ہمارے پاس کیا جواب ہو گا؟

منگل 24 جون 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

عجب ہنگامہ بر پا ہے۔ ڈرامے بازوں، فسادیوں اور منافقوں کا ایک میلہ ہے جو سجنے جا رہا ہے ۔بے گناہ لوگوں کی لاشوں پر سیاست چمکانے والے مختلف روپ اختیار کرتے غیر ملکی بہرو پئے جنہیں غربت و افلاس کا عذاب سہتے انسانوں کے درد کا کچھ بھی احساس نہ ہے ،سال کے کچھ دنوں میں اپنے آقاؤں کے حکم کی تعمیل کرتے، ملک عزیز میں ’انقلاب “ کا نعرہ لگاتے ایک ایسے فساد کا آغاز کرتے ہیں جس کے نتیجے میں افرا تفری اور بے یقینی کی کیفیت میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے ۔


کچھ مہینوں کے سکون کے بعدغریب لوگوں کے چندے پر ملین ڈالرز کے پُر تعیش اوریخ بستہ گھر میں مکین ،کڑوروں روپے اپنی سیکورٹی پر خرچ کرنیوالے”کینیڈین شیخ “ آج پھر اپنی دوکان سجائے بیٹھے ہیں اور سونے پر سہاگہ ”چوہدری برادران“ بھی ان کے اس ڈرامے کے مر کزی کردار ہیں جنہیں منہاج القرآن میں شہید ہونے والے لوگوں کی شہادت پر پیٹ میں تو درد اٹھا لیکن اپنی سر پرستی میں قر آن پڑھنے اور پڑھانے والی معصوم اور بے گناہ خواتین کو زندہ جلادینے پر نہ تو ان کے پیٹ میں کسی قسم کا در د اٹھا اور نہ ہی انہوں نے کسی سے استعفے کا مطالبہ کیا؟ بلکہ قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی صدائیں لگانے والیوں کی آوازیں بند کر وانے پر جن انعامات و اکرامات سے انہیں نوازا گیاجس کے نتیجے میں رب کریم کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر ثبت ہو چکی اور پھر ان جیسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہو تا ہے :” یہ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں“ ۔

(جاری ہے)

کرپشن اور فراڈ کی ایسی ایسی داستا نیں ان کے دور میں رقم ہوئی ہیں کہ جنہیں دیکھ کے اور سُن کے کراہت محسوس ہو تی ہے۔ان کی منافقت سے بھرے اور انسانیت سے خالی بیانات کو سُن کے فشار خون بلند ہو جاتا ہے کہ یہ کس منہ سے ایسے شخص سے استعفے کا مطا لبہ کر رہے ہیں جومخلوق خدا کے ساتھ رواء رکھے جانے والے معاملات میں ان سے کئی گناہ بہتر ہے اور جسے ایک سازش کے تحت اس خونی کھیل میں ملوث کیا جارہا ہے ۔

قارئین !پروگرام تو سانحہ لاہور کے مرکزی کرداروں کے منہ سے نقاب اٹھانے کا تھا لیکن کچھ چیزیں ہضم کر جانا ہی بہتر ہوتی ہیں اور ویسے بھی حقیقت عوام کے سامنے آتی جارہی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب اس موضوع پر قلم اٹھانے سے اپنا اور قارئین کا وقت ہی ضائع کروں گا۔اس سے کئی درجے بہتر ہے کہ کچھ دن پہلے ملنے والے اس شخص اور معاشرے میں بسنے والے اس جیسے کئی اشخاص کا ذکر کیا جائے جنہیں شیخ الاسلام جیسے لیڈروں کے سوکھے انقلابی نعروں، جذبات سے بھرے اور حقیقت سے کوسوں دورجھوٹے دعووں سے کوئی سرو کار نہ ہے ۔

قارئین محترم !ضمیر شاہ ایک کمپنی میں آفس بوائے اور چار بچوں کا باپ ہے۔کرائے کے گھر میں رہائش پذیر آٹھ ہزار تنخواہ میں اپنا گذر بسر کرنے میں مجبور ہے ۔اس کے چہرے پربے کسی اور بے بسی کے ملے جلے احساسات نمو دار ہو رہے تھے اور وہ درد میں ڈوبی لڑکھڑاتی آواز میں مجھ سے اپنے شب و روز بیان کر رہا تھا کہ شایداس کے دکھ میں کچھ کمی آسکے ۔ کرب میں لپٹے ،سینے میں چھپے، دل کو پھاڑ دینے والے حالات کہ وطن عزیز میں اس جیسے ایسے بہت سے لوگوں کو اپنے بیوی بچوں کو پالنے اور اپنی بھوک مٹانے کے لئے کن مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے کہ جسے سننے کے بعدمجھ جیسے سخت دل انسان بھی آخر کار رونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جب اس نے مجھے بتا یا کہ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے میں اور میرے بچے ایک عرصے سے روٹی کے سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کے کھارہے ہیں تو مجھے اپنے انسان ہونے پر شر مندگی محسو س ہو نے لگی اور میں سوچنے پر مجبو ر ہو گیا کہ ایک جگہ تو ضمیر شاہ جیسے لوگ ہیں کہ جنہیں گھر کے کرائے،بچوں کے تعلیمی اخراجات ،بجلی،پانی اورگیس کے بلوں سے لے کے علاج و معالجہ اور زندہ رہنے کے لئے ضروریات زندگی کی تما م تر سہولیات کے حصول کے لئے کچھ ہزار سے زندگی کا چراغ روشن رکھنا پڑتا ہے جبکہ دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو روزانہ لاکھوں روپے اپنی عیاشیوں پر خرچ کر دیتے ہیں اور جن کے جانوروں کے لئے خوراک تک فرانس اور امریکہ کے کسی بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور سے منگوائی جاتی ہوں اور جو ہر جمعہ کی نماز حرم شریف اور مسجد نبوی ﷺ میں جا کے ادا کرتے ہیں ۔

قارئین محترم!ہم میں ہر انسان اپنی موج مستیوں میں گم صرف اور صرف اپنے پیٹ کو بھر نے میں مصروف کہ جس کے لئے ہمیں جو کچھ ہی نہ کر نا پڑ جائے ۔ہم میں سے اکثر انسان ایسے بھی ہیں جو خدمت انسانی کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن صرف اور صرف کھوکھلے۔ہم میں کئی ایسے انسان بھی ہیں کہ جن کے دستر خوان پر چار چارقسم کی ڈشز سجتی ہیں جبکہ ہمارے ہمسائے میں ہی کو ئی ضمیر شاہ جو کئی دنوں سے فاقے پر ہوتے ہیں کہ بھوک حد سے بڑھ جائے تو روٹی کے سوکھے ٹکڑوں سے اپنی بھوک مٹارہے ہوتے ہیں۔

کبھی ہم نے غور نہیں کیا کہ ہمارے آس پاس ہی ایسے ہزاروں سفیدپوش لوگ موجود ہوتے ہیں کہ جو کسی کے سامنے دست سوال بلند کر نا گوارہ نہیں سمجھتے اور کئی کئی دنوں کے فاقے سے مجبور ہوکے مرداد کھانے پر مجبور ہیں۔کبھی ہم نے نہیں سوچاکہ روز قیامت اللہ نے ہم سے سوال کیا کہ بتاؤ؟” تم خود تو مزے مزے کے کھانے کھا کے اپنے گھر والوں کے ساتھ سکون کی نیند سو جاتے تھے تو تمہارے آس پاس ہی ایسے کئی ضمیر شاہ تھے جو بھوکے سوتے تھے تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :