ٹریفک حادثات ،وجوہات اور سدباب

اتوار 22 جون 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ایک بم دھماکے سے ہونے والے ہلاکتوں پر میڈیا ،عوام ،سیاست دان سب ہی کچھ نہ کچھ کہتے ہیں جب کہ پاکستان بھر میں ٹریفک حادثات میں روزانہ ہونے والی ہلاکتوں اور زخمیوں پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی حالانکہ حادثات میں ہونے والی ہلاکتیں بم دھماکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں کچھ دن ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان بھر میں تیز رفتاری‘ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور سڑکوں کی خستہ حالی کے باعث سالانہ 13 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ 60 ہزار سے زیادہ زخمی ہوجاتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زخمیوں میں زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو جسمانی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ اور پھر تمام عمر معذوری کی زندگی گذارتے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرسال اوسطاً تیس ہزار کے لگ بھگ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں، جبکہ بعض رپورٹوں کے مطابق تقریباً سترہ ہزار سے زاید افراد ہر سال حادثات کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں اور 40 ہزار سے زاید لوگ زخمی ہو تے ہیں۔

صرف صوبہ پنجاب میں گزشتہ برس 1 لاکھ67 ہزار حادثات میں 11 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 9 ہزار کے قریب لوگ معذور ہوئے۔ حادثات میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ نوجوان نسل ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 41 ہزار 297 خواتین بھی ٹریفک حادثات کا شکار ہوئیں، جن میں سے بہت سی خواتین جاں بحق ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئیں۔

ملک کا کوئی حصة ایسا نہیں جہاں حادثات نہ ہوتے ہوں بلکہ تمام حادثات کی وجوہات بھی یکساں ہوتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثات میں بے پناہ اضافے کی عمومی وجوہات قانون کی خلاف ورزی، مخدوش سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی خراب حالت، ڈرائیوروں کی غفلت، تیز رفتاری سے گاڑیاں چلانا اور گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنا، منصوبہ بندی سے ہٹ کر بنائے گئے خطرناک موڑ اور دو رویہ سڑک کے درمیان اور اطراف میں حفاظتی جنگلے کا نہ ہونے کے ساتھ ایک اہم وجہ دوارن ڈرائیوننگ موبائل فون کا استعمال حادثات کا باعث بنتا ہے، سی این جی کِٹس کا پھٹ جانا بھی حادثات کا ایک محرک ہے۔


1985ء میں ٹرانسپورٹ اینڈ روڈ ریسرچ لیبارٹری، کروک تھارن برک شائر، برطانیہ کے اشتراک سے پاکستان میں ٹریفک حادثات پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی تھی، A.J. Downing نے ”روڈ ایکسیڈنٹس ان پاکستان اینڈ دی نیڈ فار امپرومنٹس ان ڈرائیور ٹریننگ اینڈ ٹریفک انفورسمنٹ“ کے تحت اپنی مفصل رپورٹ میں نہ صرف حادثات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی، بلکہ وہ نکات بھی پیش کیے تھے جن پر اگر دس فیصد بھی عمل کیا جاتا تو ٹریفک کے ان بڑھتے ہوئے حادثات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔

1985ء سے اب تک ٹریفک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس تناظر میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ ایک ریسرچ ٹیم بھی اس سلسلے میں قائم کی جائے جو موجودہ دور کے ٹریفک مسائل پر مبنی رپورٹ اور گزارشات مرتب کر سکے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے۔

اگر کوئی فرد کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا ہو تو اسے پہلے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی منزل تک کب پہنچے گا۔ اس کے برعکس پاکستان میں معاملہ الٹ ہے۔ آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون شہر کسی لوکل روٹ پربھی سفر کر رہے ہوں تو ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ مسافروں کا مقررہ وقت تک منزل پر پہنچنا تو دور کی بات بلکہ گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ملکی اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہیں جبکہ ہماری قوم میں قوانین پر عملدرآمد کی پاسداری نہیں کی جاتی۔
چند ایک تجاویز جن پر عمل کر کے ٹریفک حاداثات پر قابو پایا جاسکتا ہے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کی مناسب تربیت ہو سکے۔

ان تربیتی اداروں میں نہ صرف ا ن میں ٹریفک قوانین سے متعلق شعور بیدار کیا جائے بلکہ ا نہیں مہذب اور بااخلاق بھی بنایا جائے۔ ادارہ سے تربیت کے بعد انہیں باقاعدہ سرٹیفکیٹ کا اجراء کیا جائے۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کو ہی کنڈیکٹر اور ڈرائیور رکھا جائے، بصورت دیگر مالکان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

۔پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زائد مسافروں کو سوار کرنے پر پابندی عائد کی جائے، مسافروں کو اتارنے یا سوار کرنے کے قواعد پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے، مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کے اسٹاپس پر خفیہ کیمرے نصب کیے جائیں جن سے نہ صرف مشکوک افراد پر نظر رہے گی بلکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ٹرانسپورٹ کے خلاف کارروائی میں بھی مددگار ثابت ہوں گے، غیر ضروری پریشر ہارن یا ممنوعہ ایریا میں ہارن بجانے پر جرمانے کیے جائیں۔

ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کا طریقہ کار آسان بنایا جائے اور مختلف مقامات پر لائسنس کے حصول کے لیے مراکز بنائے جائیں، عوام اور ٹریفک پولیس کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے اس لیے عوامی شکایات دور کرنے کے لیے نہ صرف ٹول فری نمبر مشتہر کیا جائے بلکہ ٹریفک پولیس ہیلپ لائن کا اجراء بھی کیا جائے جس کے ذریعے عوامی شکایات سنی اور حل کی جائیں۔

فنی طور پراَن فٹ، ناقص، خستہ حال اور سست رفتار گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکا جائے۔ کمسن بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جو بھی بچہ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے پکڑا جائے ا س کے والدین سے رابطہ کرکے انہیں سخت تنبیہہ کی جائے۔اس کے ساتھ ہی ٹریفک پولیس کی تربیت بھی بہت ضروری ہے اس وقت دیکھا گیا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار دو، دو چار چار کی ٹولیوں میں کھڑئے گپیں لگا رہے یا چالان کر رہے ہوتے ہیں ،حالانکہ ان کی بنیادی ذمہ داری ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنا اور قانون کی خلاف ورزی کو روکنا ہے ،حکومت کو چاہے کہ وہ مندرجہ بالا تجاویز پر غور کرے اور اگر مناسب اعمل ہیں تو ان پر عمل کرتے ہوئے ٹریفک حادثات پر قابو پانے کی سعی کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :