ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔۔!

جمعہ 20 جون 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

جب دل غم سے بھر جاتا ہے،تو ہم لوگ کھوکھلے لفظوں کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اس واقعہ کو گزرے ہوئے دو دن گزر چکے ہیں۔لیکن ابھی بھی ایسا لگتا ہے ظالم ظلم ڈھارہے ہیں اور ابھی تک ڈھا رہے ہیں۔یہ شہر لاہور ہے زندہ دل والوں کا شہر،محبت کرنے والوں کا۔۔۔۔لیکن ظالموں نے اس کی سفیدی کو خون کی چھینٹوں سے لال کر دیا۔دو خواتین سمیت آٹھ بے گناہ انسانوں کا دن دیہاڑے قتل۔

۔۔تادم تحریر ایک اور بے گناہ انسان اس ظالم سماج سے چھٹکارا پا گیا۔اسے سفاکی،درندگی،وحشت،سنگدلی کا نام بھی نہیں دیاجاسکتا ہم ظلم کی حدوں کو اس طرح سے بھی پار کر جائیں گے۔خون بہایا جاتا ہے،لاشیں گرائی جاتیں ہیں۔۔۔نہتے لوگوں پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے لیکن کہیں آسمان نہیں ٹوٹتا۔۔

(جاری ہے)

۔زمین معصوم جانوں کے خون سے لال تر ہوتی رہی۔۔۔لیکن کہیں قیامت نہیں آئی۔

۔۔یہ سن تو رکھا تھا طاقت کا نشہ انسان کو حیوان بنا دیتا ہے آج ان آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھ لیا۔شیر جوان نہتے انسانوں پر چڑھ دوڑے،بہادری،شجاعت کے وہ ریکارڈ لگائے کہ شاید ہی کوئی توڑ پائے۔ناجانے کس سنگدل انسان کے حکم پر سفید ریش بزرگوں،نوجوانوں ،باپردہ بچیوں کو بے دردی سے گھسیٹا گیا۔۔۔کیسی بے دردی سے ،کتنی آسانی سے یہ لاشیں گرا دی گئیں۔

کتنے خاندانوں کا نقصان کر دیا گیا۔مہذب معاشرہ تو پھر مہذب معاشرہ ہوتا ہے،کسی بدترین معاشرے میں بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ایسی جمہوریت اور ایسی جمہوریت کے ثمرات پر لعنت ہی بھیجی جا سکتی ہے۔کیا یہ ہے جمہوریت اور جمہوریت کا اصل چہرہ۔۔۔۔؟یہ ظلم ظالموں نے جمہوری دور میں کیا درحقیقت جمہوریت پر ہی کیا۔
یہ 17جون 2014کا دن ہے لاہور کے خوبصورت علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القران سیکٹریٹ کے باہر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو پولیس نے ہٹانے کی کوشش کی،یاد رہے یہ وہی رکاوٹیں ہیں جو عدالت کے حکم پر کھڑی کی گئیں تھیں۔

جواز یہ کہ رہائشیوں نے شکایات تھیں اس لئے رکاوٹیں ہٹانا ضروری ٹھہرا۔وہی رکاوٹیں جو کئی سالوں سے موجود تھیں لیکن کسی نے شکایت نہ کی۔اب ٹھیک اس وقت جب چند دن بعد ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان واپس آرہے ہیں۔یہ رکاوٹیں حکومت وقت کو اتنی ناگوار گزریں کہ ان کو ہٹاتے ہٹاتے نو جانیں لے لیں۔میں شروع دن سے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے فلسفہ انقلاب کا سب سے بڑا ناقد رہا ہوں۔

لیکن پاکستان میں احتجاج کرنے کا حق ڈاکٹر طاہر القادری کو آئین نے دیا ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا جائزہ لیں تو یہ معاملہ اتنا سادہ نظر نہیں آتا کہ صرف حفاظتی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے پولیس گولیاں چلا دے۔پولیس ذرائع کے مطابق فائرنگ کی ابتدا سیکٹریٹ کے اندر سے ہوئی کسی بھی طرح اس دعوے میں سچائی کے رنگ نہیں بھرے جا سکتے۔

اس موقع پر گلو بٹ نے ہمارے معاشرے کی صحیح ترجمانی کی جس طرح وہ سینکڑوں پولیس والوں اور میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اپنی نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے املاک کو نقصان پہنچاتا رہا یہ ہمارے لیے المیہ ہے۔پولیس بجائے گلو بٹ کو گرفتار کرنے کے اسے شاباشی دیتی رہی۔اس سانحے سے پہلے کاش مقامی سیاستدان،علماء کرام اور پولیس کے نمائندوں کے ذریعے بات چیت سے یہ معاملہ حل کر لیا جاتا تو اتنی بے گناہ جانیں نہ جاتیں۔

ہمارے ہاں انصاف بھی تب تک حرکت میں نہیں آتا جب تک دو چار لاشیں نہ گر جائیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر لگی یہ رکاوٹیں تو حکومت کو نظر آگئیں۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا لاہور میں ڈیفنس،گلبرگ،ماڈل ٹاؤن میں موجود رہائش گاہوں کی رکاوٹیں بھی اس واقعے کے بعد ہٹادی جائیں گی۔۔؟اگر ایک رہائش گاہ کے باہر کھڑی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے اتنی جانیں لی جا سکتی ہیں تو باقی سینکڑوں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کتنی لاشیں اور گرائی جائیں گی۔

۔؟اس سانحے کے بعدوفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق جو ایک شہیدکے فرزند ہیں بجائے اس کہ افسوس کا اظہار کرتے ہمدردی کا کوئی بیان ریکارڈ پر لے کر آتے۔لٹھ لے کے قادری صاحب کے پیچھے پڑگئے۔خواجہ صاحب خدانخواستہ وہ بسمہ آپ کی بیٹی ہوتی جس کی ماں اور خالہ کی جانیں چلی گئیں تو پھر بھی آپ لپک کر میڈیا پر بیان بازیاں کرتے ۔حضور والا غلطیاں نہیں ،غلطیوں پر اصرار خوفناک تباہی کا باعث بنتا ہے۔

خوشیاں نہیں دے سکتے تو کم از کم زخموں پر نمک بھی مت ڈالیے۔۔۔!بسمہ میں آج بھی تمہاری سسکیاں سن رہا ہوں ،یہ تم پر گزری ہے اس تکلیف کو بس تم ہی محسوس کر سکتی ہو۔بسمہ بہن انھوں نے صرف تمہیں نہیں کہیں ماؤں کو تڑپایا ہے،کئی بہنوں پر ظلم ڈھایا ہے،کئی بھائیوں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔آج یہ دکھ اور درد سے بھری صدائیں مجھے میرے اندر سے آتی محسوس ہو رہی ہیں۔

آج بھی وہ تصویر اچانک میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے جس میں امداد دینے والے اہلکار نوجوان کو طبی امداد دینے کے لیے کندھوں پر اٹھا کر لے جارہے ہیں اور پولیس کا جوان اس نیم مردہ نوجوان کو ڈنڈے مار رہا ہے وہ نوجوان بھی بعد میں جان کی بازی ہار جاتا ہے۔یہ سارے مناظر میری رگوں میں سرایت کر رہے ہیں۔لیکن میں بے بس ہوں یہ ملک ہر طرف سے گلو بٹوں کے نرغے میں ہے۔مزید بربادیاں اور تباہیاں تب تک کے لیے ہمارے مقدر میں لکھی جا چکی ہیں جب تک ہم ان گلو بٹوں سے چھٹکارا نہیں پالیتے۔
آج بھی لہو جیسے حلق میں اتر آیا ہے اور میرے پاس اس لہو کو سینے میں اتارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔۔۔!
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :