مسئلہ کشمیر پر مودی کا مون بھرت…!

جمعہ 20 جون 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

گو کہ بی جے پی کی سرکار بننے کے امکانات روشن ہونے پر بعض حلقوں نے مسئلہ کشمیر کو لیکر ”جرأت مندانہ“اپروچ کی توقع کرتے ہوئے متعلقین میں ایک موہوم سی اُمید پیدا کر دی تھی تاہم مودی سرکار کے با ضابطہ معرضِ وجود میں آنے پر یہ اُمیدیں خاک ہونے لگی ہیں۔ سرکار کے پہلے دن ہی جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے دفعہ370کو ختم کر دئے جانے کے ارادوں کے پریشان کُن انکشاف کے بعد اب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدرِ ہند کے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہ ہونے سے وہ سبھی اُمیدیں کافور ہونے لگی ہیں کہ جن کا کشمیر میں بھرپور اظہار نہ ہونے کے باوجود بھی ”بڑا شور“سنائی دینے لگا تھا۔


9جون کو صدرِ ہند پرنب مکھرجی نے نریندر مودی کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے پہلے مشترکہ اجلاس سے روایتی خطاب کرتے ہوئے سرکاری پالیسیوں کے خدوخال بیان کئے اور اُن منزلوں کا نقشِ راہ پیش کیا کہ جنہیں نئی حکومت طے کرنا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

مکھرجی نے مہنگائی اور بدعنوانی روکنے کو نئی حکومت کی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ ”اُنکی سرکار“ خواتین کے خلاف تشدد، دہشت گردی، انتہاپسندی اور فسادات کے سلسلے میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائے گی۔

خواتین و حضرات سے لیکر پیرو اطفال تک سبھی کے لئے آسمان سے تارے توڑ لانے کے جیسے وعدوں کے ساتھ اُنہوں نے کہا کہ حکومت اقلیتوں میں جدید اور تکنیکی تعلیم کے فروغ کے لئے موثر اقدامات کرے گی۔ تاہم صدارتی خطبے میں کشمیر کے ”سیاسی و انتظامی“ معاملات پر بالکل خاموشی اختیار کی گئی تھی جو کہ ”روایت“کے خلاف بھی تھا اور حیران کُن بھی۔

در اصل یہ برسوں بعدپہلا موقعہ ہے کہ جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران کشمیر کے بارے میں حکومتی موقف کی کوئی بھی آرا سامنے نہیں آئی ہے۔
صدر نیاپنی تقریر میں کہا کہ ملک کے عوام نے ذات ، مسلک، علاقہ اور مذہب کی سرحدوں کو توڑ کر بہتر نظم حکومت کے ذریعہ ترقی کے لئے فیصلہ کن مینڈیٹ دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا”ہمیں ان بڑی اُمنگوں کو پورا کرنے پر کھرا اُترنا ہوگا، تاکہ اب سے 60 ماہ کے بعد ہم یقین اور فخر سے یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں کہ ہم نے یہ کر دکھایا ہے“۔

صدر نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطاب میں واضح لفظوں میں کہا کہ بدعنوانی، دہشت گردی، انتہاپسندی، فسادات اور خواتین کے خلاف تشدد کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انصاف میں تاخیر کو انصاف نہیں ملنے سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت نے زیرالتوا معاملات کو نمٹانے کے لئے عدالت کے کام کاج کی صلاحیت میں سدھار لانے کا بھی اعلان کیا۔

پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے یہ خطاب جامع بھی تھا اور مفصل بھی۔ اس میں سرکار کا تقریباََ ہر چھوٹا اور بڑا ارادہ کہیں اشارتاََ اور کہیں وضاحتاََ شامل پایا گیا لیکن مسئلہٴ کشمیر اور کشمیریوں کے حالات پر یوں خاموشی اختیار کی گئی تھی کہ جیسے ”بھارت کا اٹوٹ انگ“نہ جانے کب کا کٹ کر الگ ہو گیا ہویا پھر یہاں باقی ریاستوں کی ہی طرح کوئی بڑا سیاسی تنازعہ موجود ہی نہیں ہو۔


اگرچہ صدارتی خطبے میں وادیٴ کشمیر چھوڑ کر دیگر شہروں میں آباد ہوئے کشمیری ہندووٴں(پنڈتوں)کو واپس وادی لاکر اُنکی یہاں باز آبادکاری سے متعلق مفصل اور (پنڈتوں کے لئے)دلربا باتیں کی گئی ہیں تاہم کشمیر کے بنیادی مسئلے اور یہاں کی اکثریت کو درپیش صورتحال کے بارے میں کوئی لب کُشائی نہیں کی گئی تھی۔چناچہ کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کی باتیں کرنا یا اس سمت میں کوششیں کرنا قابلِ اعتراض نہیں ہو سکتا ہے۔

اس مسئلے پر وادیٴ کشمیر کے مسلمانوں نے نہ کبھی اعتراض کیا تھا اور نہ ہی اس حوالے سے انہوں نے کبھی کسی طرح کے روڑے اٹکائے۔بلکہ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا اس بات کے اعتراف میں مفصل کہانیاں بیان کر چکا ہے کہ تشدد،مارا ماری اور اس طرح کی دیگر پریشانیوں کے باوجود کشمیری مسلمان اُن ہندووٴں کا کس طرح خیال رکھتے آرہے ہیں کہ جو ملی ٹینسی کی شروعات میں اپنی برادری کے ہمنوا نہ ہوکر اپنی زمین کے ساتھ جڑے رہے۔

لہٰذا جب صدارتی خطبے میں پنڈتوں کی واپسی کے بارے میں کافی باتیں ہوں تو اس پر وادی کی اکثریت کو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ عام لوگ تو عام علیٰحدگی پسند اور روپوش ملی ٹینٹ تک کبھی پنڈتوں کی گھر واپسی پر معترض نہیں رہے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر محض پنڈتوں کی گھر واپسی کا مسئلہ نہیں ہے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ پنڈتوں کا وادی چھوڑ کر چلے جانا اور اب اُنکی گھر واپسی مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ یہ مسئلہ کشمیر سے جُڑا ہوا ایک ضمنی اور ایک ایسا معمولی معاملہ ہے کہ جسے ،خود پنڈتوں اور سرکار میں خلوص ہو تو،کسی سیاست گری کے بغیر نپٹایا جا سکتا ہے۔

پھر اس حوالے سے بی جے پی کی حکومت پہلی نہیں ہے کہ جو کوئی قلعہ فتح کرنے جا رہی ہو بلکہ سابق یوپی اے حکومت نے بھی باضابطہ طوراس حوالے سے ایک پالیسی کا اعلان کیا ہوا تھا۔موجودہ حکومت در اصل سابق حکومت کے ہی لگائے ہوئے بوٹے کی آبپاشی کرتے ہوئے اسے شجر بنانے کے لئے کوشاں ہے جو ایک خوش آئیندہ بات تو ہے لیکن کشمیر کے اکثریتی طبقے کو ،مسئلہ کشمیر کے التواء میں رہنے کی وجہ سے،درپیش صورتحال پر خاموشی نے بہر حال ایک مایوسی اور تشویش کی لہر دوڑاتے ہوئے بے چین کر دینے والے خدشات کو جنم دیا ہے۔


گوکہ صدارتی خطبے میں کشمیر کا تذکرہ نہ کرنے سے ہی مسئلہ کشمیر کی سمت میں کسی پیشرفت یا اس پر ”فوکس“کئے جانے کے سبھی امکانات ختم تو نہیں ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ابتدائی دنوں میں اس طرح کی حوصلہ شکن حرکتیں اُس سرکار کی کارکردگی ہے کہ جس سے بعض لوگ Out of Boxچیزوں کی توقع کرنے لگے تھے۔اور تو اور علیٰحدگی پسندوں کے ایک دھڑے کے لیڈر مولوی عمر فاروق نے مارچ کے دوسرے ہفتے میں تب غیر محسوس انداز میں نریندر مودی کی غیر محسوس انداز میں تب حمایت کی تھی کہ جب اُنہوں نے یوپی اے اور این ڈی اے میں موازنہ کرتے ہوئے آخر الذکر کی حکومت کو بہتر بتایا تھا۔

مولوی عمر فاروق کا یہ بیان سرینگر سے نئی دلی اور اسلام آباد سے امریکہ تک کے اخباروں کی سُرخیوں میں پڑھا گیا کہ اُنکے نزدیک بی جے پی کی سابق مرکزی سرکار یو پی اے سرکار سے بہت بہتر تھی۔سرکردہ علیٰحدگی پسند لیڈر کا کہناتھا کہ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے کافی کوششیں کی تھیں۔حریت کانفرنس (ع)کے لیڈر اس اُمید کے حامل تھے کہ این ڈی اے کے اقتدار میں لوٹنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پیشرفت ممکن ہو سکتی ہے۔

نئی دلی کی ایک ٹیلی ویژن چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں مولوی عمر فاروق نے یو پی اے کے مقابلے میں این ڈی اے کی وضاحت کے ساتھ تعریفیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ اُمید کرتے ہیں کہ پھر سے اقتدار میں آنے کی صورت میں این ڈی اے کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔۔عمر فاروق نے اٹل بہاری واجپائی کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنکے دور ِ اقتدارمیں ایسے کئی اقدامات دیکھنے میں آئے تھے کہ جن سے کشمیری عوام کو ایک مثبت پیغام ملا تھا۔

اُنکے الفاظ میں”جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے این ڈی اے نے کئی اقدامات کئے تھے جبکہ(تب) موجودہ یو پی اے حکومت نے کوئی بڑا اقدام نہیں کیا ہے“۔یاد رہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے دورِ حکومت میں نہ صرف مرکز نے سرینگر -مظفر آباد بس سروس کی شروعات سمیت اعتماد سازی کے کئی اقدامات کئے تھے بلکہ اُنہوں نے خود پاکستان جاکر ہمسائیہ ملک کے ساتھ دوستی کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بڑھنے کے واضح اشارے دئے تھے۔


مولوی عمر کے بیان کے فوری ردِ عمل میں بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کی بہتر پالیسیوں کو عوام میں وسیع مقبولیت حاصل ہوئی ہیں اور مولوی عمر کا بیان اسی مقبولیت کا نتیجہ ہے۔پارٹی کے سینئر لیڈر چمن لال گپتا نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا”مولوی عمر فاروق کا بیان خوش آئیندہ ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ بی جے پی کی پالیسیوں کی مقبولیت کا مظہر بھی“۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس طرح کی مدبرانہ قیادت فراہم کی تھی کہ جسکی مخالفین بھی تعریفیں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔چمن لال گپتا نے کہا”واجپائی جی کی سبھی پالیسیوں کو من و عن اپنانے اور عملانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی بھی ختم ہو جائے اور مسائل کے حل کی سبیل بھی ہو جائے“۔

ہر آن جارحانہ طرزِ تخاطب اپنانے کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے چلتی آرہی بی جے پی کے سینئر لیڈر نے مزید کہا”مسائل کو فقط گفتار سے ہی حل کیا جا سکتا ہے نہ کہ تشدد سے“۔چمن لال گپتا ہی نہیں بلکہ پارٹی کے مرکزی ترجمان سیتا رمن بھی مولوی عمر کے بیان کے اگلے ہی دن مفصل بیان میں وعدہ کر گئے کہ پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں اٹل بہاری واجپائی کے ایام کو لوٹا یا جائے گا کہ جب مسئلہ کشمیر سمیت ہندوپاک کے سبھی مسائل کو لیکر دونوں ملکوں کے علاوہ دلی اور سرینگر کے درمیان خوب ملاقاتیں اور ڈھیر ساری باتیں ہوتی تھیں۔

اسی اثنا میں بی جے پی کے اُمیدوار برائے وزارتِ عظمیٰ کی حیثیت سے جموں کا یکروزہ دورہ کرنے کے دوران خود نریندر مودی بزبانِ خود یہ وعدہ کر گئے تھے کہ اُنہیں اقتدار ملا تو وہ این ڈی اے کی واجپائی کی قیادت والی سرکار کی پالیسیوں کا احیاء کر کے کشمیر کی تقدیر بدل دینگے۔مودی نے کہاتھا”ہم واجپائی کے دکھائے ہوئے انسانیت،جمہوریت اور کشمیریت کے راستے پر آگے بڑھیں گے“۔

وزیرِ اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے نریندر مودی نے واجپائی سرکار کو مزید وقت نہ ملنے کو کشمیر کی بد نصیبی کے بطور پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر واجپائی کو مزید پانچ سال کا موقعہ ملا ہوتا تو کشمیر کا چہرہ بدل گیا ہوتا اور اسکے مسائل ختم ہو گئے ہوتے۔
خوداٹل بہاری واجپائی کی جس ”کشمیر پالیسی“کو کچھ اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے اُنہوں نے کشمیر کو ”آزاد“چھوڑ دینے کا منصوبہ بنایا ہو،وہ کیا تھا…اس بارے میں ٹھوس انداز میں کہیں کوئی نقشہ راہ شائد موجود بھی نہیں ہے۔

بلکہ ،جیسا کہ مبصرین کہتے ہیں،واجپائی نے ڈیڑھ دہائی قبل سرینگر میں بطورِ وزیر اعظم ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران آئینِ ہند کے دائرے کی بجائے ”انسانیت کے دائرے“کی وسیع المعنیٰ اصطلاح کا استعمال کر کے مختلف لوگوں کو مختلف خطوط پر سوچنے کے لئے آزاد چھوڑ دیاتھا۔چناچہ لوگ آج بھی اس ”آزادی“کا استعمال کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کے بیان کو اپنی پسند کا جامہ پہنا کر چلتے آ رہے ہیں۔

نریندر مودی نے اُنکی باری آنے پر ٹھیک اُسی طرح اٹل بہاری واجپائی کے راستے کشمیر جانے کی بات کہی کہ جس غیر واضح انداز میں خود واجپائی نے اپنی ”کشمیر پالیسی“کا تعارف کرایا تھا۔ظاہر ہے کہ واضح نہ سہی لیکن متعلقین میں کچھ کچھ اُمیدیں ضرور پیدا ہو نے لگی تھیں۔پھر اپنی تقریبِ حلف برداری میں پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کو مدعو کرنے اور اُنکے ساتھ” ماں کا پیار “بانٹ کر مودی نے ان اُمیدوں کو مزید روشن کر دیا تھا لیکن اُنکی سرکار ابھی پوری طرح اپنا دربار سجا بھی نہیں پائی ہے کہ اس نے اُمیدیں تو دور انکے برعکس صورتحال پیدا کرنا شروع کر دی ہے۔

مودی کے ایک جونیئر وزیر جیتندرا سنگھ نے سرکار کے پہلے ہی دن آئینِ ہند کی دفعہ370کے خاتمہ کے ارادے ظاہر کر کے بے چینی کی ایسی لہر جاری کر دی ہے کہ جو ابھی اور نہ جانے کب تک تھمنے کا نام ہی نہیں لے گی اور اب صدرِ ہند کے خطاب میں کشمیر کے تذکرہ کو ہذف کر کے مایوسی و تشویش کی لہروں کو اور بھی گہرا کر دیا گیا ہے۔چناچہ اگر خود نریندر مودی واجپائی کی سرکار کو مزید مہلت نہ ملنے کو بد نصیبی کا نام دیتے ہیں تو اُنکے خود وزیرِ اعظم بننے کے فوری بعد کشمیریوں کو ملنے والی حیرانگی بھی کسی بد نصیبی سے کم نہیں ہو سکتی ہے۔


ہندوستان میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب اس طرح سے رسمی ہوتا ہے کہ مشمولات صدرِ مملکت کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ اپنی منصبی ذمہ داری کے تحت وہ وزیرِ اعظم کیارادوں اور اُنکی پالیسیوں کو سنا رہے ہوتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ جو بات صدارتی خطبے میں شامل نہ ہو اپنے دورِ اقتدار میں سرکار اُسے اپنے ایجنڈا میں شامل ہی نہیں کر سکتی ہو،لیکن اتنا ضرور ہے کہ پہلے کشمیریوں کی اُمنگوں کے برعکس 370کے خاتمہ کی باتیں کرنے میں عجلت دکھانا اور پھر روایات و توقعات کے برعکس صدارتی خطبے میں سے کشمیر کے تذکرہ کو ختم کرنا سرکار کے بارے میں یہ واضح کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اسکے لئے ترجیحات میں نہیں ہے۔

پھر یہ سب ایسے میں ہو رہا ہے کہ جب وادیٴ کشمیر کی سبھی تین سیٹیں جیت چکی پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)نے لوگوں سے پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر خصوصی سیشن بھلوائے جانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ 87سیٹوں والی جموں و کشمیراسمبلی میں کم از کم 44ممبران بھیجنے کی حکمتِ عملی پر کام کرنے والی اس پارٹی نے صدارتی خطبے میں کشمیر کا تذکرہ نہ ہونے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے دو ترمیمات پیش کر دی ہیں۔

ان ترامیم کا کیا ہوگا،معلوم نہیں ہے ممکن ہے کہ سرکار ایک مختصر بیان جاری کر کے یہ کہدے کہ صدارتی خطبے میں تذکرہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سرکار کشمیر پر سوچ ہی نہیں رہی ہے لیکن اتنا واضح ہے کہ مودی سرکار نے اپنے ابتدائی ایام میں ہی ”زباں بندی“کر کے ایک طرح سے نفسیاتی دباوٴ کی پالیسی اپنانا شروع کی ہے،حالانکہ اس سے ایک طرف جموں و کشمیر میں بی جے پی کی دوست جماعت مانی جارہی پی ڈی پی کے لئے مسائل پیدا ہونگے ،کہ پارٹی پارلیمنٹ میں ”کشمیر اسپیشل“کا وعدہ کر چکی ہے جبکہ سرکار اس موضوع پر رسمی تذکرے کے لئے بھی تیار نہیں دکھائی دے رہی ہے، تو دوسری جانب اُن لوگوں کو بہانہ مل جائے گا کہ جو مذاکراتی سیاست سے نہ صرف خود مایوس ہیں بلکہ لوگوں کو بھی اس طرح کا سبق پڑھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ”متبادل راستوں“کے لئے تیار کرتے رہنا چاہتے ہیں۔

کیا مودی سرکار ایک اور موڈ لیکر اُن اُمیدوں کو برقرار رکھے گی کہ جو،غلطی سے ہی سہی، اس سے وابستہ ہونے لگی تھیں یا کرائی جانے لگی تھی؟یا پھر مذاکرات سے مایوس مذکورہ بالا طبقے کی جیت ہوگی…آنے والا کل ہی بتا پائے گا!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :