شریف بدمعاش۔۔۔۔!

اتوار 22 جون 2014

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

کافی عرصے سے ہم نے سیاسی مضوعات پر کالم لکھنے سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی ۔کیونکہ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ موجودہ دورِ آمریت میں آوازِ حق بلند کرنے والوں کو کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا۔ویسے ہی ہماری تحریروں سے باطل پرستوں کو ایسے چرونیئے کاٹتے ہیں جیسے موبائل کمپنیاں بلنس کاٹتی ہیں۔لیکن جب میرے ملک کے محبِ وطنوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا میری ماؤں میری بہنوں کے ساتھ جس طرح درنگی کا مظاہرہ کیا گیا جس طرح انقلاب اور انقلابیوں کا راستہ روکا گیا ظلم وستم کی ایسی بھیانک تاریخ رقم کی گئی کہ یزیدیت بھی شرمانے لگی تو پھر ہماری خاموشی نے ہمیں جھنجوڑا اور ہم نے چپ کا روزہ توڑا ۔کیونکہ اب ہم چپ رہے کر خو د کو یزیدی لشکر میں شامل کرنا نہیں چاہتے ہم حسینیت کے پیروکار ہیں ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

(جاری ہے)

لہذا ہم اس ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کرینگے ہم حق کے لیے اٹھیں گے ہم لکھیں گے ۔ چاہے ہماری تحریر یں کسی پر نشتر کا کام کرتیں رہیں۔گیا رہ سے زائد معصوم بے گناہ شہریوں کی جان لے لی گئی عورتوں کی بے عزتی کی گئی ان کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے نوے سے زیادہ لوگوں کو زخمی کردیا گیا بوڑھوں کو ڈنڈوں سے مارا گیا قارئین میں یہ داستانِ غم مقبوضہ کشمیر کی نہیں فلسطین کی نہیں بلکہ اپنی اِسی سرزمین ِ وطن کے شہریوں پر کئے گئے ریاستی مظالم کی سنا رہا ہوں جو کہ آپ بھی جانتے ہیں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے وہ یہ منظر مسلسل اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا نہیں دیکھا تو صرف علل صبح اٹھنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے نہیں دیکھا وہ دیکھتے بھی کیسے ظلم و جبر کی جب بھی کوئی داستان رقم ہوئی ہے تاریخ گواہ ہے حکمرانوں نے ایسے ہی اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں ۔ پاکستان کے ایک حصے میں فوجی آپریشن کی بنا پر آرمی چیف اپنا غیر ملکی دورہ ملتوی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ جابر حکمران اپنی سیروسیافت کے پروگرام ملتوی نہیں کرسکتے ۔ پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور وزیراعظم صاحب غیر ملکی دورے پر روانہ ہوگئے ۔معصوم بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کی کسی کو پرواہ نہیں ابھی تک مرنے والوں کے لواحقین سے حکومتی سطح پر کوئی ملنے تک نہیں گیا کوئی معاونت نہیں کی گئی بلکہ ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے نوے سے زائد زخمیوں کی میڈیکل رپورٹس تبدیل کی جارہی ہیں مرنے والوں کی تعداد میں ردوبدل کیا جارہا ہے۔ یہ کیسے حکمران ہیں یہ کیسی جمہوریت ہے یہ کیسی لاقانونیت ہے یہ کیسا ظلم ہے کہ لوگ انصاف مانگ رہے ہیں اور انھیں موت دی جارہی ہے انکے ساتھ ریاست کا بدترین تشدد کیا جارہا ہے گرفتار لوگوں کے جسموں پر کیلوں سے ضربیں لگائی جارہی ہے ۔ سچ کہاہم نے یہ سب دیکھ کر تو یزیدیت بھی شرمارہی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے اس واقع کے بعد سے تو یہ بات اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جمہوری حسن کے دلدادہ کتنے جمہوریت پسند ہیں اور عوام کے کتنے خیر خواہ ہیں انھوں نے آج یہ بات ثابت کردی کہ شر سے کبھی خیر کی امید نہیں رکھی جاسکتی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے شریف زادے کتنے بڑے شریف بدمعاش ہیں یہ بات آج پاکستان کے بچے بچے کے سمجھ آچکی ہے۔ صرف اپنی اَنا اور جعلی جمہوریت کے سڑے بھوسے کھوکھلے نعروں کی لاج رکھنے کے لیے نہتے معصوم محبِ وطن شہریوں کی جان لے لینا یزیدی روایات ہیں۔جس کے لیے اصولوں کا پیمانہ ضروری ہے نہ ایمانی تقاضہ بلکہ لاقانونیت اور ظلم و جبر کے وہ ہتھکنڈے ضروری ہوتے ہیں جس کے بل پر چل کر اپنی فرعونی سلطنتوں کو دوام بخشنا ہوتا ہے۔میں کہتا ہوں ایسی جمہوریت نامی ڈائن کا گلا گھونٹ دینا ہی بہتر ہے جو اپنے ہی گھر کی دشمن ہوتی ہے جو اپنی ہی اولادوں کو کھا جاتی ہے ہمارے بڑوں کو کھا چکی اور ہمیں مسقیل ڈس رہی ہے اور اگر اسے یونہی پنپنے دیا گیا تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کو اژدہ بن کر صابت نگل جائے گی میں ہمیشہ کی طرح پھر کہتا ہوں ا س ملک کے نوجوانوں سے اٹھو اور انقلابیوں کا ساتھ دو اب ظالیموں کے ہاتھ تمھاری ماؤں بہنوں کے گریبانوں تک پہنچ گئے ہیں محافظ ہی قاتل بن بیٹھے ہیں طاقت کے نشے میں چور اِن لیٹروں کو قرآن کی حرمت تک کا بھی پاس نہیں رہا۔ اتنا بھیانک اور ظلم و جبر میں مبتلا لاقانونیت کو فروغ دینے والا نظام جمہوریت ہو ہی نہیں سکتا جو فرعونی نظام کا چربہ ہو جو غریب کے لیے زہرِ قاتل ہو جوچوروں لیٹروں کو تحفظ فراہم کرتا ہو ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہی بہتر ہے۔پاکستان عوامی تحریک نے ظلمت کے اسی نظام کے خاتمے کے لیے پر امن انقلاب کا راستہ اپنایا تھا جسے خونی انقلاب میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں دنیا کا ہر باطل یہ بھول جاتا ہے کہ تاریخ نے کبھی حق و باطل کی جنگ میں باطل کو فتح یاب نہیں کیا بلکہ اس کی باطل پرستی ہی اس کی شکست کا زریعہ بنی فرعونیت سے لیکر یزیدیت تک نے اپنی موت کا سامان خود مہیا کیا ہے اور اسی روایت پر چلتے ہوئے آج کے باطل پرستوں نے پنجاب پولیس کی غنڈا گردی کے زریعے اپنی تنزلی کا سامان تلاش لیا ہے۔ جب جب ظلم حد سے بڑھا ہے وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے جس کی تازہ مثال ایک نجی ٹی وی چینل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اپنے آپ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے والا ایک چوہے جتنی بھی طاقت نہ دکھا سکا اور دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بن گیا ۔یاد رکھو ظلمت کے حامیوں باطل کتنا ہی طاقت ور ہوجائے حق کی اڑان کو کبھی نہیں چھو سکتا۔لہذا بہتر ہے اپنی اصلاح کرلو حق کے آگے سے ہٹ جاؤ ورنہ وہ تمھیں چیرتا ہوا نکل جائے گا انقلاب کا راستہ مت روکو یہ انیس کڑور عوام کا انقلاب ہے جو ظلم کی چکی میں پستے پستے تھک چکی ہے۔ آج کا نوجوان ایڈوانس ہوچکا ہے وہ اپنے باپ داداؤں کے رستے پرچل کر تمھاری غلامی نہیں کریگا ظلم کے آگے سر نہیں جھکائے گا وہ تم سے ٹکرا جائے گا اور تمھیں پاش پاش کردیگا زمانہ بدل چکا ہے اب فرعونیت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہونے والے ہیں آج کا نوجوان مرنے کو بھی تیار ہے اور لڑنے کو بھی ۔لہذا پرامن انقلاب کو پرامن ہی رہنے دو اسے خونی انقلاب میں تبدیل مت کرو خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرواور اسکی مخلوق پر ظلم کرنے سے باز رہواس سے پہلے کہ اللہ کی گرفت میں آجاؤ۔ اب آپ اولڈ سیٹزن ہوچکے ہو آپ کے پنشن لینے کے دن ہیں ووٹ لینے کے نہیں اب آپ اپنے گھروں میں آرام کرو اپنی اولادوں سے اپنی خدمت کرواؤ اپنی بوسیدہ سوچیں اس ملک کے پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں پر مسلط نہیں کرو۔ اس ملک کا نوجوان اپنے ملک کو خود سنوارنے کی اہلیت رکھتا ہے لہذا اسے آگے آنے دو برسوں سے جاری بادشاہت ختم کرو یہ ملک انیس کڑور غریب عوام کا ہے نظام بھی انہی کا چلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :