اپنوں کا دُکھ

جمعہ 4 جولائی 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

ہفتہ وار کالم لکھنے کے لئے میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تیاری کرتا ہوں تاکہ قارئین کے ساتھ بہتر سے بہتر معلومات کا تبادلہ ہو سکے۔آج 4جولائی کے کالم کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا اس کی وجہ میرے محترم دوست ہوپ کے سیکرٹری جناب احسان الله کا صاحبزادہ گزشتہ سال 4جولائی کو آج کے دن الله کو پیارا ہوا تھاجب میں بچوں کے ساتھ حرمین شرفین میں تھا۔

حسام کی تکلیف اس کی بیماری اس کے صبر کا تفصیلی تذکرہ تو شاید میں نہ کر سکوں حسام عمر کی والدہ محترمہ بیگم احسان الله نے حسام کی بیماری کے دوران جو صبرآزما اور کٹھن تین چار سال گزارے اس کا چشم دید گواہ ہوں۔صابر بیٹے کی صابر ماں بیٹے کی جدائی کا صدمہ بیٹے کی محبت بھری داستان بھلائی نہیں جا سکتی۔فرشتہ نما حسام (سامی) برداشت، ایثار اور صبر کی نئی تاریخ رقم کر گیا۔

(جاری ہے)

بیگم احسان الله کی خواہش تھی انسانی رویوں پر لکھا جائے۔نام نہاد کینسر ہسپتالوں کی حقیقت سے عوام کو روشناس کرایا جائے۔بار بار ان کی تلقین کے گزشتہ چھ ماہ سے ذہن بنا رہا تھا۔4جولائی کا انتظار تھا پورا کالم حسام کی یادیں تازہ کرنے اور ان کی والدہ کے درد کے حقائق بتانے میں لکھوں گا کہ اچانک گزشتہ اتوار کو ہمارے زمانہ طالب علمی کے دور کے اسلامی جمعیت طلبہ کی ذمہ داری کے دوران سیالکوٹ نارووال میں محبتیں نچھاور کرنے والے ہمارے بہت ہی پیارے مربی دوست حافظ طاہر اسلم کی اچانک وفات کے صدمے نے ساری منصوبہ بندی کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔


ایک طرف حسام عمر کی یادیں اس کی پیاری پیاری باتیں اس کا صبر میرے دل دماغ میں چھایا ہوا ہے۔دوسری طرف سیالکوٹ نارووال میں مشکل ترین دور جمعیت میں پروفیسر امین جاوید مرحوم کے بعد حافظ طاہر اسلم اور ان کی فیملی کی جان نچھاور کرنے والی سرپرستی اور محبتوں کو کیسے بھلا سکتا ہوں۔میری قابل احترام بہن بیگم احسان الله نے میری مشکل اس وقت حل کر دی جب ان کی طرف سے حسام کی یادوں پر محیط جنت کا پھول کے عنوان سے مضمون روزنامہ پاکستان میں شائع کرنے کے لئے ملا۔

ایک بیٹے کی ماں سے محبت کی انمول داستان یقینا آپ پڑھ کر آنکھوں میں سے آنسوؤں کو نہیں روک پائیں گے۔حسام اور حافظ طاہر دونوں میرے پیارے ہیں دونوں سے انمٹ یادیں وابستہ ہیں دونوں کا مرحلہ وار تذکرہ کرکے ان کی یادیں مختصر انداز میں تازہ کرتے ہوئے رمضان کی بابرکت سعادتوں میں ان کے درجات کی بلندی کے لئے مل کر ہاتھ اٹھائیں گے۔
حسام عمر کی احسان الله کے ہاں آمد معمولی عمل نہیں ہے۔

حسام یقینا جنت کا پھول تھا اور ہے اس کی پیدائش دین سے شفقت رکھنے والے خاندان اور الله سے لو لگانے والی ماں کے ہاں اس وقت ہوئی جب اس کا والد خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا۔بتایا گیا ہے حسام عمر کے کانوں میں اذان بھی خانہ کعبہ کی سنائی گئی۔حسام کی آمد کے ساتھ ہی احسان الله کے خاندان پر رحمتوں برکتوں کا نزول شروع ہوگیا۔حضرت عمر کی تلوار کے نام پر حسام عمر نام رکھا گیا اس کی فیوض برکات کا اندازہ اس بات سے کر لیجئے کہ حسام کی والدہ والد کو حرمین شرفین سے بلاوہ گنتی میں نہیں رہا باربار بلاوہ ہی نہیں آیا، بلکہ الله کے مہمانوں کی خدمت بھی ان کے سپرد کر دی گئی۔


حسام جو احسان الله فیملی کی زندگیوں میں بہار دینے ہمیں صبر اور محبت اور برداشت کا سبق دینے آیا تھا۔آج ہمارے درمیان نہیں ہے، مگر اس کی باتیں اس کا صبر جو ہر ایک کے دل دماغ میں چھایا ہوا ہے۔2005ء میں پیدا ہونے والے فرشتہ صفت حسام عمر کو پانچ سال کی عمر میں بتایا گیا اس کو برین ٹیومر ہے اس کا آپریشن جب ہوا میں آپریشن تھیٹر کے باہر موجود تھا۔

برین ٹیومر کا نام سن کر سکتہ ہوجاتا ہے۔پانچ چھ سالہ بچے کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا جا رہا تھا۔ہر آنکھ اشکبار تھی مگر حسام ماں باپ کو میری موجودگی میں کہہ رہا تھا آپ مت روئیں میں آپریشن کے لئے جا رہا ہوں جلد واپس آجاؤں گا دعا کریں ۔پھر ایسا ہی ہوا ماہر ڈاکٹروں نے اپنی کوشش کرتے ہوئے بچے کا آدھا سر کاٹ دیا اور حسام پیٹوں میں سر چھپائے باہر آیا تو ہنستا مسکراتا ہوا اس کے بعد مجھے اندازہ ہوا یہ بچہ معمولی بچہ نہیں ہے۔

پھر درجنوں دفعہ اس بچے کو دیکھنے ملنے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔اس کو ہمیشہ منفرد پایا اس کی حالت جو ہر نئے دن میں نیا سفر کررہی تھی، نئی شکل اختیار کررہی تھی ہر فرد اس کے سامنے آنے سے کترا رہا تھا۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی اس سے پیار نہیں تھا۔ہر ایک کا دل اس کے ساتھ دھڑک رہا تھا مگر اس کا بڑا ہوتا سر اس کے جسم پر بننے والے پھوڑے اس کی بند ہوتی آنکھیں۔

انسان کس طرح دیکھ سکتا ہے۔مگر صابر بچہ الله سے دعا کرتا تھا الله تو سارے تجربے میرے جسم پر کرلے مگر یہ دکھ کسی اور کو نہ دینا۔آخر وقت تک جب چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا پھر بھی اس کی یادداش قابل ستائش تھی۔اس کی آواز میں مٹھاس قابل دید تھی۔اس کو گِلا تھا آزمائش میں لوگوں کے رویے کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں اپنے بیگانے کیوں بن جاتے ہیں۔قریب رہنے کے خواہش مند دور کیوں بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

بیٹے کا بھی درد ہے اور ماں کا بھی ایک اور گلا اور دکھ جو شیئر کرنا ضروری ہے۔ہمارے اردگرد طول وعرض میں کینسر ہسپتال بن رہے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کی زکوٰة صدقات بھی بٹور رہے ہیں۔پھر علاج ان لوگوں کا کیا جاتا ہے جو معمولی مرض کے حامل ہوں کیوں؟جو کینسر کا مریض مرض کی شدت میں مبتلا ہو جائے اس کو ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لئے لاعلاج چھوڑ دیا جاتا ہے۔

یقینا مرض الله کی طرف سے آتے ہیں حقیقی مصالح بھی وہی ہے مگر دنیا ڈرامہ بازی دوعملی کیسی؟ حکمرانوں اور عوام کے ساتھ ساتھ کینسر ہسپتال بنا کر جنت حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے۔علاج مریض کو دیکھ کر کرنا چاہیے نہ کہ مریض کی شکل اور جیب دیکھ کر؟ حسام کی یادیں اتنی زیادہ ہیں کتاب لکھی جا سکتی ہے اس کی یادوں کے دریچے میں جھانکنے سے ٹھنڈی ہوا ہی آتی ہے۔

فرشتہ نما حسام ہمارے لئے بڑے سبق چھوڑ گیا جنت کے باغوں میں سجے پھولوں کے گل دستے میں سج گیا ہے۔والدین کو قرار اور صبر تو صرف الله ہی دے سکتا ہے اور وہ ضرور دے گا۔
اب حافظ طاہر اسلم سے وابستہ یادیں تازہ کرتے ہیں۔حافظ طاہر اسلم کا فوت ہونے سے 15دن پہلے مجھے فون آیا۔کچھ لوگوں کو شامی صاحب سے ملانا ہے بڑا اہم مسئلہ ہے۔شامی صاحب مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔

میں نے کہا حافظ صاحب آپ آ جائیں پروگرام بنا کر مجھے بتا دیں میں محترم شامی صاحب سے وقت لے لوں گا۔اس کے بعد گزشتہ ہفتہ کو الله کو پیارا ہونے اور اتوار کو جنازے کی اطلاع ملی تو یقین نہیں آ رہا تھا۔حافظ طاہر اسلم کی یادیں محترم قاضی سہیل امین نے ضیاء الدین انصاری صاحب کے ساتھ جنازے میں حافظ طاہر اسلم کے گاؤں جیال شکر گڑھ جاتے ہوئے اور ان کا چہرہ آخری دفعہ دیکھنے کی روداد فیس بک میں شیئر کی ہے۔

قاضی سہیل امین ضیاء الدین انصاری ،طیب شاہین، امیرالعظیم ، وکیل انجم ایسے کردار ہیں جو اپنی اپنی جگہ ایک انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ درجنوں رہنما کوٹ لکھپت کے مشترکہ مہمان رہے۔ حافظ طاہر اسلم کی زمانہ طالب علمی کی باتیں تو احباب نے اور انہوں نے بقلم خود مجھے بڑی سنائی وہ چلتی پھرتی تحریک اور سید مودودی کی وہ تصویر تھے جنہوں نے اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی دعوت کے لئے سپرد کیا ہوا تھا۔

ساڑھے تین سال تک گوجرانوالہ ڈویژن اسلامی جمعیت کا ناظم رہا درجنوں دفعہ ان کے سیالکوٹ گھر رہنے جانے، کھانے پینے کا اتفاق ہوا پھر کئی مرتبہ ان کے شکرگڑھ آبائی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔حافظ صاحب نارووال اور سیالکوٹ ضلع کے متعدد بار امیر رہے۔
میرے دور نظامت گوجرانوالہ ڈویژن جمعیت کے لئے بڑا آزمائشی دور تھا11.8۔نارووال اور سیالکوٹ میں مخالف تنظیموں کا ہولڈ تھا۔

ناظمین اور کارکنان کو چلتی ویگنوں سے اغوا کر لیا جاتا تھا الله پروفیسر امین جاوید اور حافظ طاہر اسلم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے، جنہوں نے قران و سنت کی دعوت کو عام کرنے کے لئے ہمیشہ ہماری سرپرستی ہی نہیں کی مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے نظر آئے خواجہ احتشام ،مسعود شاہ، مجید بلوچ، ذوالفقار ذکی، صوفی عابد کی محبت اور جدوجہد کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔

احباب کی سرپرستی تھی حافظ طاہر اسلم مسعود شاہ، امین جاوید کی محبت تھی ایک دور آیا میرے نظامت کے دوران آیا۔سیالکوٹ مقامی جمعیت بنا نارووال کے ضلع میں کئی حلقہ رفاقت بنے کالج میں جمعیت کا ہولڈ ہوا ۔حافظ طاہر اسلم کی یاد کون کون سی شیئر کی جائے۔ جب بھی بلایا آئے۔جہاں بلایا وقت سے پہلے پہنچے۔تحریکی سرمایہ تھے۔ان کی وفات معمولی واقعہ نہیں ان کا خلا کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔آخر میں حسام اور حافظ طاہر کے لئے درجات کی بلندی کے لئے خصوصی دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔ الله ہم سے راضی ہو جائے۔ (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :