چاند

جمعہ 4 جولائی 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

حسب روایت اس بار بھی پشاور میں مسجد قاسم علی خان والوں کورمضان کا چاند ایک دن پہلے اور باقی پاکستان کو حسب توقع ایک دن بعد نظر آیا، یہ بہت اچھی بات ہے کہ روایت برقراررہی،روایات برقرار رہنی چاہیے اور توقعات بھی نہیں ٹوٹنی چاہیے،ان روایات میں زندگی کاحسن ہے اور ان ہی توقعات سے زندگی کی ڈور وابستہ ہے ،یہ ڈور کٹ گئی تو باقی کیا بچے گا؟
برس ہا برس سے یہ خواہش کی جاتی ہے کہ خدا کرے پورے سال کی طرح رمضان او ر عید کاچاند بھی ایک ساتھ نظر آیا کرے ،تا کہ ہم روزے بھی ساتھ رکھیں اور عیدبھی ساتھ ہی منائیں۔

یہ خواہش رکھنا بھی اچھی بات ہے ، ایک دوسرے سے محبت کی دلیل ہے لیکن ضروری تو نہیں ساری خواہشات پوری ہو جایا کریں،اگر خواہشات کا پورا ہونا اتنا آسان ہوتا تو بے چارے شاعرکو تڑپ کر یہ کیوں کہناپڑتا :
ہزاروں خوہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں خواہشات کا گلا گھونٹ دیا جائے، خواہشات رکھی ہی نہ جائیں ، ان کو زبان پر نہ لایا جائے، نہیں نہیں، خواہشات ہونی چاہیے، خواہشات نہیں ہوں گی تو دم گھٹ جائے گا، کیوں کہ خواہش ہی کی آس پر نبضیں چلتی ہیں ۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے خواہش کا مزہ تبھی تک رہتا ہے جب تک پوری نہ ہو۔ جس دن جو خواہش پوری ہو گئی ، اس کا مزہ ختم ہو جاتا ہے،ایک ساتھ آغاز رمضان اور ایک ساتھ عیدمنانے کی خواہش کچھ چھوٹی موٹی تو نہیں یہ قومی خواہش ہے ،یہ پوری ہو گئی تو کیا مزہ رہے گا۔اس کے بقاہی میں جو لطف ہے وہ اس کو پا کر نہیں ملے گا۔
#####
ویسے چاند چیز ہی ایسی ہے، چاند نگر کا چاند ہو یا عام نگر کاچاند،اس سے محبت سب کو، اس سے لگاؤ سب کو، لیکن یہ ہر کسی کے بس کا نہیں، ہر ایک اس کو دیکھنا چاہتا اور اس سے پیار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ اعزاز بھی کسی کسی کو ملتا ہے ، چاند اسی کو دکھتا ہے جس کو دکھنا چاہے ،پیار بھی وہی کر سکتا ہے جس کا پیارخود چاند کو قبول ہو۔

کسی کوچندا اور چاند کہنے پر تو شاید پابندی نہ ہو لیکن چندااور چاند بنانے پر پابندیاں ہی پابندیاں ہیں، یہ پابندیاں چاند خود ہی لگاتا اور خود ہی ہٹاتا ہے۔
#####
انبر نے دھرتی پر پھینکی نور کی چھینٹ اداس اداس
آج کی شب تواندھی شب تھی، آج کدھر سے نکلا چاند
انشا جی !یہ اور نگر ہے، اس بستی کی ریت یہی
سب کی اپنی اپنی آنکھیں،سب کا اپنا اپنا چاند
۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سینے کے مطلع پر جو چمکا وہ چاند ہوا!
جس نے من کے اندھیارے میں آن کیا اجپارا چاند
دکھ کا دریا ،سکھ کا ساگر اس کے دم سے دیکھ لیے
ہم کو اپنے ساتھ ہی لے کر ڈوبا چاند اور ابھرا چاند
ہم نے دونوں کو دیکھا دونوں ہی بے درد کٹھور
دھرتی والا،انبر والا،پہلا چاند اور دوجا چاند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنیوں کی پیلی کرنیں،پورب پچھم پھیل گئیں
تو نے کس شے کے دھوکے میں پتھر پر دے پٹکا چاند
چاند کسی کا ہو نہیں سکتا ،چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے ، اے میرے اچھے انشا چاند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا سب کے چاندوں کو سلامت رکھے ، چاند کے اور چاند پہ جھگڑوں سے بچائے،آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :