حاکم ِ شہربتا !

منگل 24 جون 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

نہ گور ِ سکندر نہ ہے قبر ِ دارا
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
انسان کااپنی سوچ وفکرکی بنیاد پر بُلند مرتبہ اور مقاصدحاصل کرلینا ہی کافی نہیں،بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہاں تک انسان پہنچے"اللہ چاہتا ہے کہ تمھارے لئے تم سے پہلوں کے طریقے اور راستے کھول کھول کربیان کردے،تمھاری توبہ قبول کرے اور اللہ علم والاحکمت والا ہے۔

اللہ چاہتا ہے کہ تمھاری توبہ قبول کرے،جب کہ خواہشات کے پیچھے چلنے والے تمہیں بالکل گمراہ کر دینا چاہتے ہیں"(۴:۶۲-۲۷)
بعض انسان ایسے بد نصیب ہوتے ہیں کہ غلط سوچ،فکراور اپنی ذات کی اتباع میں دوسروں کی خوشی و راحت کی قربانی پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے انسان نہ صرف خودذلیل ورسوا ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کا وقار اور عزت بھی خاک میں ملادیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ماڈل ٹاون لاہور کے سانحہ کے دوران ، ایسے ہی ایک بدبخت کردار نے ایسی آگ بھڑکائی، جس کے شعلوں کی لپیٹ میں آکرکئی افراد لقمہ اجل بنے، مگر وہ بدبخت اس موقع پرناچ کر اپنی خوشی کا اظہارکررہا تھا۔
عرب کے ایک مشہور شاعر عدی کا مشہور زمانہ قصیدہ ہے ترجمہ"دوسروں کی مصیبتوں پر خوشی منانے والے کیا تجھ سے اس بات کا کوئی پیمان باندھا گیا ہے کہ ان جیسی مصیبت تجھ پر نہیں پڑے گی؟ کیا زمانہ نے تجھ سے کوئی معاہدہ کرلیا ہے کہ توپریشانیوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہے گا؟ پھریہ خوشی کس لئے؟
ماڈل ٹاوٴن لاہور جیسے واقع پر تصادم اور کشیدگی کا پیدا ہونالازم امر ہے۔

کسی بھی آپریشن سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار اور مکمل منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔کہ ہر قسم کی پیدا ہونے والی بدمزگی اور کشیدگی سے کیسے نمٹا جائے ۔مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا،یہاں معاملہ انا پرستی کا تھا۔ ایسا لگ رہا تھاکہ روکاوٹیں ہٹانے کی بجائے اپنی دہشت پھیلانا، طاقت کا مظاہرہ کرنااور وارننگ دینا مرادہے۔صوبائی دارلحکومت لاہور میں انتطامیہ کی ناک کے نیچے کھلے عام پولیس کی وردی میں ملبوث درندوں نے مہلک حماقت کا ارتکاب کرتے ہوئے، عوام جن میں عورتیں، بزرگ اوربچے بھی شامل تھے پر اندھا دھندفائرنگ سے اپنے ہی شہریوں کو بے رحمی سے زخمی اور قتل کرڈالا۔

آخر ایسی کون سی نوبت اور مجبوری تھی، جس کے لئے آخری حد تک جانا پڑا۔ دوسروں پر ظلم کرتے ہوئے ہم کیوں بھول جاتے ہیں،کہ یہ حکومت ، یہ طاقت اور اقتدار عارضی ہے اور ہمیں اپنے کئے کا بدلہ دینا پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:- "ہم یہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے"(۱۱:۱۵)۔
ہما رے سیاستدان اور راہنمااسی طرح اپنی نااہلی کا ثبوت دیتے رہے تو پھر جادوئی چراغ ہی ہے جوفور ی طور پر حالات سُدھار دے۔

پچھلے دنوں کراچی ایئرپورٹ کا حادثہ پیش آیا ،اخباری اطلاع کے مطابق وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے جناب وزیر ِاعظم صاحب کاپوری کوشش کے باوجودرات بھررابطہ نہ ہو سکا۔ہماری نالائقی اور بے حسی کا اندازہ لگائیں کہ کراچی جیسے سانحہ کے بعداپنی نااہلی پر افسوس اور شرمندگی کی بجائے وفاق اور سندھ کے درمیان ذمہ داری کی بحث چھڑ گئی۔ اسی طرح ماڈل ٹاون لاہور میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر سے روکاوٹیں ہٹانے کے دوران پورا علاقہ پولیس اور کارکنوں کے درمیان 12 گھنٹے میدان جنگ بنا رہا۔

کسی اخبار میں پڑھا کہ وزیر ِ اعلیٰ صاحب کو اس آپریشن کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔اب ایسے موقع پر کیا کہا جائے؟ قارئین کرام اس لا علمی کی نسبت سے ایک لطیفہ یا د آگیا:- "نئی دلی میں ایک تقریب کے دوران ہوم منسٹر بوٹا سنگھ دعوتی کارڈ گم ہوجانے کے باعث دیرسے پہنچے۔ گارڈ نے انہیں دروازے پر روک لیا اور شناخت طلب کی۔ بوٹا سنگھ سوچ میں پڑگئے ، جب کہ گارڈ نے کہا"آپ سے گھنٹہ پہلے روی شنکر آئے۔

ان کا کارڈ بھی کھو گیاتھا۔ اُنہوں نے ستار بجا کر مجھے سُنایا۔ مجھے یقین آگیا کہ روی شنکر ہیں۔ میں نے اُنہیں جانے دیا۔ پھر منی شنکرآئے، وہ بھی کارڈ نہ لا سکے تھے۔ میں نے ان سے بوفورس سکینڈل کے دوران لی گئی رشوت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرفر بتا دیا تو میں نے اُنہیں بھی اندر جانے دیا۔ اب آپ بھی تواپنی قابلیت کا ثبوت دیں"بوٹا سنگھ نے جواب میں کہا" میں تو روی شنکر اور منی شنکر کو جانتا ہی نہیں،گارڈ نے مُسکراکراُنہیں اندر جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا-:آپ کا " لاعلم " ہونا ہی آپ کے ہوم منسٹرہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔


موجودہ دور غفلت ، لاپرواہی اور لا علمی کا ہرگزمتاقضی نہیں۔ہمیں اس وقت بدترین حالات کا سامنا ہے۔ بدامنی، غربت ،بے روزگاری سمیت ہرطرح کے مسائل میں گھرے غریب عوام کو مشتعل کرنے کی بجائے صبر و تحمل اور برداشت کے کلچرکوفروغ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ہماری سب سے اہم ذمہ داری پورے پاکستان کو متحد اوریک زبان کرنا ہے۔ شیخ رشید"چھڑیاں دی اگ نہ بلے"،احتجاج مارکہ سیاستدانوں اور لاشوں کی سیاست کرنے والے حضرات سے بھی گزارش ہے کہ ہم عوام پر رحم کھائیں، حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔

اس وقت یہ ملک نہ تو آئے روزاحتجاج اور نہ ہی ریاستی دہشت گردی کا متحمل ہے۔
عبث ہے شکوہ ِ تقدیر ِ یزداں
تو خود تقدیر ِ یزداں نہیں ہے
ہماری بے حسی ، لا پرواہی، ہٹ دھرمی اور ہر معاملہ میں انتہا پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔بدقسمتی سے ہمارے سیاسی ومذہبی راہنمااپنی اپنی سوچ اور مفادکے اسیربن چکے ہیں۔آج ہم گروہوں، مسلکوں، عقیدوں، سیاسی اور علاقی عصبیتوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔

ہم بے راہ اورنشان ِمنزل سے بھٹکے ہوئے ہجوم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک قتل و غا رت گری اور تشدد کی آماجگاہ بن چُکا ہے۔ہمارے قومی انتشار نے دہشت گردوں اور بدخواہ ملک دشمن عناصر کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے پورے ملک میں تباہی پھیلی ہوئی ہے اور قتل و غارت گری ،مہنگائی ،غربت ، بے روزگاری سے تنگ عوام امن وسکون کے ایک لمحہ کو ترس گئے ہیں۔

ایسے موقع پر جب پاک فوج دہشت گردوں کے ساتھ نبردآزما ہے اور ملک سے دہشتگردی کے خاتمے لئے حالت جنگ میں ہے ۔ پاک فوج کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔اور ہم ہیں کہ پورے پاکستان کویکجا اوریک زبان کرنے کی بجائے اپنے ہی عوام کو قتل کیے جا رہے ہیں۔ایسی بھی کیابوکھلاہٹ کہ اس سارے عمل کے دوران یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا، کہ اس غلط اقدام یا حکمت عملی سے قومی اتحاد پارہ پارہ اور دہشگردی سے نمٹنے کا عمل بری طرح متاثرہوسکتا ہے۔

17جون 2014کوماڈل ٹاون میں پیش آنے والے سانحہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کہ یہ حاکم ِوقت کی لاپرواہی، انا پرستی اور ظلم نہیں تو کیا ہے؟
حاکم شہر بتا!
وقت کے شکنجوں نے
خواہشوں کے پھولوں کو
نوچ نوچ توڑا ہے
کیا یہ ظلم تھوڑا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :