ذمہ دار اہل اقتدار ہیں

اتوار 22 جون 2014

Imran Wasim

عمران وسیم

کسی علاقہ یا گاؤں میں پانی کا ایک ڈیم ہوا کرتا تھا جہاں سے اس علاقے /گاؤں کے انسان، جانور اور چرند پرند اپنی پیاس کی آگ کو سیراب کیا کرتے تھے ،ڈیم کو بنے اور مقامی لوگوں کو ڈیم سے استفسادہ کرتے عرصہ بیت گیا لیکن اہل علاقہ میں سے کسی شخص نے یہ ضروری نہ سمجھا کہ جس جگہ سے وہ اپنی پانی کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اسکی دیکھ بھال یا مرمت کی طرف توجہ دی جائے ،ایک دن ڈیم کے کنارے کھیلتے بارہ تیرہ سالہ بچے نے ڈیم کے پانی رستا دیکھا تو بچے پانی رسنے والی جگہ پر اپنا ہا تھ رکھ دیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ گاو ں والوں کو ڈیم سے پانی لیک ہونے کی اطلاع دے آئے ،لڑکا گاؤں میں گیا اور ڈیم میں چھید کے سبب پانی کے رسنے کی خبر دی ،بچے کی اطلاع پر کان دھرنے اور یقین کرنے کی بجائے گاوں کے لوگوں نے بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا،وہ بچہ ڈیم پر گاؤں کے لوگوں کے آنے کا انتظار کرتا تھک گیا اور اس کا دوست واپس نہ آیا تو وہ بھی ڈیم سے پانی کو نکلتے چھوڑ آیا، وقت دن گزرتے گئے اور ڈیم میں پیدا ہونا والامعمولی چھید پانی کی نکاسی کی وجہ سے بڑا ہو تا گیا اور ایک دن یہ ہوا کہ ڈیم ٹوٹ گیا اور وہ گاوں جو کبھی ڈیم سے مستفید ہوتا تھا وہ ڈیم سے خارج ہوئے پانی کے بہاؤ میں بہہ گیا ،اگر گاوں کے لوگ بچہ کی بات پر یقین کرکے خرابی کو بتدائی سطح پر دور کر لیتے تو شائد گاوں نہ ڈوبتا۔

(جاری ہے)


اوپر ذکر کیے واقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کسی بھی قسم کی برائی یا خرابی پر پیدا ہونے کے مرحلے پر قابوپا لیا جائے تو مسائل بڑھنے کی بجائے کم ہو تے چلے جاتے ہیں لیکن اگر برائی یا خرابی کو ابتدائی سطح پر نظر انداز کر دیا جائے تو وہ بے قابو ہو کر معاشرے / جسم میں اس حد تک سرایت کر جاتے ہیں کہ اس کے خلاف قوت مدافعت ختم ہو کر رہ جاتی ہے ،اگر ہم اس مثال کو لیکر پاکستان کی بات کریں تو پاکستان دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا اس وقت کے سیاسی رہنماؤں نے ملک خداد پاکستان کو آئین دینے کے لیے 23 مارچ 1949 قرار داد مقاصد پاس کی ،جسے بعد میں پاکستان کے متفقہ آئین 1973 کا آرٹیکل 2 کے ذریعے حصہ بنا دیا گیا، قرار داد مقاصد میں لکھا گیا کہ اللہ کی ذات پوری کائنات کی بلا شرکت غیرے مالک ہے پاکستان کے جمہور ( عوام ) کو اللہ کی مقرر کر دہ حدود میں اقتدار و اختیار کے استعمال کرنے کا حق ایک مقدس امانت ہے ،پاکستان کے جمہور عوام کی منشاء ہے کہ ریاست پاکستان میں ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی،پاکستان میں جمہوریت ،آزادی ،مساوات ،رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر ( جس طرح اسلام نے انکی تشریح کی ہے ) پوری طرح عمل کیا جائے گا ، زندگیاں اسلام کے مطابق اور اقلیتوں کا تحفظ کیساتھ اس بات کی بھی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائیگا اورقانون کی نظر میں برابری ،معاشرتی ،معاشی ،سیاسی انصاف کی ضمانت بھی دی گئی ہے ،آئین پاکستان کا آرٹیکل اس بات کی ضمانت دیتا ہے ریاست پاکستان ملک میں ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کریگی ہر شخص کو اسکی اہلیت اور کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا یعنی کسی بھی فرد کو اس کی اہلیت اور کام کی نسبت کم معاوضہ نہیں دیا جائے گا ،ریاست اس قسم کی معاشی نا انصافی کا قلع قمع کریگی ،آئین میں بنیادی حقوق کاباب (جس کا آغاز آرٹیکل 8سے ہو کر اختتام آرٹیکل 28 پر ہو تا )شامل کرکے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ،ان بات باتوں کو یہاں ریکارڈ پر لانے کے بعد اگر یہ جائزہ لیا جائے کہ کیا جمہور کو استحصالی نظام کے نا سور سے نجات دلا دی گئی ہے کیا ؟ کیا وفاق اور اسکی اکائیوں کی جانب سے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو رہا ہے ؟کیا ریاست کی جانب سے ہر فرد کو معاشی ،معاشرتی ،سیاسی انصاف مل رہا ہے ؟کیا مملکت خداد کے تمام ا دارے قانون کی نظر میں برابر اور مساوات کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں ؟سب سے بڑھ کرکیا جمہور کے ووٹوں سے منتخب حکومتوں نے ملک میں حقیقی نظام حکومت کا نفاز کر دیا ہے ؟یقینا ان تمام باتوں کا جواب ناں کی سواکچھ اور نہیں ہو سکتا ،کیونکہ اگر ہم اپنے معاشرے میں موجود برائیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمارے معاشرے میں موجود تمام برائیوں یاخرابیوں کی وجہ ان تمام رہنماوں اصولوں اور آئینی دفعات سے رو گردانی ہے جس کے خاتمہ کا عہد ،عزم ،یقین دہانی یاتحفظ قرار مقاصد یا آئین میں کیا گیا ہے ،ملک کے جمہوری حکمرانوں سے اس بارے میں سوال کیا جائے تو روز اول کی طرح آج بھی وہی گھسا پٹا عذر پیش کرتے ہیں کہ ریاست کی کشتی مسائل ومشکلات کی جس بھنور میں پھنسی ہے اس وجہ صرف صرف آمریت ہے ،جس نے جمہوریت کو پروان تو کیا پنپنے تک نہیں دیا ،کسی حد تک یہ عذر درست بھی لگتا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ عذر محض عذر کی حد تک محدود دکھائی دیتا ہے کیونکہ قیام پاکستان سے لیکر ابتک سیاسی قوتوں نے تقریبا 34 سال تک عوام پر حکومت کی ہے، یہ مدت آمریت کی حکمرانی میں گزری مدت سے بڑھ چکی ہے ،اس امر کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پاکستان میں سال 2008 سے صحیح معنوں میں جمہوری سیاسی قوتوں کی حکومت چلی آرہی ہے ،تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو گزشتہ چھ سالوں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی حکومتوں کی جانب سے معاشرے میں موجود تمام برائیوں یاخرابیوں کے خاتمہ کے لیے آئینی دفعات پر عمل در آمد ہو تا نظر آیا ،چھ سالوں سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی یہ سیاسی جمہوری قوتوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اقتدار کا کھیل کھیل رہی ہیں ،ان سالوں میں وفاق اوراکائیوں میں قائم حکومتیں معاشرے سے صرف مکمل طور پر استحصالی نظام کا خاتمہ کر دیتی تو عوام کی زندگیوں میں بہت سی آسانیاں پیدا ہو سکتی تھی ،لیکن ایسا ممکن اس لیے نہیں ہوسکا کیونکہ عوام کا استحصال کرنے والی قوتیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی ہم جولی،ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں ،سال 2008سے وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم حکومتیں تسلسل کیساتھ ہر سال بجٹ میں اجرت کی کم سے کم حد مقرر کر تی ہے ،مالیاتی سال 2014-15 میں کم سے کم اجرت بارہ ہزار مقرر کردی گئی ہے ، سوچنا یہ ہے کیا اس پر عمل ہو گا ؟کیا گزشتہ چھ سالوں سے حکومتوں کی جانب سے کم از کم اجرت کے اعلان پر کس حد تک عمل در آمد کیا گیا ؟یہاں اٹھائے گئے سوالوں کا جواب کسی صورت میں ہاں میں نہیں ہو سکتا ،کیونکہ حکومتوں کی جانب سے کم از کم اجرت کے اعلان محض اعلان کی حد تک ہی محدود ہو کر راہ جاتے ہیں اس کی وجہ صرف حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے اس وقت تک عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جب تک عوام اپنے ووٹ کسی کے پلڑے میں نہیں ڈال دیتے ،منتخب ہونے کے بعد یہ عوامی نمائندے جمہور کی فلاح کی بجائے عوام کا خون چوسنے اور استحصالی نظام کے محافظ کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ، تعلیم صحت اور روزگار کا حصول آج عوام کے بنیادی مسائل ہیں ،بد قسمتی سے تعلیم ، استحصالی قوتوں نے اس شعبہ ہائے جات کو بھی نہیں بخشا،نجی سکول اپنی بھاری فیسوں کے ذریعے جہاں عوام کی جیبوں میں نقب لگا رہے ہیں تو وہیں ان پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ جنکی تعلیم قابلیت ایم اے ،ایم ایس سی تک ہے کواجرت کی مد میں محض دو سے تین ہزار روپے دیکر کھلا استحصال کیا جا رہا ہے ، ایک طرف قوم کے معماروں کا معاشی استحصال تو دوسری طرف نجی سکول مالکان ماہانہ لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں ،پرائیویٹ ہسپتالوں میں عوام کی کھال اتار کرکے انھیں صحت عامہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ،جبکہ ان ہسپتالو ں میں کام کرنے ڈاکٹروں ،نرسوں اور سٹاف کو تنخواہوں کی مد چند ہزار روپے پکڑا دیے جاتے ہیں سچ تو یہ ہے پاکستان کو جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے اس کی ذمہ دار صرف اور صرف سیاسی قوتیں ہے ،ان سیاسی قوتوں نے کبھی عوام کو اقتدار و اختیار کا حقیقی مالک سمجھا ہی نہیں ،سیاسی قوتوں نے اقتدار کے حصول کے لیے غیر جمہوری قوتوں اور آمرانہ طاقتوں پر تکیہ کیا ،عوام کی خدمت کبھی ان سیاسی قوتوں کا مقصد نہیں رہا ،جمہوری سیاسی قوتوں کا قیام پاکستان کے روز اول سے آج تک ایک ہی مقصد رہا ہے ور مقصد ہے حصول اقتدار اور طول اقتدار ،،،اقتدار کی اس ہوس میں جمہوری سیاسی قوتوں نے غیر جمہوری قوتوں اور آمرانہ قوتوں کو اپنا ساتھی بنایا ،جس کا سیاسی جمہوری قوتوں کی اپنی اور عوام کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں نکلا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :