جولائی کی جولانی

جمعرات 26 جون 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

رمضان کی آمدآمد ہے ،یہ موسم قریب آتے ہی غریب تو کیا اچھے خاصے کھاتے پیتے طبقے پر بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہیں،جن گھرانوں کوعام دنوں میں بھی اپنی محدود آمدن میں گزارہ کرنا مشکل ہو رہا ہو ،ان کو یہ طے کرنے میں نہایت دقت پیش آتی ہے کہ وہ رمضان میں مہنگائی کے طوفان کا کس طرح مقابلہ کریں،کیوں کہ ہماری حکومتیں اور قانون کے نفاذ کے ذمے دار ان کبھی بھی اپنے دعوے کے مطابق نہ تو مہنگائی کنٹرول کرسکے ہیں،نہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا کچھ بگاڑ سکے ہیں۔


انتظامیہ ہمیشہ لگے بندھے طریقوں پر عمل کرتی ہے، جن کا سب کو پہلے سے علم ہوتا ہے ،ان طریقوں سے بچاؤ کے طریقے بھی سب جانتے ہیں،ہر سال کچھ غریب اور چھوٹے دکان داروں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کچھ کو حوالات کی سیر بھی کروائی جاتی ہے لیکن جرمانہ دینے والے جرمانہ ادا کرنے کے بعد زیادہ دھڑلے سے من مانی کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے وہی جرمانہ خریداروں سے پورا کرنا ہوتا ہے،حوالات کی ہوا کھانے والا چھوٹ کے آتا ہے تو منافع کی نئی اسکیمیں بھی ساتھ لاتا ہے، پولیس اور انتظامیہ کا سارا غصہ عوام پر اتارنے کی ترکیبیں سوچ کر آتا ہے۔

(جاری ہے)


اور اس سال رمضان کے آغاز کے اگلے ہی روز نیا بجٹ بھی نافذالعمل ہو رہا ہے ، گو اب کسی بھی چیز کے دام بڑھنے کا بجٹ ہی سے تعلق نہیں رہ گیا، اب تو سونے اور کرنسی کی طرح ہر چیز کی روزانہ نئی قیمتیں آتی ہیں، اور ان قیمتوں میں کمی تو شاذ ونادر ہی ہوتی ہے اکژ اضافہ ہی ہوتا ہے، اور بجٹ بھی یکم جولائی کاکب ا نتظار کرتا ہے ،تاخیر کا بالکل بھی روادار نہیں ہوتا، وزیر خزانہ کے منہ سے الفاظ پھسلتے جاتے ہیں اور مہنگائی کا گراف بڑھتا جاتا ہے ، لیکن پھر بھی یکم جولائی بہر حال یکم جولائی ہے جو اپنی جولانی کے ساتھ آتی ہے۔


#####
پہلے پینے کا پانی خریدنا پڑتا تھا ،اب نہانے اورہاتھ منہ دھونے کے لیے بھی خریدنا پڑتا ہے،سرکار کے کھاتے میں جو بل جاتا ہے وہ دے کر بھی پانی نہیں ملتا،ٹنکر تلاش کریں ،منہ مانگے داموں پانی خریدیں،یا کین اور بوتلیں اٹھائے گلی گلی گھومیں، کہیں کسی نلکے سے کچھ بوندیں ٹپکٹی نظر آئیں تو قطار لگ جاتی ہے اور اس سب کے ساتھ جولائی کی قیامت خیز گرمی میں بجلی کی علانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے قیامت سے پہلے ہی قیامت پربا کر رکھی ہے ۔


دنیا کے ہر ملک میں ترقی ہو رہی ہے ،ہم پیچھے کی طرف دوڑ رہے ہیں، وہ سارے نظام جو دنیا کے ہر ملک میں کامیاب ہیں، ہم وہ نظام لانے چکر میں اپنے سادہ نظام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے،پرانا نظام فرسودہ لگتا ہے ،نیا ہم چلا نہیں سکتے ، نتیجہ یہ کہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ خرابی اور فالٹ نے الگ ہی قیامت ڈھا رکھی ہے۔جہاں لوڈ شیڈنگ کا ہی نہ تو دورانیہ مقرر ہو، نہ اوقات کا تعین ، کسی بھی وقت جا سکتی ہے، وہاں لائینیں ٹرپ ہونے اور فالٹ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

####
اخبارات پڑھیں یا ٹی وی پر اپنے وزراء کے بیانات سنیں، یہی نظر آتا ہے کہ ہر وزیر اپنے محکمے کی ترقی سے زیادہ دیگر مسائل میں دل چسپی رکھتا ہے، اپنی فیلڈ،اپنی لائن اور اپنی ذمے داری کی طرف توجہ بالکل نہیں دیتا، دوسرے ملکی اور عالمی معاملات اور حالات پر لب کشائی بلکہ رائے زنی اور فیصلہ کن پالیسی ساز ہونے کاتاثر دے کر ملکی اور عالمی لیڈر بننے کی کوشش کرتا ہے،میڈیا والے بھی اس سے اس کے محکمے سے متعلق سوال نہیں کرتے ، تا کہ پتا تو چلے موصوف کیا تیر مار رہے ہیں، وہ بھی تازہ ملکی حالات ، امن و مان کی صورت حال، شام اور عراق میں حکومتی پالیسی معلوم کرتے نظر آتے ہیں گویا ہر وزیر اپنی وزارت کے ساتھ اطلاعات کا بھی ذمے دارہے اور حکومتی پالیسی بیان کرنے بلکہ بنانے کا بھی مجاز ۔


حالاں کہ ہر وزیر اگر اپنے محکمے پر توجہ دے ،حکومتی گرانٹ صحیح مصرف پر خرچ کرے، کامیابی اور ترقی کی نئی نئی ترکیبیں سوچے اور پوری توانائی بروئے کار لائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل حل نہ ہوں،وزراء اپنے ہاتھوں اپنی حکومت کی ناکامی کا سبب نہ بنیں ، نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی پالیسی کے خلاف عمل سے عوام کااعتماد نہ کھوئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :