برطانیہ میں سفیر کی تعیناتی اور چوہان

منگل 24 جون 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

ایک مطالعاتی ٹور پر آسٹریا،جرمنی،فرانس،ہالینڈ اور بلجیم جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جناب قمرالزمان کائرہ بھی سیاسی دورے پر اڑوس پڑو س میں ہی پھر پھرا بلکہ پھڑپھڑا رہے ہیں اور یورپ کی ٹھنڈی فضاؤں سے صوتی رابطے پر اسلام آباد کی گرم ہواؤں میں پھونکیں مار رہے ہیں کائرہ صاحب سیاستدان ہیں اور سابق وزیر بھی۔ وزیروں،امیروں اور مشیروں کے دورے مطالعاتی نہیں بلکہ ذاتی اور مفاداتی ہوتے ہیں پرانے انوسٹر ری انوسٹ کرتے ہیں اور نئے مستقبل کی انوسٹ منٹ کا پروگرام بناتے ہیں۔

یورپ اور امریکہ میں بیٹھے پاکستانی بزنس مین اب سیاستدانوں پر انوسٹ کرتے ہیں اور سو فیصد کماتے ہیں کچھ لوگ یورپ میں ہی رہتے ہیں اور یہاں بیٹھے بیٹھے کونسلر اور سفیر بن کر کماتے ،لگاتے اور پھر کماتے ہیں۔

(جاری ہے)

حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں میاں برادران اقتدار میں آئے تو ان کے بیرون ملک بیٹھے دوست یار پاکستان میں ان ہوگئے جنھیں سپریم کورٹ بھی آؤٹ نہ کرسکی بڑی بڑی کارپورشنوں اور منافع بخش اداروں پر بیٹھے چیئرمین راتوں رات آؤٹ کر دیئے گئے اور آؤٹ ڈور بیٹھے یاران چمن آؤٹ آف ٹرن ان ہوگئے۔


اسلام آباد سے غریب صحافیوں کا مختصر قافلہ دوبئی روانہ ہوا تو امیگریشن والوں نے مسکرا کر پوچھا اے غریب اخباروں کے سفید پوش رپورٹروں اور چھوٹے چھوٹے صحافیو پکے جارہے ہو یا کچے ؟ہم نے امیگریشن آفیسر کے طعنے کا جواب مسکراہٹوں سے دیا اور عازمین دبئی ہوگئے بحر حال دبئی سے ویانا کی فلائٹ پر بخیریت سوار ہوئے اور ویانا پہنچتے ہی اپنا اپنا بستہ اٹھا کر سیمینار ہال میں جاپہنچے دیسی،ولائتی،ہندی چینی اور ماچینی صحافیوں ،دانشوروں اور زندگی کے ہر موضوع پر بولنے والوں کو سنا اور دیکھا ہماری خوش بختی کہ وہاں کوئی پاکستانی اینکر نظر نہ آیا۔

نہ کوئی فتنہ نہ فساد،نہ دو غلاپن اور منافقانہ چال،ہر طرف امن شانتی اور سکون نہ امن کی آشا ء ،نہ سیفما کا سایہ نہ میاں صاحب کا توپخانہ اور خواجگان کا جنگی ترانہ۔
دس روز دس گھنٹوں کی طرح گزر گئے اور پانچ ملکوں میں دو دو دن کی مہمانی کا لطف اٹھا کر صبح سویرے اسلام آباد اترے تو وہی امیگریشن آفیسر سامنے کھڑے تھے کچھ دیر وہ ہمیں اور ہم انھیں دیکھتے رہے ہم حیران تھے کہ شاید یہ دس روز سے وہ ہمارے انتظار میں ہی کھڑے رہے اور وہ پریشان تھے کہ ہم سب کے سب واپس آگئے کسی چچی،پھوپھی،ماسی اور مسیری نے ہمیں پناہ نہ دی آفیسر صاحب نے عالم حیرت میں پہلے پاسپورٹ اور پھر بھاروں گنے پاسپورٹوں پر مہریں لگائیں اور پھر حیرت سے پوچھا آپ لوگوں کا سفر کیسا رہا؟
آجکل دنیا سمٹ کر قریب آگئی ہے آٹھ گھنٹے میں یورپ اور پندرہ گھنٹوں میں کینڈا،آسٹریلیا اور امریکہ کے آخری کونے تک پہنچا جاسکتا ہے جس شہر میں جاؤ وہاں پاکستانی بھائی مل ہی جاتا ہے تقسیم ہند سے پہلے حاجی،فوجی،ڈاکو،سمگلر،مہاجر،غلام،سیاستدان،قیدی،اور سیاح بیرون ملک جاتے تھے۔

اب قیدی اور غلام صرف امریکہ جاتے ہیں یا پھر امریکہ کی ڈیمانڈ پر بھجوائے جاتے ہیں۔ہماری ساری قوم امریکہ کی غلام ہے عافیہ صدیقی امریکہ نے مانگی ہم نے دے دی عافیہ نے کسی امریکی کو نہیں مار تھا یہ صرف امریکہ کی خواہش تھی کہ وہ ایک مسلمان عورت کو نشان عبرت بنا کر عالم اسلام کو پیغام دے کہ تمہاری حیثیت غلامانہ ہے اور ہم جب چاہیں تمہیں ذلیل و رسوا کرسکتے ہیں۔

مہاجروں کی جگہ سیاسی پناہ گزینوں نے لے رکھی ہے اور ایم کیو ایم ابھی تک مہاجر ہے۔ ا لطاف بھائی برطانیہ میں پناہ گزین اور کراچی میں کسی کو پناہ میسر نہیں کون کس کو مار رہا ہے یہ سب کو پتہ ہے مگر پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے فوجی اب اقوام متحدہ کی ڈیمانڈ پر جاتے ہیں اور امن فوج کا حصہ بنتے ہیں۔ڈاکو،سمگلر اور سیاستدان حج پر جاتے ہیں اور حاجی صاحب کہلاتے ہیں یہی لوگ سیرو سیاحت پر بھی جاتے ہیں اور دنیا کے مہنگے ہوٹلوں،جوا خانوں اور شاپنگ سنٹروں میں دولت لٹاتے ہیں عام آدمی کے نصیب میں نہ حج ہے ،نہ سیاحت اور سیاست ۔

عام پاکستانی بیرون ملک تاریکن وطن کہلاتے ہیں اور نفرت سے دیکھے جاتے ہیں میرے گاؤں کے بھی کئی لوگ ترک وطن کرکے یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں اور خوشحال ہیں پہلی اور دوسری افغان جنگ کے دوران مہاراجہ کشمیر نے تاج برطانیہ سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بریگیڈ فوج رائل برٹش آرمی کی مدد کیلئے بھجوائی۔پہلی افغان جنگ میں میرے جدامجد راجہ تانوں خان ذیلدار سفید پوش بھی شامل ہوئے اور واپسی پر ایک افغان اور ایک ایرانی بلوچ بیگم بھی ساتھ لائے۔

ذیلداری اور کمانداری انھیں ورثے میں ملی تھی البتہ سفید پوش کا منصب مہاراجہ کشمیر نے جنگ میں شمولیت کی وجہ سے دیا جو ان کے پوتے ذیلدار سفید پوش راجہ ولائت خان کی زندگی تک برقرار رہا۔راجہ تانوں خان برٹش آرمی کے باقائدہ فوجی نہ تھے اس لئے انھیں کوئی تمغہ وغیرہ نہ ملا البتہ وہ اپنے ذاتی خرچ پر دو عدد بیگمات لے آئے دو تمغوں کے برابر کارنامہ تھا راجہ صاحب کی پہلی دو بیگمات کا تعلق مینڈھر اور پلندری سے تھا افغانی اور ایرانی بیگم کے اضافے کے بعد چار بیویاں مکمل ہوگئیں تو آپ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کسی مہم پرنہ جانے کا ارادہ کر لیا اور باقی زندگی عبادت اور ریاضت میں گزار کر ایک سو دس سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کیا دوسری افغان جنگ میں راجہ تانوں خان کے دو بیٹے راجہ غلام محمد خان اور راجہ حفیظ خان شامل ہوئے۔

راجہ غلام محمد قندہار کے قرب و جوار میں کسی دریا کے کنارے اپنے والد کے سسرالی افغانوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے اور کھڑکی کے مقام پردفن ہوئے آپ کی وفات پر انگریز نے پیتل کی پلیٹ جو برطانیہ سے کندہ ہوکر آئی ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا،
”Ghulam Muhammad died for freedom and honour.He was among those who at the call of king and country come froward and left those who were deer to them. Faced odds and finally sacrifised their lives so that others may live in peace“
سکرول کے علاوہ شاہ برطانیہ نے راجہ غلام محمد خان کے بیٹوں کے نام بہادری کی دواسناد بھجوائیں جو آج بھی محفوظ ہیں۔

بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ غلام محمد صاحب کے بیٹوں کو فٹگمری میں دس مربع اراضی بھی الاٹ ہوئی تھی جو بعد میں مقدمات اور شادیوں کے کام آئی۔راجہ تانوں خان کا دوسرا بیٹا راجہ حفیظ خان بھی افغان جنگ میں مارا گیا جبکہ تیسرا بیٹا راجہ بہادر علی خان راجپوتانہ رائفل سے ریٹائرڈ ہوکر طبعی موت مرا۔پہلی عالمی جنگ میں میری والدہ کے نانا صوبیدار راجہ صلاح محمد خان نے شرکت کی اور افریقہ تک جاپہنچے۔

1921 میں دوسری عالمی جنگ میں وہ انڈین پولیس میں بھجوا دیئے گئے اور بحثیت ڈی ایس پی ریٹائیرڈ ہوئے ۔ راجہ تانو خان کے پوتوں حوالدار راجہ عبداللہ خان اور نائیک کلرک راجہ اشرف خان نے شمولیت اختیار کی عبداللہ صاحب لیبیا کے صحرا میں جرمن قیدی بنکر مجھ سے پہلے جرمی گئے اور کئی سال قید کاٹ کر واپس آئے مولانا راجہ اشرف صاحب جاپانیوں کے قیدی بنے اور سنگاپور میں قید کاٹی۔

میرے گاؤں سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کا خوبصورت گاؤں براٹلہ واقع ہے دوسری جنگ عظیم کے دوران براٹلہ سے تعلق رکھنے والا فوجی جوان راجہ زمان علی خان بھی سمندر پار جرمنی اور اٹلی سے دو ہاتھ کرنے گیا۔راجہ زمان خوبصورت جوان اور عاشق مزاج شاعر بھی تھا راجہ صاحب کی محبوبہ(چناں)سراہ کی رہائیشی اور کالی رنگت کی لوہاری تھی۔

حوالدار راجہ زمان علی خان نے اپنی محبوبہ سے جدائی،بے رخی اور بے مروتی پر ہزار ہاشعر لکھے مگر بد قسمتی سے وہ رانجھے،پنوں،مرزے اور مائیوال کی طرح مشہور نہ ہوئے اور نہ ہی ان کا دیوان عشق اشاعت پذیر ہوا۔حوالدار راجہ زمان شاعر عشق تھے اور عاشقوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
راجہ زمان کی شاعری سہ حرفی اور چار حرفی کی شکل میں ہے راجہ صاحب نے اپنے سفر یورپ اور اپنی محبوبہ چناں سے جدائی کو مختصراً کچھ ان الفاظ میں تحریرکیا
ملک پنجاب وچ باہوں پھریاں دلی کانگڑہ جھنگ ملتان تکیا
میر پور ٹپ دریاتوں پار ہویاں کالا مندرہ تے گوجرخان تکیا
کیتے سیر سمندری جہاز اتے اٹلی روم تے عجب انگلستان تکیا
کی پچھنے او سچ زمان کولوں وزن چناں دے ملک ویران تکیا
راجہ زمان اور دیگر عاشقوں میں فرق یہ ہے کہ راجہ صاحب خود شاعر تھے جبکہ رانجھا،مرزا،پنوں اور مائیوال وغیرہ نہ شاعر تھے اور نہ ہی فوجی حوالدار۔

لوک داستانوں کے ہیرو کی کہانیاں صدیوں بعد دیگر شاعروں اور داستان گو ادیبوں نے بیان کیں اور بہت کچھ اپنی طرف سے بھی ملا دیا راجہ زمان کی داستان عشق دراصل سوانح حیات عشق ہے جو کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی۔رانجھا اور مرزا جٹ تھے،پنوں بلوچ،مائیوال سنٹرل ایشیاء کا شہزادہ اور فرہا د لوہار تھا۔صاحبان اور ہیر جٹیاں تھیں اور رشتے بھی موزوں تھے مگر اس دور میں چوہدری شجاعت نہ تھے۔

اگر چوہدری صاحب ہوتے تو برادری ازم کا ڈھول ڈالکر رانجھے اور مرزے کی شادیاں کروا دیتے اور کم ازم کم چار حلقوں سے ان کے امیدار بھی جیت جاتے سوہنی کمہاری تھی اور گجرات کی تھی چوہدری صاحبان سوہنی کو ضرور کیش کرواتے اور سنٹرل ایشین شہزادے سے شادی کروا کر وہاں دو چار فیکٹریوں کا لائسنس حاصل کرتے اور شہزادہ مونس الٰہی پاکستان میں ازبکستان اور ترکمانسان کا خیر سگالی سفیر ہوتا۔

شیریں اور سسی شہزادیاں تھیں اور جو کچھ صدیوں پہلے ہوا آج بھی وہی ہوتا۔ پنوں اور فرہاد کا شمار گم شدہ افراد میں ہوتا اور دونوں لڑکیاں کاری کر دی جاتیں۔فرہاد اور پنوں گم نہ ہوتے تو وہ بھی کاری ہوجاتے اور ایک جرگے میں ظفر اللہ جمالی مرحومین کے ورثاء کو پانچ پانچ لاکھ روپے معاوضہ دلا کر کیس داخل دفتر کروادیتے۔حوالدار زمان پہلا راجپوت اور مسلح عاشق ہے جس نے عشق کا روگ پالا مگر ہتھیار نہ ڈالے۔

وہ چاہتا تو چناں کو اٹھا لاتا مگر فوجی حوالدار نے ملٹری ڈسپلن کا پوراخیال رکھا جسطرح راجہ زمان کو چناں کے بغیر سارا یورپ ویران نظر آیا اسی طرح انگلینڈ میں مقیم ڈاکٹر اشرف چوہان کو میاں نواز شریف کے بغیر دنیا ویران نظر آرہی ہے۔ڈاکٹر اشرف چوہاں کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور وہ لندن میں نیوروسرجن اور انگلینڈ میں امیر کبیر آسامی ہیں۔

انھوں نے ایک پروگرام میں فرمایا کہ میں میاں نواز شریف کا چمچہ ہوں۔حیرت کی بات کہ میاں صاحب اپنے اس عالمی چمچے سے تا حال بے خبر کیوں ہیں؟آجکل یورپ میں ڈاکٹر چوہان کی چمچہ گیری اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی خاموش سفارتکاری کے چرچے ہیں۔یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو محترم ڈاکٹر اشرف چوہاں کے دورے کی بھی فکر ہے ڈاکٹر صاحب کے حامی اور ہمدرد مختلف طریقوں سے اظہار خیال کر رہے ہیں یا پھر ڈاکٹر صاحب خود ان سے کام لے رہے ہیں سارے یورپ میں خبریں ہیں کہ ڈاکٹر اشرف چوہاں انسان دوست اور ہمدرد انسان ہیں آپ نے نون لیگ کیلئے بہت کام کیا ہے اور میاں برادران کے یورپ میں سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ان کی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت بلکہ چاہت اور الفت کے قصے بھی بیان ہورہے ہیں اور جگہ جگہ لاہوری بھائی ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا ذکر کرتے تھک نہیں رہے۔


ایک جیالی محفل میں کچھ نوجوان جیالوں نے اشارتاً بتایا کہ جناب کائرہ بھی ڈاکٹرچوہان کیلئے خاموش لابنگ کر رہے ہیں اور یہ لابنگ خالصتاً برادری کی خدمات کیلئے ہے ہمار ماتھا ٹنکا تو جیالے بھائی نے بتایا کہ چوہان گجرو کی ایک اہم گوت ہے اور کائرہ صاحب گوجر برادری کے چیف ہیں کائرہ صاحب بھی چاہتے ہیں کہ سپوت گوجرانوالہ جناب ڈاکٹر اشرف چوہان انگلینڈ میں پاکستان کے ہائی کمشنر تعینات ہوں انگلینڈ میں اب یہ روایت چل گئی ہے کہ یہاں کے مقامی باشندے کو ہی ہائی کمشنر بنایا جائے۔

جناب واجد شمس الحسن انگلینڈ میں رہتے ہوئے دو بار ہائی کمشنر بنے اور ایک بار بھی پاکستان نہ گئے واجد شمس الحسن نے جس دلیری سے زرداری صاحب کی خدمت کی کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔واجد شمس الحسن ڈاکٹر چوہان اور ڈاکٹر عبدالرحمان ملک ایک جیسی خوبیوں کے مالک ہیں یورپ میں مقیم سارے چوہان اور اعوان ڈاکٹر اشرف چوہان کی تعیناتی پر متفق ہیں تو میاں صاحب کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے۔


ہمارے ایک دوست نے اشارتاً بتایا کہ درجن بھر سینئر صحافی بھی لندن والے سفارتخانے پر قبضہ کرنے کی امید لئے بیٹھے ہیں۔حال ہی میں واہ فیکٹری والے کپتان صحافی سیکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے کی وجہ سے اس واک سے آؤٹ ہوئے ہیں۔ واک سے کیوں؟ دوڑ سے کیوں نہیں ہوئے؟ایک جونئیر صحافی نے جواب دیا کہ وہ اب دوڑ نہیں سکتے ایک جیالے میزبان نے کہا تب ہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ بھائی جلدی سے ڈاکٹر چوہان کو ہائی کمشنر لگاؤ،نجم سیٹھی،امتیاز عالم،عطاء الحق قاسمی،عرفان صدیقی،مشتاق منہاس،افضل بٹ میں اگر دوڑ کا مقابلہ کرایا جائے تب بھی ڈاکٹر چوہان دس نمبر لیکر کوالیفائی کر جائینگے اور باقی سب مختلف امراض کی وجہ سے بہوش ہوکر لندن کے سفارتخانے کے بجائے کسی ہسپتال میں داخل ہونگے۔

ہوسکتا ہے کہ ایک دو پھڑک بھی جائیں۔ اگر سپاہی سے لیکر کور کمانڈر تک صبح پی ٹی کرتا ہے اور ایک میل کی دوڑ بھی لگاتا ہے تو وزیروں،سیکرٹرویوں اور سفیروں کو بھی فٹنس سرٹیفکیٹ لینا چاہیئے۔خاص کر وزیر دفاع کو صبح کسی فوجی یونٹ کیساتھ ایک میل کی دوڑ میں ضرور شامل ہونا چاہیئے۔
بہرحال ہم ذاتی طور پر بزرگ صحافیوں،متوقع سفیروں اور وزیروں کی دوڑ کے حق میں نہیں۔

اگر دوڑ کی شرط رکھی گئی تو پھر جناب جمشید دستی کی بلڈ ٹسٹنگ والی شرط کو بھی تقویت ملے گی جو کہ جمہوریت کے لئے بھی خطرہ ثابت ہوگی۔ڈاکٹر اشرف چوہان کی خدمات کا تو ہمیں پتہ نہیں البتہ جناب اثر چوہان کی گورنر پنجاب سے دوستی اور محبت جو کہ ان کے کالموں سے اکثر چھلکتی ہے سب پر عیاں ہے جناب اثر چوہان محب الوطن صحافی ہیں اور ان کے خاندان نے تحریک پاکستان میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ قربانیاں بھی دیں اثر چوہان وطن پرست مسلم لیگی ہیں وہ اچھے شاعر اور ادیب ہی نہیں بلکہ بہت ہی اچھے انسان بھی ہیں انکی تحریروں میں انسانیت اور پاکستانیت کا رنگ ہوتا ہے۔

اگر میاں صاحب نے کسی چوہان کو ہی ہائی کمشنر تعینات کرنا ہے تو ہمارا ووٹ جناب اثر چوہان کے حق میں ہے اگر کوالیفکیشن صرف صحافی ہے تو جناب اسد اللہ غالب موزوں ہیں۔اگر ٹوٹل کا صحافی درکار ہے تو ہم بذات خود بھی کوالیفائیڈ ہیں بلڈ ٹیسٹ،ایک میل کی دوڑ اور سکیورٹی کلیئرنس کا بھی مسئلہ نہیں۔قراة العین حیدر کا”کار جہاں دراز ہے“میں لکھتی ہیں کہ بی بی سی ریڈیو پر کام کرنیوالوں میں ایک نام جناب نور محمد چوہان کا بھی تھا جو ملکہ برطانیہ کو انگریزی پڑھانے آئے تھے۔

یہ ممکن نہ ہوا تو ریڈیو پر ملازم ہوگئے تھے انگلینڈ پہنچ کر وہ عیسائی ہوئے مگر بندے معقول تھے اور محمد چوہان کے متعلق لکھا کہ ان کے کسی دوست نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا:۔
کہالندن چلا جاوں کہا لندن چلے جاؤ
کہا چوہان کاڈر ہے کہا چوہان تو ہوگا
کہا برما چلا جاؤں کہا برما چلے جاؤ
کہا جاپان کا ڈر ہے کہا جاپان تو ہوگا
خدا جانے جناب نور محمد چوہان اور ڈاکٹر اشرف چوہان کا کیا رشتہ ہے چوہانوں کی بات چلی تو ایک پرتھوی راج چوہان بھی ہوگزرے ہیں جنکے ڈر سے سارا ہندوستان کانپتا تھا۔

میاں صاحب بھی سوچ لیں کہ جناب اشرف چوہان کے علاوہ اگر کوئی لندن چلا گیا تو وہاں چوہان بھی ہوگا۔اگر موزوں قسم کا چوہان نہیں ملتا تو کسی غزنوی یا غوری کی طرف دیکھیں،سیٹھی،شیخ،خواجے،منہاس،برلاس،بٹ،ہاشمی،قریشی اور قاسمی بھی ٹھیک ہیں مگر چوہان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے لندن میں ایک عامر غوری بھی ہیں انکا شجرہ بھی منگواہیں شاید چل جائیں خالص درانی او غزنوی تو اب افغانستان میں بھی نہیں رہے پاکستان میں کہاں ملینگے۔

نسلاً محمودغزنوی بھی ترک تھا اس لئے ترکی میں سفیر برائے انگلستان کا اشتہار دیں یا پھر چوہان پر ہی اکتفا کرلیں۔
میاں صاحب تاریخ سے بھی کچھ سبق حاصل کریں ہمارے اکثر لیڈر آخری عمر انگلینڈ میں ہی گزارتے ہیں اور وہاں پر ہی خالق حقیقی سے جاملتے ہیں چوہدری رحمت الٰہی اور سکندر مرزا سمیت کئی لیگی رہنما شاعر اور ادیب ولائت کے قبرستانوں میں اسودہ خاک ہیں حال ہی میں جناب محمود ہاشمی نے انگلینڈ کی سرزمین پر قبر کا اضافہ کیا ہے۔

بہت سے سیاستدان بیورکریٹ اور صنعت کار انگلینڈ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا چکے ہیں بقول عمران خان جناب زرداری اور جناب رحمٰن ملک سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کی دولت کے انبار اسی ملک میں ہیں میاں صاحب کومعلوم ہونا چاہیئے کہ امیر آدمی کا بڑھاپہ خواری میں گزرتا ہے ایسے موقع پر ایک صاف ستھرا اور پرفضا اولڈ ہاؤس نعمت خداوندی سے کم نہیں ہوتا۔جناب اشرف چوہان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انگلینڈ کے پر فضا اور بارونق ساحل سمندر پر انکا ایک اولڈ ہاؤس بھی ہے اس لئے جناب اشرف چوہان نہ صرف اقتدار میں بلکہ بڑھاپے اور برے وقت میں بھی کام آسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :