پیشہ ور بھکاری

بدھ 2 جولائی 2014

Hussain Jan

حُسین جان

رمضان کی آمد آمد ہے ،ہر طرف نور کی بارش ہونے کو ہے،دلوں میں محبت زبانوں میں نرمی درکار ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سب سے حسین موقع غریب و مسکین افراد کے لیے مخیر حضرات کی طرف سے دل کھول کر امداد دی جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیشہ ور بھکاری بھی اپنی اپنی جھولیاں کھولے میدان میں نکل آئیں گے۔ بہت سی این جی اوز،سکول ہسپتال وغیرہ وغیرہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے، زکوة مانگنے کے لیے لاکھوں روپے کے اشہتار بھی چلیں گے ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو سارا سال نظر نہیں آتے ان کے رفاہی کام سب کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں مگر رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ اپنے اپنے بلوں سے نکل آتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سے رفاہی ادارئے کام بھی کر رہے ہیں اور غربا کی مدد بھی۔

(جاری ہے)

لیکن یہ پیشہ ور بھکاری مستحق لوگوں کا حق بھی کھا جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگوں کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ زکوة و صدقات کی رقم دیتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ جس کو دے رہے ہیں وہ ادارہ یا فرد اس کے مستحق بھی ہیں یا نہیں۔

لہذا ہمیں رمضان کے مہنے میں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ زیادہ سے زیادہ غریب لوگوں کی مدد کریں۔ پاکستان میں غربت اپنی انہتا کو پہنچ چکی ہے غربت کی وجہ سے لوگوں میں خود کشیاں کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اللہ نے زکوة کا نظام بنایا ہی اسی لیے کہ امراہ کی دولت میں سے غرباء کو بھی حصہ دیا جائے تاکہ سب لوگوں کے گھروں کے چولھے گرم ۔


آپ جس سڑک سے گزرئیں گے آپ کو بڑھے بڑھے سائن بورڈ نظر آئیں گے انہتائی ماڈرن خواتین کے زیر سایہ چلنے والی این جی اوز چندے کے لیے درخواستیں کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ رقم جاتی کہاں ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ، یہ لوگ اسی رقم سے بڑی بڑی گاڑیاں اور گھر خرید لیتے ہیں اور غریب لوگوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اور پھر پورے سال کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔

آجکل ہماری آرمی شمالی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل مکانی کر رہے ہیں ہمیں ان لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کی آڑ میں پیشہ ور بھکاری اپنی دکان داری چمکانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ ہماری زمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں سے چوکنہ رہیں اور صرف مستحق لوگوں کی مدد کریں۔


اگر ہم نظر دوڑائیں تو پورے عالم اسلام کو حالت جنگ میں پائیں گے شائد ہی کوئی اسلامی ملک ہو جس میں انتشار نہ ہو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم انسانیت کی تذلیل کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ جہاں دیکھیں امیر غریب کا استحصال کر رہا ہے حکمران اپنی اپنی زمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ سب کے سب اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ جنگ جیتنے کے لیے اگر اُن کو لاکھوں لوگوں کی لاشوں سے کیوں نہ گزرنا پڑئے وہ گزر جاتے ہیں ایسے میں اگر خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا کچھ موقع ملے تو ہمارے حکمران اُسے بھی رد کر دیتے ہیں، مگر اخباروں کی حد تک سب بہتر کی آواز ہے۔


لیکن اگر ہم دوسری طرف دیکھیں تو ، شوکت خانم،ایدھی، الخدمت صحارا جیسے بیشمار گروپ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ہمیں ہر سال اپنی زکوة میں سے کچھ نہ کچھ رقم ان اداروں کے لیے بھی رکھنی چاہیے۔ ایک چیز جس پر ہم کبھی نہیں سوچتے وہ ہے ہر کام کی عملی شکل کہ اگر کسی کام کو عملی طور پر نہ کیا جائے تو اُس کے نتائج ہماری توقعات کے مطابق نہیں آتے۔

اگر آپ نے اپنے مال سے کچھ خیرات کرنی ہے تو اُس کے لیے بھی آ پ کو عملی طور پر کام کرنا ہو گا مثلا آپ کو گھر سے نکل کر خود مستحق لوگ ڈھوندنا ہوں گے تاکہ آپ کی رقم اسلامی ضوابط کے مطابق استعمال ہو سکے۔ کیونکہ یہ جو پیشہ ور این جی اوز اور ادارئے ہیں ان کا کام صرف پیسے اکھٹے کرنا ہوتا ہے عملی طور پر یہ سارا پیسہ خود ہی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس میں بھی بہت سے کرپٹ لوگ شامل ہوتے ہیں۔

اب تو باقاعدہ ایسے ادارروں نے چندہ اکھٹا کرنے کے لیے پروفیشنل لوگوں کو ہائر کیا ہوا ہے جو پیسے بٹورنے کے نت نئے طریقے بتائیں گے کہ کیسے لوگوں کو متاثر کیا جائے اور اُن کی جیبوں کو خالی کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ پیشہ ور بھکاری آپ کو چھوٹی موٹی گلیوں میں بھی نظر آئیں گے یہ گھر گھر جا کر لوگوں کو تنگ کرتے ہیں اور تب تک پیچھے پڑئے رہتے ہیں جب تک لوگ کچھ دے نہ دیں۔

ان لوگوں کا خاص کر نشانہ گھریلوں خواتین ہوتی ہیں جن کو یہ بڑئے آرام سے اپنے جال میں بھانس لیتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی خواتین کو ان کے بارئے میں بتا دینا چاہیے کہ ایسے لوگوں کو خود سے دور رکھیں۔ اور صدقات و عطیات صرف اور صرف مستحق لوگوں کو دیں۔ گھر ہم رقم کی منصفانہ تقسیم کرئیں تو سوسائٹی کے حالات میں کافی بہتری آسکتی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی رقم سے ایک پائی بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

دولت کے یہ پجاری دن رات کرپشن اور لوٹ مار سے اپنی دولت کو بڑھانے کا سوچتے رہتے ہیں اس دولت کو جمع کرنے کے لیے یہ لوگ کسی حد تک بھی سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک اسلامی ملک کو مکمل رفاہی ریاست بنائیں اپنے اپنے لوگوں کو امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد کرئیں یہ اقتدار کی جنگ سے کسی کا کچھ نہیں ہونے والا سوائے قتل و غارت کے۔ ہم پوری دُنیا میں فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام امن و امان کا مذہب ہے اس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری اپنی وجہ سے ہی اسلام پوری دُنیا میں بدنام ہو رہا ہے ۔ ہمیں اپنی غلطیوں و کوتاہیوں سے سبق سیکھنا ہوگا تاکہ عالم اسلام میں بھی امن و امان قائم ہو سکے اور مسلمان سکون کی زندگی گزاریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :