گلو ‘اُلو اور نئی ضرب المثال

اتوار 22 جون 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

بعض لوگ عمر بھر زندگی کے دریا میں بے پناہ کوششوں اور”ڈبکیوں“ کے باوجود ”شہرت “ حاصل نہیں کرپاتے ‘بیچارے جو بھی کام کریں الٹ ہی پڑتا ہے اور پھر شہرت نامی چڑیا ہمیشہ ان سے دور ہی رہتی ہے لیکن بعض ”خوش نصیب“ ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض ہاتھ ہلانے پر ہی شہرت کی ”بلندیوں“ کو چھوجاتے ہیں۔ اب یہ الگ باعت ہے کہ بعض اوقات یہ بلندیاں اورشہرت بھی دوسرے معنوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن ان صاحبان کو اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں ہوتی‘ بس انہیں شہرت کی طلب رہتی ہے۔

ہوسکتاہے کہ بعض احباب کو ہماری رائے سے اختلاف ہو لیکن اپنے گلو بٹ بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جب ماڈل ٹاؤن کا میدان خاصہ گرم تھا تو موصوف گاڑیوں کی توڑپھوڑکرکے اپنا غصہ اتار رہے تھے ۔

(جاری ہے)

اول تاثر میڈیا پر یوں پڑا جیسا کہ کوئی اسرائیلی فوجی ہے جو بیچارے فلسطینیوں کی گاڑیاں توڑ پھوڑ رہا ہے لیکن صاحب زمانہ بھی بڑا ہی کایاں ہے اور پھر میڈیا ؟؟؟ اللہ امان!! میڈیا تو اڑتی چڑیا کے پر ہی نہیں بلکہ ان کے پروں کے پنکھ بھی گن سکتا ہے ‘میڈیا نے فوراً بتادیا کہ یہ ”شہزور “ یا ”شاہ زور “ گلو بٹ ہے جو مسل لیگ کا چہیتا ہے اوربعض لوگوں کے خیال میں اس کی اپروچ وزیراعلیٰ تک ہے ۔

بہرحال ہمیں کیا لینا دینا گلو کی اپروچ چھوٹے میاں صاحب تک ہو یا بڑے میاں صاحب تک ‘ لیکن موصوف زندگی بھر ڈنڈے سوٹے کا کھیل کھیلنے کے باوجود وہ شہر ت نہیں پاسکے جو محض ایک ہی دن میں ایک گھنٹے کے دور ان چند ایک گاڑیوں کی ”مرمت “ کرکے حاصل ہوئی ورنہ شنید یہی ہے کہ موصوف ڈنڈا چلانے میں ماہر ہیں اور نشانہ بیچارے انسانوں کے سر ہی بنتے ہیں۔

بہرحال خدا کی خداجانے۔
سنا ہے کہ گلو ”شیر لاہور“ بھی کہلوایاجاتاتھا ‘ یہ تھا ماضی کا صیغہ ہے ورنہ تو لاہور کی عدالت میں پیشی کے موقع پر گلو کے ساتھ جو کچھ وکلا اور شہریوں نے کیا وہ کم ازکم کسی ”شیر“ کے شایان شان نہیں ‘ دونوں قصور وار ہیں ‘ عوا م‘ وکلا نے اسے شیر سمجھ کر نہیں مارا اور گلو خود کو اس وقت شیر نہیں سمجھ رہاتھا ورنہ تھوڑی دیر دھاڑتا ‘ خون آلود سر کو ادھر ادھر جھٹکتا اور پھر دھاڑتے ہوئے کہتا ” اوئے تہاڈی تے ایسی دی تیسی‘ تسیں شیر لاہورنوں ماریائے“ لیکن یہ شیر بھی شیر نہیں تھا ورنہ تو شیروں کی جماعت کا شیر کم ازکم ایک آدھ بار دھاڑتا ضرور ‘ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ جب سر پرپڑتی ہیں توپھر شیر بھی اپنی دھاڑ بھول جاتاہے اور گلو بھائی تو بیچارے شیر تھے ہی نہیں بس انہیں”شیر بن شیر بن“’ قسم کے لارے ‘دلاسے دیکر ”شیر “ بنادیا گیا۔

اب بیچارہ لاکھ تاویلیں اورصفائیاں دیتا پھرے کہ ”حضور! میں تو شیر تھا ہی نہیں ‘مجھے تو خواہ مخواہ ہی شیر بناکر دھنک دیاگیا ‘ اگر مجھے پتہ ہوتاکہ وکلا اورشہری ”شیروں“ کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں تو بلی بن جاتا شیر نہ بنتا ۔لیکن شاید اس کے ذہن میں یہ بات نہ تھی اور محض اس خام خیالی میں ہی مارا گیا کہ ملک میں ”شیروں“ کی حکومت ہے توکیوں نہ اس”نقلی “ ہی سہی مگر شیر بن کر کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور حاصل کی جاسکتا ہے۔

بیچارہ فائدہ اٹھانے کے چکر میں روئی کی طرح دھنکا گیا۔
اب یاران وطن کہتے ہیں بلکہ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ گلو اس ” جوتم پریڈ “ کے بعد بڑا ہی لیڈر بنے گا ‘ عدالت سے بری ہوگا‘ اور ن لیگ ایم پی اے بنادے گی۔ پتہ نہیں یہ ہوگا کب لیکن فی الوقت تو گلو کا اتنی بڑی مونچھوں کے ساتھ پھر سے ”میدان “ میں آنا مشکل ہوجائیگا۔

لوگ کہتے ہیں کہ مونچھیں تو رانا ثنا اللہ کی بھی بڑی بڑی ہیں لیکن سیانے کہتے ہیں کہ دوسروں کے سرخ وسفید رخسار دیکھ کر اپنے رخسارپیٹنے سے عارضی لالی تو آسکتی ہے مگر مستقل نہیں؟؟ سو گلو بھائی کو رانا ثنا اللہ کی طرح مونچھیں بڑھاکر ”شیر “’ بننے کا خیال دل سے نکال ہی دینا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مونچھیں مرد کی زینت ہوتی ہیں اوربعض لوگ انہیں مرد کا زیور کہتے ہیں ‘ بعض دم چھلوں کاخیال یہ ہے کہ ”مچھ نئیں تے کچھ نہیں“ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کے آدھے سے زائد حکمران مونچھوں کے بغیر ہی ہیں مگر مونچھ والوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔

خیر یہ بات ہی الگ ہے‘
بہرحال ایک عرصہ کے بعد اردو کی ضرب المثال میں خاصی تیزی سے تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور اس کا سہرا بھی گلو بھائی کے سر ہے ۔یقین نہیں آتا ناں ؟ پہلے ہم بھی حیران تھے لیکن جونہی سوشل میڈیا پرنظر پڑی تو حیرانی ختم ہوگئی اوریقین کرنا پڑا ‘گلو بھائی تو واقعی گلو بھائی ہی نکلے کہ بے شمار ضرب المثال کو ہی تبدیل کردیا۔

ایک شوخ مزاج نوجوان نے پھبتی کسی اور خوب بات کہی ”ہر شاخ پہ گلو بیٹھا ہے ‘انجام گلستاں کیا ہوگا ؟؟“ اب پتہ نہیں شعر کے خالق کی روح پر کیابیتے گی لیکن ہمیں تو بیچارے الو پر ترس آرہا ہے کہ کئی سالوں سے اس نے اس مصرعے پر قبضہ جمارکھا تھااور راتوں رات اس کی یہ حکمرانی چھن گئی‘ ہوسکتاہے کہ الو بیچارے کسی ویران جنگل میں ٹنڈ منڈ ‘اجڑے درخت پر بیٹھے سوگ منارہے ہوں کہ خواہ مخواہ ہی ہمارا حق چھین لیاگیا ‘ اگر تو واقعی ایسا ہو اتو پھر ”شیروں “ کو ”الوؤں“ کے احتجاج کا بھی سامناکرناپڑسکتا ہے
ایک اور نوجوان کہتے ہیں ” ہر کامیاب سیاستدان کے پیچھے کسی نہ کسی گلو کاہاتھ ہوتاہے“ یعنی اب بیویوں یا عورت کی بات پرانی ہوگئی‘ اللہ بخشے ایک سیاسی رہنما تھے کہاکرتے تھے کہ واقعی میں اگر کامیاب ہوں تو اس کے پیچھے عورت کا نہیں عورتوں کا ہاتھ ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ اب عورتیں اقتدار کی وجہ سے ہی پیچھے پیچھے رہتی ہیں ۔

لیکن چلو ا س نوجوان نے یہ جملہ تخلیق کر کے نئی اصطلاع تومتعارف کرادی کہ سیاست میں کامیابی کیلئے کوئی نہ کوئی ”گلو “ بنانا یا رکھنا ضروری ہے۔ایک اورشوخ نوجوان کہنے لگا ”گلو ہی گلو ہی ہوتاہے ‘چاہے وہ اصلی ہو یا نقلی“ اب بیچارے نواب اسلم رئیسانی پر یہ سن کر ہی قیامت ٹوٹ پڑی ہوگی کہ وہ تو سابقہ دور میں ”ڈگری ڈگری ہی ہوتی ہے چاہے وہ نقلی ہی سہی “ چیختے چلاتے پھرتے رہے ‘گو کہ شہرت بھی ملی مگر ایک ہی دن میں یہ اعزاز بھی گلو ہی چھین کر لے گیا‘ اب ہمیں یہ تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ”نقلی گلو “ کون ہے اور”اصلی گلو“ کون۔

اور گلو بننے کے لئے ”خواص “ کی ضرورت پڑتی ہے‘ گلو بننے کے بعد کس قدر فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں اور کس قدر نقصان برداشت کرناپڑتاہے؟؟ یہ لمبی سوچ پر مجبورکرنے والے سوالات ہیں اس کا جواب یاتو گلو بھائی دے سکتے ہیں یا انہیں گلو بنانے والے ‘
ہمارے ایک دیرینہ دوست ہیں آفتا ب گلو ایڈووکیٹ ‘ موصوف بھی پکے مسلم لیگی ہیں لیکن ان میں گلو بٹ جیسے اوصاف حمیدہ یا اوصاف جمیلہ نہیں ہیں اسی لئے تو بیچارے قربانیاں دینے کے باوجود آج تک ن لیگی قیادت کی نظروں میں وہ توقیر حاصل نہیں کرپائے جس قدر شہرت ‘عزت گلو بٹ عرف گلو بھائی کو ملی ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ لاہور کے واقعہ کے بعد آفتاب بھائی بھی اپنے نام کے ساتھ ”گلو “ لگوانے میں شرمندگی ضرور محسوس کرتے ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :