مریدینی انقلاب

اتوار 22 جون 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

تعریف کرنی پڑے گی! بلاشبہ طاہرالقادری صاحب زبردست فنکار ہیں۔ نہ صرف فنکار ہیں بلکہ ماہرِ نفسیات بھی ہیں۔ ان کو ضعیف الاعتقاد عوام کی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر خوب اچھے سے آتا ہے۔ ایک تو اداکار اوپر سے ماہرِ نفسیات! الله تیری قدرت!!! خواب سنا کر مریدین بنانا اور پھر جیبوں سے چندہ بھی نکلوا لینا عروجِ فنِ سخن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


یقینا قادری صاحب حکومت کو اپنے انقلاب کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھا کر خوش ہو رہے ہوں گے ۔عوام اتنی دکھی کیوں ہے؟ انقلاب تو ایسا ہی ہوتا ہے۔عوامی انقلاب اور قتل و غارت گری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عوامی انقلاب میں معصوم لوگ اپنی محرومیوں کے کم ترین وقت میں ازالے اور اپنے سربراہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے تمام قسم کی قربانیاں دینے پر رضا مند ہوتے ہوئے حکومتِ وقت اور نظام کو تبدیل کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

اگر حکومت انقلابیوں کے سامنے ڈٹ جائے اور انقلابیوں کی قربانیاں حد سے بڑھ جائیں ، گلی گلی قتل و غارت گری پھیل جائے ،جا بجا معصوم بچے قتل کئے جائیں، عورتوں کی عزتیں تار تار ہوں، مرد گاجر مولیوں کی طرح کٹتے جائیں، ملک کا نظام مفلوج ہو کر رہ جائے، سیکیورٹی ادارے اپنے لوگوں پر ٹینک اور توپیں چڑھا دیں اور حالات اس قدر ابتر ہوں جائیں کہ نہ معیشت بچے نہ کام، نہ پینے کو پانی ہو نہ پیٹ بھرنے کو دو دانے ، عوام اور ریاستی مشینری میں مکمل تفریق دکھائی دے تو یقینا ریاستی مشینری بالآخر عوام کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہیں۔

ایسی صورتحال اور تبدیلی کو انقلاب کا نام دیا جاتا ہے ۔ انقلاب کے نتیجے میں ملک یا قوم حضرتِ سربراہ کی سرپرستی میں مطلق العنانیت کے ایک نئے دور میں داخل ہو تا ہے۔ عوامی انقلاب ہمیشہ خونی اور اس کا انت مطلق العنانیت ہے۔
انقلاب کے بعد ملک کی ڈگر کیا ہو گی اس کا پورا دارومدار اس ڈکٹیٹر کی ذہنی کیفیت اور سوچ پر منحصر ہوتا ہے جو کہ انقلاب کی صورت میں اقتدار اور وسائل پر قابض ہوا ہو۔

اب اگر انقلاب ماؤ زِ تنگ جیسی شخصیت کا ہو تو چین جیسا کمیونسٹ ملک معرضِ وجود آتا ہے۔خمینی جیسی شخصیت کا انقلاب ہو تو ایران جیسا بنیاد پرست نظریاتی ملک تخلیق پاتا ہے۔ انقلابِ فرانس ہو تو بادشاہت کا خاتمہ کر کے جمہوریت اور قوم پرستی کی بنیاد رکھتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں انقلاب تو بہت سے آئے ہیں پر یہاں خصوصاٌ 1850 میں شروع ہونے والے تائی پنگ کے انقلاب کا ذکر کرنا کچھ ضروری محسوس ہوتا ہے!
تائی پنگ کا انقلاب چین میں اقتدار پذیر ’قِنگ‘ بادشاہت کے خلاف شروع ہوا تھا۔

اس انقلاب کی بانی دو شخصیات ’ہونگ زیو کوان‘ اور ’یانگ زیو قِنگ‘ تھیں۔ شاہی امور کے امتحانات میں کئی بار ناکام ہو چکے ’ہونگ زیو کوان‘ عوام کو یقین دلا چکے تھا کہ خوابوں و اشاروں کے ذریعے اس پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسی کا چھوٹا بھائی ہے جبکہ ماضی میں جلانے والی لکڑی کا تاجر رہ چکا ’یانگ زیو قِنگ‘ ایک با کمال اداکار بھی تھا اور اپنے خطابات میں اپنے منہ سے ادا کردہ جملوں کو خدا کی جانب سے بھیجے گئے احکامات بتلا کر ضعیف الاعتقاد چینیوں کی بھر پور عوامی اور سیاسی تائید حاصل کرنے میں بے حد کامیاب رہا۔

یوں ان دونوں رفقاء نے جنوبی چین میں اپنے لاکھوں معتقدین کی حمایت سے تائی پنگ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ نان جنگ اس سلطنت کا دارلحکومت تھا۔ دیگر بنیادی مطالبات جیسے عوام کی فلاح و بہبوداور معاشی و معاشرتی حقوق کے ہمراہ انہوں نے قِنگ شاہی گھرانے پر دباؤ ڈالا کہ وہ بدھ مت، کنفیوشسم اور دوسرے چینی مذاہب کا خاتمہ کر کے ان دونوں انقلابی شخصیات کی تراشیدہ و ترمیم شدہ عیسائیت کو نافذ کرنے کا بندوبست کریں۔

بعد ازاں ان دونوں حضرات کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہ رہ سکی اور اختلافات بڑھتے گئے۔ پھر 1856 میں ہونگ کے حامیوں نے یانگ اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا جس کے بعد ہونگ ہی اس انقلاب اور سلطنت کا کرتا دھرتا بن گیا۔1864 میں اس انقلاب اور سلطنت کا خاتمہ قِنگ‘ کی شاہی حکومت نے فرانس اوربرطانیہ کی عسکری مدد سے کیا ۔ چودہ سال کے اس عرصہ کے دوران دو سے تین کروڑ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔

ہونگ کا انتقال 1864 میں فوڈ پوآئزننگ کے باعث ہوا۔ ہونگ انتقال تک اپنے معتقدین کو یہ یقین دلاتا رہا کہ خدا ’نان جنگ‘ کی حفاظت خود کرے گا۔ لوگ مرتے رہے اور بالآخر وہ خود بھی بادشاہت اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو سونپ کر چل بسا۔ نان جنگ پر شاہی فوج نے قبضہ کر لیا ۔کچھ عرصہ بعد ہونگ کے جسم کو قبر سے نکال کر جلایا گیااور راکھ توپ میں بھر کر ہوا میں اڑا دی گئی!!!
اب طاہر القادری صاحب کس کیٹیگری کا انقلاب لانا چاہتے ہیں ذرا اپنے مریدین کو کھل کر بتائیں؟ قادری صاحب کا انقلاب عوامی تو نہیں، فوجی بھی نہیں ہاں البتہ مریدینی ضرور گردانا جا سکتا ہے۔

وہ یہ بھی بتائیں کہ اس انقلاب کی خاطر اپنا اور اپنے بچوں کا خون کس حد تک پاکستان کی سڑکوں پر بہانے کو تیار ہیں؟ یہ پوچھنا بھی جائز ہے کہ قادری صاحب کے پاس کینیڈا بیٹھ کر ویڈیو لنک سے اپنے مریدین کو کسی بھی مسئلے پر اکسانے کا کیا اخلاقی جواز موجود ہے؟کیا اس قسم کی حرکات یہ حضرت کینیڈا میں مریدین سے سرانجام دلوا سکتے ہیں؟ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے قادری صاحب شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جو 1973 کے آئین کے تحت اپنے معاملات چلانے کا پابند ہے!
لاہور کی مریدینی انقلابی جھلکیوں کی ذمہ دار جتنی پنجاب حکومت ہے اتنے ہی طاہر القادری صاحب بذاتِ خود بھی ہیں۔

پہلی گولی کس نے چلائی اور کس نے نہیں چلائی، پہلا پتھر کس نے مارا اور کس نے نہیں مارا، زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہلاک شدگان کی اموات کی مکمل ذمہ داری دونوں فریقین پر باہم عائد ہوتی ہے لیکن ریاستی مشینری کو بہر حال امن و امان قائم رکھنے کے حوالے سے منہاج القرآن پرقانونی برتری حاصل ہے۔ قانون و اختیارات سے ہٹ کر بات کریں تو یہ بھی درست ہے کہ عوام جتنی ناراض پنجاب پولیس اور گلو بٹ جیسوں کے کارناموں سے ہے اس سے کہیں زیادہ ناراض کینیڈین بابو کے ڈراموں سے ہے! جو تھیٹر انہوں نے پاکستان آ کر لگانا ہے ضرور لگائیں کہ یہاں بھی شیخ صاحب جیسے انقلابی اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کو بے چین ہیں مگر یہ بھی یقین رکھیں کہ اکثریتی پاکستانی عوام کسی خون خرابے کی قائل نہیں ہے جس کا واضح ثبوت لاہور میں آٹھ لاشیں گرنے پر عوام کا بلبلا اٹھنا ہے ۔

چہار جانب ہا ہا کار مچی پڑی ہے۔
طاہر القادری جیسے غیر متوازن شخص کی باتوں پر حکومت کا ایک حد سے زیادہ ردِ عمل سیاسی غلطی ہے۔ ان کو پاکستان آنے کے بعد کسی ایسی مناسب جگہ پر اپنا تھیٹر لگانے کی بالکل اجازت دینی چاہیے جس سے عوام کے روز مرہ کے معمولات پر اثر نہ پڑے، ان کو ان کے مریدین و ہمنواؤں کے ہمراہ انقلابی قوالی کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کرنا چاہیے ۔دنیا دیکھے گی کہ یہ تھیٹر اپنے آپ چند دن میں چاہنے والوں کو لطف اندوز کرا کے اپنی موت آپ مر جائے گا ۔ ڈرامہ جتنا بھی اچھا ہو ایک خاص مدت سے زیادہ یا بار بار نہیں دیکھا جا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :