ضرب عضب کے بعد

بدھ 2 جولائی 2014

Shahid Nazir Chaudhry

شاہد نذیر چودھری

پاکستان کو ترقی یافتہ اور محفوظ ترین ملک بنانے کے لئے دوبڑے آپریشنز کی ضرورت کا تقاضا عام ہوچکا ہے۔ایک آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کیخلاف جاری ہے اور دوسرا آپریشن سیاست گردوں کیخلاف کئے جانے کاامکان بھی بڑھ چکا ہے۔ان دونوں ”گردوں “ نے ملک میں گردنوں کی سیاست کی ہے اور جس نے بھی انکی گردنوں پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا اسکی گردن کاٹ دی گئی،جھکا دی گئی…اوریوں پاکستان کی گردن کے مہرے کمزور ہوتے چلے گئے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ …فوج دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں کامیابی کے بعد دوسرے آپریشن میں کیا تعاون کرتی ہے اور کب؟؟
اس وقت دہشت گردوں کیخلاف جاری آپریشن ضرب عضب کامیابی کے بعد اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ اس کے دوسرے مرحلہ پر پاک فوج نے زمینی کارروائی کے دوران بھی دہشت گردوں کی سرکوبی کرتے ہوئے ان کے قبضہ سے جدید ترین اسلحہ بارود، زیر زمین سرنگوں اور کمیونی کیشن سسٹمز پر قابو پا لیا ہے۔

(جاری ہے)

پاک فوج نے ایک طویل عرصہ کے بعد ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے شمالی وزیرستان میں 18 جون سے زوردار آپریشن کا آغاز کیاتھا جس کے بعد پانچ لاکھ کے قریب لوگ در بدر ہو گئے۔ اس جنگی صورتحال میں امن پسند اور بے گناہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے فوج نے اپنی ذمّہ داری نبھائی ہے جبکہ متاثرین کیلئے ملک اور بیرون ملک سے بھی امداد جاری ہے۔

قوم میں دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں فوج اور متاثرین کیساتھ یک جہتی کا بھی ثبوت دیا ہے حالانکہ اس دوران ملک بھر میں سیاسی شوریدگی میں بھی اضافہ ہوگیا تھا اور گمان ہوگیا تھا کہ سیاسی انتشار کی اس فضا میں سول حکومت تو بس گئی کی گئی،لیکن قوم اور سیاسی قوتوں نے بھی بعد ازاں نازک وقت میں سیاسی کبڈی کھیلنے سے گریز کیااور فوج کا مورال بلند کرنا شروع کردیا۔

فوج کو اس مورال کی شدید ضرورت بھی ہوتی ہے تاہم اس موقع پر ایک عجیب منظر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سیاسی قوتوں کا احتجاج تو نرم پڑگیا لیکن فوج کے سابق جنرل نے اس آپریشن کے تناظر میں جنرل کیانی کے کردار کو مشتبہ اور متنازعہ بناکر نئی بحث چھیڑ دی۔ ضرب عضب کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوتے ہی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کے دوران انکشاف کیا ہے کہ اس آپریشن کا فیصلہ جنرل کیانی کے دور میں ہی کر لیا گیا تھا اور فوج اس پر تیار تھی لیکن جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث آپریشن نہ کیا گیا جس کے بعد فوج اور ملک کو دہشت گردوں نے مزید نشانہ بنایا۔

اگر یہ آپریشن اس وقت کر لیا جاتا تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ جنرل اطہر عباس کا یہ انٹرویو سابق چیف جنرل کیانی کے 6 سالہ دور پر ایک بڑا حملہ قرار دیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور سول حکومت بھی شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر منظم آپریشن کی حامی تھی لیکن جنرل کیانی نے اس معاملہ کو ٹال دیا۔ اس کی وجوہات پر بھی بحث شروع ہو چکی ہے تاہم اس تاخیر کے بعد پاکستان نے جو شدید نقصان اٹھایا اس کا ذمّہ دار اب کس کو ٹھہرایا جائے؟موجودہ ملکی صورتحال میں ایک پہلو یہ بھی ہے۔

اس وقت جب ضرب عضب جاری ہے تو اس پرکئی حلقے معترض ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یہ خدشہ اور تحفظات سول حکومت پر تھوپے جا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ سول حکومت ٹال مٹول کر رہی تھی لیکن فوج نے مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس مبینہ اختلاف کی وجہ سے سول حکومت اور فوج کے درمیان بھی تضاد پایا گیا ہے۔ اب جبکہ آپریشن کا منطقی اختتام ہو رہا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن دہشت گرد عناصر کیخلاف یہ آپریشن کیا گیا ہے، ان کا خاتمہ ہو گیا ہے اورکیا وہ قوتیں کمزور پڑ گئی ہیں؟ مستقبل میں پاکستان کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کس قسم کی ضرب لگانے کی ضرورت ہوگی؟ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کافی پرانا اور امریکہ سے فنڈز لینے پر بھی مشروط تھا۔

کیا اب پاکستان محفوظ ہوجائے گا؟ کیا پاکستان کی ترقی اور تحفظ کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ملکی نظام کار کی اصلاح ضروری نہیں ہے؟کیا اس ضرب عضب کے بعد ایک ضرب پاکستان کو کمزور کرنے، بدعنوانی اور بدانتظامی پر بضد قوتوں پر نہیں لگانی چاہئے جن کی ڈھیل نے پاکستان کو فضا میں معلق کئے رکھا ہے؟ مگر یہ ضرب کون لگائے گا۔تاہم یہ ضرب جو بھی لگانے کا ارادہ کرے قوم دل سے اسکے ساتھ ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :