاری ہسپتال کا اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ اور جو موجود ہیں وہ اس قابل نہیں کہ پورے پنجاب کی زمہ داری پوری کر سکیں۔ آپ صرف لاہور کے ہسپتالوں کو ہی دیکھ لیں ایک مستند ذرایع کے مطابق لاہور کی آبادی 2011میں تقریبا ایک کروڑ گیارہ لاکھ کے لگ بھگ تھی جو اب یقینا بڑھ چکی ہو گی۔

پورے لاہور میں بڑے سرکاری ہسپتالوں کی تعدادتقریبا15کے قریب ہے۔ ایک اور محتاط اندازے کے مطابق لاہور میں 223مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے جو کہ انہایت شرم کی بات ہے کہ ۔ اور ہسپتالوں کی تعداد اتنی ہے کہ پوری آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ بڑئے شہروں کا یہ حال ہے تو چھوٹے شہروں کا کیا بنے گا۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بال بچوں کی دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں وہ علاج کے لیے کدھر جائیں۔

اس بدنصیب ملک کے عوام کو64 سالوں میں کوئی سہولت میسر نہیں ہوئی۔ شہباز شریف صاحب ہر وقت ٹی وی و اخبارات میں بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر اُن کی یہ بھاگ دوڑ عوام کو کوئی سہولت نہیں دے سکتی تو ایسی بھاگ دوڑ کا کیا فائدہ۔ کسی بھی ملک کے عوام کی ضروریات کیا ہوتی ہیں۔ انرجی ، تعلیم، صحت، روزگار امن و امان انصاف یہ گنتی کی چند ضررویات ہیں۔

لیکن عوام کیلے یہ بھی ناپید ہیں۔ حکومت کی طرف سے آئے دن خبر آتی ہے کہ فلاں چیز پر سبسڈی کم کر دی جائے گی یا ختم کر دی جائے گی ۔ مگر سبسڈی نام کی کوئی چیز تو نظر آتی نہیں تو پھر ختم کسے کرنا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بھی کسی مصلحت کے تحت نہیں بڑھائی جا رہی رمضان کے بعد دیکھے گا کہ کیسے بڑھتی ہے ۔
اگر میٹرو بس کی جگہ پنجاب میں چند بڑے ہسپتال بنا دیے جاتے تو اس سے عوام کا کچھ بھلا ہو جاتا۔

کسی بھی ہسپتال کا دورہ کر کے دیکھیں وہاں کی حالت بہت ہی خستہ ہے۔ کچھ ہسپتالوں کی امرجینسیز میں مریضوں کو مفت ادویات کی سہولت موجود تھی ۔ مگر اُس میں بھی آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کبھی یہ دوائی نہیں تو کبھی وہ نہیں ۔ اُوپر سے ڈاکٹروں کی روز روز کی ہرتال نے مریضوں کا ناکا بند کیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آوٹ دوڑ میں جن مریضوں کو چیک کیا جاتا ہے۔

اُن پر بھی کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اور یہی ڈاکٹر جب اپنے نجی کلینک پر مریضوں کو دیکھتے ہیں تو ایک مریض پر گھنٹہ گھنٹہ لگا دیتے ہیں۔ اس طرف بھی توجہ کی دینے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرنے والی آدھے سے زیادہ مشینیں خراب ہوتی ہیں۔ گندگی نے ہر طرف ڈیرئے ڈالے ہوتے ہیں۔ باتھ روموں کی حالت نہایت خستہ ہے۔
لاہور شہر کو پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ اپنے اندر ایک جہاں بسائے ہوئے ہے۔ پورے پاکستان سے لوگ اس شہر میں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ اور اس شہر نے بھی کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا۔ لیکن اس شہر کے لوگوں کو طبی سہولیات بھی میسر نہیں۔ کسی دور میں ہمارے موجودہ خادم نے بیان دیا تھا کہ وہ لاہور شہر کو پیرس بنا دیں گئے۔ تو کیا پیرس کے شہریوں کو بھی طبی سہولیات حاصل کرنے کے لیے جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

نجی ہسپتالوں والے لوگوں سے منہ مانگی فیسیں حاصل کرتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امیر لوگوں کے لیے یہ فیس دینا کوئی مشکل کام نہیں مگر ایک غریب مزدور کے لیے تو یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بلکہ نجی ہسپتالوں کی توعمارتیں ہی ایسی ہوتی ہیں کہ غریب آدمی اندر جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر کسی امیر آدمی نے پیسے کمانے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی ساکھ بھی بچانی ہے تو وہ یہ کرتا ہے کہ ایک ٹرسٹ ہسپتال بنا لیتا ہے۔

کہنے کو تووہ ٹرسٹ ہوتا ہے مگر عوام کا برا حال وہاں بھی کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کے حکمرانوں کے لیے عوام کبھی بھی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ جو بھی آیا اُس نے اپنی تجوریاں بھری اور عوام کو سسکنے کے لیا چھوڑ دیا۔ اور خود باہر آرام کی بانسری بجائی۔ پاکستان میں کوئی بھی ایسی سہولت موجود نہیں جو عوام کے لیے مفت مہیا کی گئی ہو۔

ہر چیز کے پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں اور پیسے بھی مرضی کے وصول کیے جاتے ہیں ۔ مگر اس کے باواجود عوام کو بہتر سہولیات نہیں دی جاتیں۔ بڑے بڑے ہسپتالوں میں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی پروجیکٹ بند پڑے ہوئے ہیں ۔ سیاستدانوں کو سوائے ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کوئی کام نہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس ملک کے حکمرانوں کو حکومت کرنے کے لیے کوئی عوام ہی میسر نہیں ہو گی۔

اُپر سے آجکل لاہور کی ہر سڑک کو اُدھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ٹریفک کی حالت بری ہے۔ ایمبولینسز کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسی رہتی ہے۔ جس سے کئی مریض بچارے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ لہذا حکمرانوں کی بھاگ دوڑ صرف اور صرف عوام کے لیے ہونی چائیے۔ میڈیا میں چھائے رہنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا۔ تاریخ میں بھی وہی لیڈر زندہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے عوام کے لیے وقف کر دی۔ اور اپنی قوم کوعالمی سطح پر بھی مقام دلایا۔ لہذا حکومت پنجاب کو چائیے کہ وہ عوام کو طبی سہولتیں مہیا کرئے۔ تاکہ اس بدقسمت عوام کی کچھ تو دادرسی ہو ۔ سرکیں پل تو بنتے ہی رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :