عدم برداشت

جمعہ 4 جولائی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

27جون کوگوجرانوالہ میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں گیس لیکج کی وجہ سے دو مزدور جاں بحق ہوگئے اور ان کے تیسرے ساتھی کو بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال منتقل کردیاگیا۔ مبینہ طور پر پولیس نے واقع کے بعد فیکٹری کے مالک کو گرفتار کرلیا اورچند گھنٹوں بعدہی رہا کردیا۔پولیس کے اس عمل نے مقتولین اور بے ہوش ہونے والے مزدور کے لواحقین کے زخموں کو مزید گہرا کردیاوہ عدم برداشت اور انتقام کے جذبوں سے لبریز ہوگئے۔

دوسری طرف ایک پولیس سب انسپکٹر ایک سپاہی کے ہمراہ ہسپتال میں جاں بحق ہونے والوں کے پوسٹ مارٹم اور بے ہوش مزدور سے متعلق دفتری کارروائی کے لیے پہنچا تو لواحقین نے پولیس آفیسر کو مارناپیٹنا شروع کردیا۔ایک ٹی وی چینل نے اس واقعہ کی ویڈیو بریکنگ نیوز میں دکھائی جس میں مرد اورخواتین پولیس آفیسر کو گھونسوں اور جوتیوں سے مار رہے تھے۔

(جاری ہے)

پھٹی وردی کے ساتھ پولیس آفیسر اطراف سے مارنے والوں کے حصار میں دکھائی دیا۔اس خبر کو دیکھ کرگذشتہ چار روز سے میں اپنے ذہن میں نوکیلے کئی سوالات کی چُبھن برداشت کررہاہوں۔ممکن ہے یہ خبر پولیس سے ستائی ہوئی عوام کے لیے”کتھارس“ کا ذریعہ ہواورٹی وی چینل کے لیے ریٹنگ کا زینہ ۔لیکن واقعہ کی وقوع پذیری اور ٹی وی پر نشر ہونے میں معاشرے کے لیے کتنے مضمرات پوشیدہ ہیں ان سوالات اور ان سے جڑے خدشات نے مجھے گھیر رکھاہے۔


ہوسکتاہے ماہرین عمرانیات اس واقعہ کے اسباب کو سوشل سائنسز کے اصولوں پر جان چکے ہوں ممکن ہے ماہر نفسیات نے اس واقعہ کی وجوہات کو پاکستانی معاشرے کی موجودہ نفسیاتی کیفیت اور فرد کے لاشعور میں ایستادہ نفسیاتی امراض کی فصیلوں کی اونچائیوں کے تناظر میں ڈھونڈلیاہو۔لیکن گذشتہ چار دن سے کوئی سرا میرے ہاتھ نہیں لگ رہا۔ ذہن میں چبھتے نوکیلے سوالات کے جواب کی تلاش میں کچھ روشنی کے آثار ملے ہیں۔


ہر انسان کو قدرت نے اس کے مزاج،خواہش اور ضرورت کے برعکس نامساعد حالات،جبر اور ور فقدان کے ماحول کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت برداشت عطاء کی ہے۔قوت برداشت بھی اخلاقی صلاحیتوں میں سے ایک ہے جس کی موجودگی انسانی شخصیت کو متوازن رکھتی ہے اور متوازن شخصیت کے حامل افراد ،تہذیب یافتہ اور ارتقاء پذیر معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔حالات کاجبر جب فرد سے زندگی کا مقصدچھین لے اور ریاست قانون کی عمل داری اور بلا تخصیص انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوجارے تو افراد قوت برداشت کی صلاحیت سے اور ریاست استحکام اور ترقی کے زینے سے محروم ہوجاتی ہے۔


پاکستانی معاشرے میں گذشتہ ایک دہائی سے عدم برداشت کے واقعات میں مستقل اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ بحیثیت قوم ہم عدم برداشت کا شکار ہوچکے ہیں اورگھر،سٹرک،محافل،مجالس،تعلیمی اداروں،دفاتر اور اسمبلی میں ہر جگہ ایک دوسرے سے ”برسرپیکار“ ہیں۔ فرد میں جذباتی توازن کے فقدان اور معاشرے میں انتشار کا علاج اعلیٰ اقدار ، فروغ اور ترویج میں ہوتاہے۔

آج کے تہذیب یافتہ اور ترقی کے منازل کو چھونے والے کئی ممالک چند دہائیوں قبل تک اس صورتحال سے دوچارتھے لیکن انہوں نے پہلے مرض کے اسباب تلاش کیے اور پھر اعلیٰ اقدار اور جمہوری رویوں کو فروغ دیا۔ لیکن ہماری بدقسمتی کی کہانی بڑی طول ہے سوشل سائنسز کے علوم کو ہم نے اہمیت نہیں دی اس پر کوئی بھی معاشرتی ادارہ اعلیٰ اقدار کے فروغ اور تہذیب کی بنیاد رکھنے کی ذمہ داری نبھانے کے لیے تیار نہیں۔

فرد اور معاشرہ کیسے درست ہوگا جب استاد،صحافی،مبلغ،خطیب اور سیاستدان خود عدم استحکام اور خواہش نفسی کا شکارہے۔ماس میڈیاکے پاس معاشرے کو سنوارنے کی بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔لیکن میڈیا خود مادی ترقی کی ہوس میں ہیجان کا سودا بیچ رہاہے۔فرد افراد سے افراد اداروں سے اور ادارے اداروں سے بدگمان ہیں بلکہ بدگمانی اب نفرت میں بدلتی جارہی ہے اس درجے پر پہنچ کر ایسے افراد اور ادارے عدم برداشت کے اثر میں قیامت برپا کردینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اعتدال اور تحمل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں اس کی تازہ مثال حامدمیر پر قاتلانہ حملے کے بعد جیو کی نشریات اور اس کے بعد معافی کے باوجود جیو و جنگ گروپ کو درپیش مشکلات ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی کتنی ہی مثالیں میرے سامنے ہیں۔گوجرانوالہ ہی میں مبینہ طور پر دو ڈاکو بھائیوں کو عوام کی طرف سے پولیس کی موجودگی میں جان سے مار دینے کا واقعہ۔کرکٹر عمر اکمل اور ٹریفک وارڈن کے مابین لڑائی اور مبینہ مارکٹائی!ایک سو روپے کی خاطر قتل کی خبر تو آج ہی کے اخبار میں شائع ہوئی ہے۔
نظم و نسق،سیکورٹی اور انسانی خدمت کے اداروں (فوج،پولیس اور میڈیکل) سے وابستہ افراد کو ہنگامی حالات اور کٹھن صورتحال میں اپنی قوت برداشت کوبروئے کار لانے کی تربیت دی جاتی ہے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن نے اس حوالے سے بھی کئی سوالات کو جنم دیاہے۔


پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے مظاہرے ہر سطح پر لمحہ بہ لمحہ مسلسل ایسے عیاں رہتے ہیں جیسے رات کے وقت آسمان پراپنی اپنی حیثیت میں چمکتے ستارے۔اس منظر نامے کو دیکھ کر ذہن عدم برداشت کے اسباب کی تلاش میں نکلتاہے تو جو حقیقت ہاتھ آتی ہے اس کاخلاصہ کچھ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک جمہوری اور آمر حکمرانوں نے جب جب عنان حکومت سنبھالی ہے ریاستی ڈھانچے کو بگاڑ اور معاشرے کو انتشار سے دوچار کیا۔

یوں ہجوم ہجوم ہی رہا قوم نہ بن سکا لوٹ کھسوٹ چور بازاری،اقرباپروری،مہنگائی،بیروزگاری اور ناانصافی ، حقوق سے محرومی اور عزت و مال کی پامالی کے جبر مسلسل کا مقابلہ کرتے کرتے پاکستان کی تیسری نسل عدم برداشت کا شکار ہوگئی ہے۔ درجنوں چینل سرشام ٹاک شوز اور کرائم سٹوریز پر مبنی پروگراموں میں تشدد،جرم،زیادتی،مایوسی،انتقام،بے یقینی،بدگمانی اور گمراہی کے پیچ کہر زدہ کمزور ذہنوں میں کاشت کررہے ہیں اور کسی کو نہ خبر ہے نہ فکر کہ ہمارے ساتھ کیا واردات ہورہی ہے۔

میڈیاپر نشر ہونے والے تشدد والے پروگرام اورفلمیں نئی نسل پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔بڑے تو بڑے عام طور پر بچے بھی پرتشدد فلمیں دیکھنے اور ایسے ویڈیو گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں جن میں ہ تشدد کا عنصر زیادہ پایاجاتا ہے۔افسوسناک امرتو یہ ہے کہ اس ضمن میں ہمارے تعلیمی ادارے بھی کوئی کردار ادا نہیں کر رہے، اہل اساتذہ کی کمی کے باعث طالبعلم کورس کی کتابوں کے علاوہ طرز زندگی کے بنیادی اصول سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جس کا نتیجہ عملی زندگی میں طرح طرح کے منفی رویوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

معاشرے میں عدم برداشت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا کسی ایک خاص تہذیب کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ یہ بذاتِ خود ایک مکمل تہذیب ہوتا ہے-
عدم براشت کاعملی مظاہرہ غصے اور انتقام کی صورت میں ظاہر ہوتاہے عام طور پر لوگ غصے میں دوسروں پر بہت سی زیادتیاں کر جاتے ہیں جس کے باعث وہ دوسروں اور خود اپنے لئے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

غصے کو کنٹرول کرنے کے بہت سے طریقے ماہرین نفسیات نے بیان کئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اچھے انسان تیار کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غصے کا یہ حل تجویز فرمایا کہ جب کسی کو غصہ آئے تو وہ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غصے کی حالت میں وضو کر کے اسے ٹھنڈا کرنے کا حکم دیا۔

ایک بار ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مجھے زندگی کو پْرسکون اور خوبصورت بنانے کا طریقہ بتا دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”غصہ نہ کیا کرو“۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” دنیا میں تین قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ اول وہ جو جلدی غصے میں آ جاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آجاتے ہیں۔

دوم وہ لوگ جو دیر سے غصہ میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آجاتے ہیں۔اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں واپس لوٹتے ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزید فرمایا ” ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان“۔ غصہ دنیا کے نوے فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف اپنے غصے پر قابو پالے تو اس کی زندگی کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں برداشت کا کلچر عام کرنے کی جدوجہد کرنا مسند نشینوں سے لے کر محراب و منبر تک سب کی ذمہ داری ہے۔اعتدال پسندی اور رواداری دین اسلام کے وہ سنہری اصول ہیں، جنہیں بھلا کر ہم برسوں سے زمانے بھر میں خوار ہورہے ہیں۔ میانہ روی اور برداشت جیسے گم شدہ موتی چن کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے کٹھن راستوں پر بھٹکتے معاشرے کو یگانگت کی پگڈنڈی پر ڈالا جاسکتا ہے۔


عدم برداشت کے اسباب کی تلاش میں بگاڑ اور انتشار سے تپتے صحرا کی مسافت میں رواداری،ایثار،محبت اور اقدار کی خوشیوں سے مہکتے چھوٹے چھوٹے نخلستان بھی آئے ہیں ان نخلستانوں میں مہک کے احساس نے میرے دل میں ٹمٹماتے چراغ امید کی لُوکو بھجنے سے بچالیاہے۔ امید انسان کا سب سے بڑا سہاراہے۔ہمارے پاس اسلام جیسا سلامتی کا دین موجودہے جو مکمل ضابطہ حیات اور اسوہ حسنہ میں بے شمار سبق آموز مثالیں موجود ہیں جن پر ہم انفرادی سطح پر عمل کرتے ہوئے اجتماعی سطح پر برداشت،رواداری،ایثار،بھائی چارے،محبت اور انصاف کی منزل کو پہنچ سکتے ہیں اور اس کام کا آغاز رحمتوں اور برکتوں بھرے مہینے رمضان المبارک کے مہینے سے کردینا چاہیے کہ یہ مہینہ بھی تو ہمیں صبر،رواداری،برداشت،تحمل اور خدمت جیسی اعلیٰ اقدارکی تربیت کے لیے عطا ہواہے۔

اللہ نے رمضان میں ہمیں صرف اچھا عبادت گزار بننے کے لیے ہی نہیں بھیجا بلکہ یہ ہمیں اعلیٰ اخلاق اور اقدار سے روشناس کروانے آیا ہے۔ہمیں اپنی زات،معاشرے اور ریاست کوترقی کی شاہراہ پر لانے کے لیے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :