شہادت خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ

اتوار 22 جون 2014

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اسلامی کلینڈر کے پہلے مہینے محرم کی دو تاریخ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا دن ہے۔عمر رضی اللہ تعالی عنہ نام،ابوحفص کنیت، فاروق لقب ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عرب کے قبیلے عدی سے تعلق رکھتے تھے جو رسول اللہ سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ رسول اللہ کی خواہش تھی کہ اسلام کو ایک مضبوط اور طاقت ور شخص کی حمایت حاصل ہو جائے اسی لیے آپ اپنے پروردگار سے دعا مانگتے تھے کہ ابوالحکم بن ہشام یا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بن خطاب میں سے کوئی مسلمان ہو جائے۔

ابو جہل تو ابو جہل ہی رہا مگر اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دل اسلام کی طرف مائل کر دیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ کے پاس آئے اوررسول اللہ سے کہا میں خدا،اس کے رسول اور اس کی وحی پر ایمان لانے حاضر ہوا ہوں۔

(جاری ہے)

اس کے بعد جس حمیت کے ساتھ پہلے اسلام کی مخالفت کرتے تھے اب اسلام کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ جس رات حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہنے اسلام قبول کیا اسی کی صبح کو رسول اللہ کے جانی دشمن ابو جہل کے پاس گئے اس نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے کہا سن لو ابو جہل میں مسلمان ہو گیا ہوں اس نے دروازہ بند کر دیا۔

حضرت عمر کے اسلام لانے کے بعد مسلمان کعبے میں نماز پڑھنے لگے اس قبل وہ مکہ کے آس پاس کی پہاڑیوں میں چھپ چھپ کے نمازیں پڑھتے تھے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے بارے میں رائے لی جس کو انہوں نے قبول کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے وفات کے بعد مسلمانوں کی آزادر ائے سے خلیفہ دوم منتخب ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت دس سال چھ ماہ رہی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت سنہری الفاظ سے لکھنے کا دور ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور حکومت میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے حکومت کرتے تھے کسی بھی معاملے پر پہلے سیر حاصل بحث ہوتی تھی پھر کثرتِ رائے سے فیصلے ہوتے تھے جن کو مشرق ومغرب میں پذیرائی ہوئی۔اس کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجلسِ شوریٰ بنائی ہوئی تھی۔

اُس وقت دنیا کے دوسرے حکمرانوں میں یہ چیز نا پید تھی۔اس سے ثابت ہوا کہ شورائی نظام حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قائم کیا۔طریقہ اس نظام کا یہ ہوتا تھا ،جس معاملے میں مشورہ ہوتا اس کو مسجد نبوی میں بلائے ہوئے لوگوں کے سامنے رکھا جاتا،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دو نماز رکعت نماز کے بعد ممبر رسول پر بیٹھتے اور بحث سننے کے بعد فیصلہ فرماتے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عام حقوق میں سب کے ساتھ برابر تھے۔اسی لیے ایک عام آدمی کھڑے ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کر سکتا تھا کہ آپ نے یہ کرتا کیسے بنا لیا جبکہ تقسیم کی گئی چادر سے یہ کرتا نہیں بن سکتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بیان کرنا پڑا کہ دوسری چادر میں نے اپنے بیٹے سے لے کر کرُتا بنوایا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لباس میں اکثر پیوند لگے ہوتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت سے محکمے قائم کیے۔ زراعت، قضا ، بیت المال کی عمارتیں بنوائیں، بیت المال کے اندر کتنی رقم ہے اس کے حساب کتاب کا انتظام قائم کیا بیت المال کا امیر حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہکو بنایا ان کے ماتحت حضرت عبدالر حٰمن بن عبیدالقاری رضی اللہ تعالی عنہ اور معیف رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا حضرت معیف رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ کے انگشتی بردار تھے ۔

چار بڑی نہریں بنوائی جن کے نام یہ ہے،نہر ابی موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ،نہر معقل رضی اللہ تعالی عنہ،نہر سعد رضی اللہ تعالی عنہ اور نہر امیرا لمومنین ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں کئی شہر آ با د ہوے۔ تمام مملکت کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیا ہوا تھا۔اور یہ نظام حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ۲۰ ئھ میں قائم کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کی تنخواہیں اور وظیفے مقرر کیے۔

عاملوں کے تقرر کرتے وقت اُن کے فرائض اور حقوق کا تعین کیا۔خراج کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایجاد کیا۔حضر ت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی بڑی قدر کرتے تھے اور ا ُن کے عمر میں چھوٹے ہونے پر لوگ اعتراض کرتے تھے۔ایک محفل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے ایک سوال کیا۔ لوگ مکمل جواب نہ دے سکے ۔

وہ ہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا انہوں نے مکمل جواب دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی قدر کرتا ہوں۔ جس پر لوگوں نے اس عمل کو تسلیم کر لیا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی محفل میں قریش کے سردار تشریف فر ما تھے۔اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ بھی تشریف لاے۔

اُن سرداروں سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہمارے سردار کے لیے جگہ بناؤ اس پر سرداروں نے آپس میں چہ مہ گوئیاں کیں کہ جس وقت اسلام پر مشکل وقت تھا تو یہ ہی حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کام آے تھے ۔ہماری عزت اب اسلام کی خدمت کر کے ہی قائم ہو سکتی ہے۔حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کو اُسی قطبی کے ہاتھوں سزا دلائی جس کو بغیر قصور کے کوڑے مارے گے تھے۔

متعلقین رسول اللہ کا پاس رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے رسول اللہ کا ساتھ دیا تھا اور اپنا سب کچھ دین اسلام پر قربان کر دیا تھا ان کی خدمت کے اعتراف میں وظیفے مقرر کئے۔ بنو ہاشم سب سے پہلے درجے،اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے ناموں سے ابتدا،پھر بنو امیّہ،پھر بنو عبدالشمس،پھربنو نافل،پھرعبدالعز یٰ اپنا قبیلہ آخری درجہ پر رکھا۔

چناچہ اس حساب سے وظائف تقسیم ہوتے تھے۔ اصحاب بدر رضی اللہ تعالی عنہ کی سب سے ذیادہ تنخواہیں مقرر کیں۔سب سے بڑی مقدار حضرت اُسامہ بن زیاد رضی اللہ تعالی عنہکی مقرر کی اس پر اِن کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عذر کیا تو فرمایا ۔رسول اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو تم سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور اُس کے باپ کو تمہارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیٹی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں دی ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب بیت المقدس گے تو کاروبار حکومت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کر کے گے۔
قضاء و قدر کا صیحح مفہوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سمجھتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شام کے سفر پر تھے معلوم ہوا وہاں عمواس (وبائی مرض) بہت زور پر ہے۔

واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے طیش میں آ کر کہا قضاء الہی سے بھاگتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، ہاں اللہ کے حکم سے اللہ کے حکم کی طرف بھا گتا ہوں۔ حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر کہا
میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ایک درخت کے نیچے رسول للہ رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے بیعت لی تھی اس بنا پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دیکھ کر اس درخت کو کٹوا دیا۔

سفر کے دوران ایک مسجد میں رسول نے نماز پڑھی تھی ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں لوگ اس مسجد کی طرف دوڑے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے کہا اہل کتاب ان ہی باتوں سے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت بنا لیتے تھے۔اور بہت سے واقعات ہیں جو محمد کی صحبت میں رہ کر سیکھے تھے۔اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس واقعات کی روح کے مطابق عمل کیا۔


صاحبو!تاریخ میں مقدونیہ کے سکندر اعظم کو( الیگزینڈر ) کہا جاتا ہے جو غلط ہے ۔ اس نے دنیا فتح کی تھی جس کی سلطنت صرف 17 لاکھ مربع میل پر تھی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت 22لاکھ مربع میل کے علاقے پر تھی اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سکندر اعظم تھا نہ کہ مقدونیہ کا بادشاہ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مسند خلافت پر بیٹھتے وقت جو خطبہ دیا اُس کے ابتدائی الفاظ یہ تھے اے الہی اگر میں سخت ہوں مجھے نرم کر دے۔

میں کمزور ہوں مجھے قوت دے۔عرب قوم سے خطاب کر کے کہا ۔ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے لیکن میں اِن کو راستے پر چلا کے چھوڑوں گا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے فقہ کے مسائل کی تعداد کئی ہزار ہے۔ ان میں تقریباّ ایک ہزار بڑے مسئلے ایسے ہیں جو کہ فقہ میں مقدم ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حل کیا اور ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی۔

بعض مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ میں اختلاف ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مجلس بلائی انصار و مہاجرین کو جمع کیا مگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہسے معلومات حاصل کی گئیں اوراُن کی راے پر عمل کیا گیا۔رسول کے زمانہ مبارک میں بہت سی راے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دی اُس پر وہی نازل ہوئی مثلاّ قیدیانِ بدر،حجاب ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہ نماز بر جنازہ منافق وغیرہ۔

مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا جس کی کنیت ابو لولو تھی ۔ اس نے ایک دن آپ سے اپنے آقا کی شکایت کی اور کہا کہ مجھ سے بھاری محصول لیا جاتا ہے آپ نے اس سے دریافت کیا کونسا پیشہ کرتا ہے بولا نجاری ،نقاشی اور آہنگری کا پیشہ کرتا ہوں کیونکہ اس پیشے سے مناسب پیسے ملتے تھے اس لیے آپ نے فرمایا ان صنعتوں کے مقابلے میں رقم کچھ بہت نہیں فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا دوسرے دن آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ فیروز نے چھ وار کیے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا زخم کے صدمے سے گر پڑے اس کے بعد فیروز نے خود کشی کر لی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا میرا قاتل کون تھا لوگوں نے کہا فیروز ۔

” فرمایا الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا“حضرت عمر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے حضور کے پہلو میں دفن ہونے کی درخواست کی جو انہوں نے نے مان لی اسطرح آپ حضرت محمد کے پہلو میں دفنائے گئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بہت فتوعات ہوئیں جیسے اوپر ذکر ہو چکا ہے ان کی حکومت ۲۲ لاکھ مربع میل پر تھی۔

عوام کی خدمت کے لیے بہت سے محکمے قائم کئے گئے تھے چار بڑی نہریں بنائی گئیں تھیں۔ سڑکیں، مسافر خانے اور راستوں میں عوام کی حفاظت کے لیے چوکیں بنائی گئی تھیں۔علم کی قدر تھی، اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ رسول کی عزّت تھی،بیت المال عام مسلمانوں کی امانت سمجھا جاتا تھا آجکل کے حکمرانوں کی طرح بیت ا لمال سے کرپشن ،بے جا اسراف اور حکومتی اہلکاروں کو ناجائز مراعات نہیں دی جاتی تھیں خوف خدا تھا اللہ نے آسمان اور زمین کے خزانے کھول دئیے تھے۔امن اامان تھا،عدل انصاف تھا،حقوق و فرائض کی تقسیم تھی انسانیت کی قدر تھی۔ قارئین !اللہ سے دعا ہے کہ مسلمان حکومتوں میں پھر سے خلفاء راشدین جیسانظام حکومت قائم ہو جائے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے سکیں آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :