مدد چاہتی ہے یہ حواء کی بیٹی

اتوار 22 جون 2014

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

جب معا شرے میں اونچ نیچ کی تفریق بڑھنے لگے غریب اور امیر کے لئے انصاف کے پیمانے مختلف ہو ہو جائیں عدل کے ایوانوں میں ظلم پروش پانے لگے، انصاف کی بولی لگنے لگے ،غریبوں،مزدوروں اور دیہاڑی داروں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگے ظالم کو ظالم کہنے کی روایات دم توڑنے لگیں وحشت و بربریت عام ہو جائے مظلوم کی آہوں اور سسکیوں پر دھیاں دینے والا کوئی نہ ہواس کی ڈھارس بندھانے والا کوئی نہ ہو درندگی اور سفاکی صاحب حیثیت لوگوں کا وطیرہ بن جائے حواء کی بیٹی سر عام رسواء ہونے لگے عزتیں سر عام لٹنیں لگیں مقدس رشتے پامال ہونے لگیں اخلاقی اور انسانی اقدار زمین بوس ہو جائیں چادر اور چار دیواری کا تقدس پاؤں تلے مسل دیا جائے تو سمجھ لیا جائے کہ اب سماج سماج نہیں رہا بلکہ جنگل کا روپ دھار چکا ہے جو طاقتور ہے وہی بادشاہ ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانوں لاگو ہو چکا ہے کچھ ایسے ہی حالات اب وطن عزیز میں پرورش پا چکے ہیں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال نہ عزت نہ آبرو ،یوں تو آئے روز ایسے بھیّانک واقعات رونما ء ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہو پاتے لیکن کل حافظ آباد اور لیّہ کی تحصیل چوبارہ اور مظفر گڑھ میں ہونے والے شرمناک اور دلدوز واقعات نے روح کو تڑپا کر رکھ دیا ہے لیہ میں ہونیوالے واقعہ کو دیکھ کر اور سن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان کا صوبہ اترپردیش ہے جہاں تقریباً تین ہفتے قبل برہمنوں نے دو دلت بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کی جانوروں کی طرح ان کو نوچا اور پھر قتل کر دیا اور ان کی لاشوں کو دورخت پر لٹکا دیا لیہ میں ہونے والے واقعہ کا وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس گھاؤنے واقعہ میں ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کریں تاکہ ان کو قرار وقعی سزا دی جا سکے دوسرا واقعہ حافظ آباد میں رونما ہواجہاں گاؤں پھلو چراغ شاہ کے بگڑے ہوئے رئیس زادوں نے ایک غریب مزدور کی بیٹی کو گھر میں داخل ہو کر اس کے والدین کے سامنے ہی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی عزت کو تار تار کر دیا اس سانحہ کے بعد ان رئیس زادوں نے تو ظلم کی انتہا ہی کر دی جب لڑکی کے غریب ماں باپ اس ظلم و بربریت ،درندگی اور سفاکی کی رپورٹ لکھانے جا رہے تھے تو ان بے ضمیروں نے ان غریبوں کو اپنی گاڑی تلے کچل کر قتل کر دیا اور یوں ان رئیس زادوں نے انسانیت کی کھلے عام بولی لگا دی ایسا ہی سانحہ مظفر گڑھ میں بپا ہوا جس میں ایک سات سالہ بچی ایک درندہ صفت انسان کی ہوس کا نشانہ بنی یہ ہے ہمارے اسلامی اور جمہوری معاشرے کا چہرہ جس کو دیکھ کر انسان تو کیا انسانیّت بھی منہ چھپائے گھوم رہی ہے 27مئی کو لاہور ہا ئیکورٹ کے باہر بھی حواء کی بیٹی کو پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں غیرت کے نام پر اینٹیں اینٹیں مار مار کر قتل نہیں بلکہ سنگسار کر دیا تھا نہتی ،بے بس اور لاچار فرزانہ زندگی کے بھیک مانگتی رہی لیکن نہ قانون حرکت میں آیا اور نہ قانون کے رکھوالے حرکت میں آئے اور نہ ہی عدل کے ایوانوں میں بیٹھے منصفوں نے اس درندگی اور سفاکی کو روکنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انصاف کے دروازے سے انصاف کی طلبگار کے ساتھ ساتھ انصاف کا بھی جنازہ نکل گیا اس فرزانہ کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنے دین کے دائرے میں رہتے ہوئے پسند کی شادی کی تھی اس نے اپنے آقاء دوجہان رحمت اللعالمیںﷺ کی جانب سے حواء کی بیٹی کو دیے گئے اختیار کو استعمال کرنے کی فاش غلطی کی تھی اس نے جہالت کے اس خود ساختہ قانون کو ماننے سے انکار کردیا تھا جو آج بھی ہمارے سماج اور روّیوں میں سینکڑوں سال بعد بھی اپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے ہے اس کے باوجود ہم دعویٰ کرتے ہیں مہذب سماج اور اسلامی معاشرے کا جو نہ ہمارے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہمارے اسلامی اطوار سے،کیا یہ اسلامی اور جمہوری معاشرے کی اقدار ہیں کہ عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکا جائے ،عورتوں کو زندہ دفن کر دیا جائے پٹرول چھڑک کر بہوؤں اور بیٹیوں کو جلا دیا جائے نا کردہ گناہوں کی سزا کے طور پر بچیوں کو ونی اور سوادا جیسی بے ہودہ اور جا ہلانہ رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے معاشرے میں پائی جانے والی ان بیہودہ،فرسودہ اور دقیانوسی رسموں کو مضبوط کرنے میں من حیث القوم ہم سب ذمہ دار ہیں کیا قوم کو نہیں معلوم کہ وڈیروں،جاگرداروں،سرداروں،مخدوموں اور پیروں کے ہاں پناہ دیے جانے کے نام پر عورتوں کو لونڈیاں اور باندیاں بنایا جاتا ہے اور وہاں وہ ساری عمر باندیاں ہی بن کر رہتی ہیں ایسے سرداروں میں ایک سابق وزیر اعظم بھی شامل ہے جس نے سرکاری پروٹول کے سرکاری مراعات کیساتھ سرکاری ریسٹ ہاؤس میں جرگہ کرکے غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں کی خون کی قیمت لگائی اس سے بڑھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت” جس کو مالک ِارض و سمٰوات نے ماں بہن اور بیٹی کے روپ دے کر نہ صرف مقدم اور محترم کیا بلکہ اپنی رحمت اور جنّت کو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک سے وابستہ کر دیا ،،کی تذلیل و تضحیک اور کیا ہو سکتی ہے کہ سابقہ حکومت نے زندہ در گور کی جانے والی خواتین کا خون محض چھ نشستوں کے عوض داخل دفتر کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ ہے ہمارا قومی المیہ ہم سب کو ملکر ان وحشی درندوں کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا جو وسائل کے بل بوتے پر غریبوں اور ناداروں کی عزتوں سے کھلوار کرتے ہیں اور اس بات کو عام کرنا ہو گا کہ اگر ہم کسی کی ماں بہن اور بیٹی کی عزت کریں گے تو پھر دوسرا بھی ہماری ماں بہن اور بیٹی کو عزت دے گا ۔بقول ساحر لدھیانوی
مدد چاہتی ہے یہ حواء کی بیٹی
یشودھا کی ہم زلف رادھا کی بیٹی
پیامبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :