جو حلال تھا وہ حرام ہے

جمعہ 20 جون 2014

Yede Beza K Qalam Se

ید بیضاء کے قلم سے

پتہ نہیں پہلے زمانے کے لوگوں کی نظر کمزور تھی یا یہ حلال حرام تھوڑا ہومیوپیتھک تھا ۔
اب تو حلال حرام کا دیسی ڈاکٹر وہ ڈوز دیتا ہے کہ انٹی بائیوٹک ایک ملی گرام "بی ڈی" بھی عاجز ہے ۔
اور مریض بدقسمتی سے کسی مخالف فرقے کا ہو تو سیدھا سٹیرائڈ چڑھا دیتا ہے۔
میرا پس منظر دیہات کا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے دیہات میں کچھ رسمیں ہوا کرتی تھیں۔

ہماری شادیوں میں ایک رقص ہوتا تھاجس کو ہم" اتنڑ "کہتے ہیں۔ اس" اتنڑ "کی صف کے شروع میں ہمارے گاؤں کے مولوی صاحب ہوتے تھے۔
گاؤں میں ایک چرواہا ہوا کرتا تھا جو سارے گاؤں کی بھیڑ بکریاں پہاڑوں چراتا تھا اور رات کو ایک میدان میں وہ چروا ہا بانسری بجاتا ۔پورے گاؤں کو چرواہے کی بانسری کا انتظار ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

یہ بانسری ہمارے بچپن کی لوری تھی۔

اور ہمارے بوڑہوں کی" لیگزاٹنل " ہوا کرتی تھی
ہر جمعرات کی رات گاؤں کے سارے نوجوان میدان میں جمع ہوتے تو مسجد میں رہنے والے طالب ایک"بانڈار "کرتے تھے۔ بانڈار کو آپ غزل نائیٹ سمجھ لیں۔ ان طالبان میں کمال کے سوز رکہنے والے طالب ہوتے تھے۔ ڈھولک کی طرح ایک انسٹرومنٹ ہوا کرتا تھا جس کو "دریا " کہا جاتا تھا اور اس کے بجانے والے طالب بہت بڑے استاد سمجھے جاتے تھے اور اکثر آس پاس کے دیہات سے بلائے جاتے تھے۔

اسی محفل میں کبھی کبھی مولوی صاحب بھی شریک ہوتے۔ اور جس دن مولوی صاحب ہوتے اس دن گاؤں کے بڑے بوڑھے سارے آتے تھے کیونکہ مولوی صاحب سیف الملوک کی طرز پر قصہ یوسف و زلیخا اس ترنم میں گاتے کہ سب مدہوش سے ہو جاتے۔ اور پھر چرواہے کی "بانسری "یا "رباب " سماں باندھ دیتا تھا۔
شادیوں پر عورتیں یہی دریا بجاتی تھیں۔ کئی مرتبہ تو مجھے خود یاد ہے کہ مولوی صاحب ہم بچوں کو کسی شادی والے گہر پیغام دیتے کہ تھوڑی دیر کے لیے دریا بند کرو میں آذان دینے والا ہوں۔


رمضان کی آمد پر تو ہم بچوں خوشی کی انتہا نہیں ہوتی تھی۔ گاوں میں بجلی تو نہیں۔۔ نہ ہی الارم گھڑی ابھی آئی تھی۔۔ ہوتی بھی تو ایک آدھ گھر میں۔مسجد میں ایک بیٹری سے لاوڈ سپیکر چلتا تھا۔ سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لیے کوئی طالب بہت پرسوز آواز میں نعت پڑھتا تھا جس کو گاؤں کے لوگ "صلوٰة " تھے۔ صلوٰة کے علاوہ ہماری دوسری پسندیدہ چیز ستائیسویں رمضان پر ختم قرآن پر مٹھائی کی تقسیم تھی جو گاؤں کے لوگ پیسے جمع کر کے لاتے تھے اور سارے گاؤں میں بانٹتے تھے۔

۔
پھرعید آتی اور اس کی خوشی کے تو کیا کہنے۔ عید کے دن ہماری مسجد میں صبح کی جماعت کے بعد سارے لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر عید کی مبارکباد دیتے۔ جو جس سے بھی ناراض ہوتا اس دن صلح ہو جاتی بغیر کسی تکرار اور پنچائیت کے۔ عید پر ہماری ایک مشہور رسم انڈے لڑانے کی ہوتی تھی۔ ہر گھر میں استطاعت کے مطابق انڈے ابالے جاتے تھے۔ پھراس پر خوبصورت رنگوں سے کشیدہ کاری کی جاتی۔

اور عید کے دن ہم بچوں بڑوں سب میں تقسیم ہوتے۔ پھر ہم وہ انڈے لڑاتے۔ انڈہ لڑانا بہت آسان کھیل تھا۔ ایک انڈہ دوسرے پر مارا جاتا اور جس کا انڈا ٹوٹ جاتا وہ ہار جاتا ( ٹوٹا ہوا انڈہ جیتنے والے کو مل جاتا )
عورتوں کی چوڑیوں کے لیے خصوصی طور پر ایک آدمی شہر بھیجا جاتا اور وہ کارٹن کے حساب سے چوڑیاں لاتا اور گاؤں کی ساری عورتیں رمضان کی آخری رات چوڑیاں پہنتیں۔


کچی مسجد۔۔۔۔ کشادہ دل لوگ۔۔۔۔ہنسی خوشی۔۔۔۔امن سکون۔۔عورتوں کا "گودر "جانا اور مٹکوں میں پانی بھر کے لانا۔۔۔
پورے گاؤں میں صرف ایک اباجی کی تھری ناٹ تھری کی بندوق تھی۔ جو صرف اس دن کام آتی جب کسی کے گھر بچہ ہوتا تو وہ ابا جی بندوق لے جا کر تین فائر کرتا۔ اور فائر کرنے والے کو بچے کی دادی ایک دیسی مرغا تحفے میں دیتی۔ یا پھر کسی کا نکاح پڑھایا جاتا تو تین فائر ہوتے تھے اس کے علاوہ ابا کی بندوق کی کبھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔


بندوق کی گولی کی آواز مہینے دو میں سننے والوں کے لیے خوشی کا سامان ہوتا تھا۔
لیکن پھروقت بدل گیا۔۔۔ہم نے سنا کہ افغانستان میں "سرخ کافر " آگئے ہیں اور سرخ کافروں کے خلاف جہاد شروع ہو گیا ہے۔
گاؤں میں بندوق کی جگہ کلاشنکوف نے لے لی اور ہر مہینے گاؤں میں جنازے آنے لگے،عورتیں سہم گئی،بچے ڈر گئے، چرواہے نے بانسری بجانا بند کر دی۔

۔۔
طالب جہاد پر چلے گئے،دریا بجانا چھوڑ دیا گیا،ابا کی بندوق اب خوشی کے تین فائر نہیں کرتی تھی،مولوی صاحب نے اتنڑ میں شرکت سے معذرت کر لی، پورے گاؤں سے خوشیاں کوچ کر گئیں۔
پتہ نہیں وقت بدل گیا یا پھر دین بدل گیا۔سب سے پہلے لاوڈ سپیکر غنڈہ ہو گیا۔
اب اس میں سے میٹھے سروں والے صلوٰة سنائی نہیں دیتے تھے۔ بلکہ کانوں میں زہر اگلتا تھا ۔


ہمارے گاؤں میں نہ کافر ہیں،نہ مشرک ہیں نہ طاغوت ہیں،نہ لارڈ میکالے ہے،نہ عراق کا تیل یہاں سے نکلتا ہے،نہ خمینی رہتا ہے،نہ حامد کرزئی کی قراقلی ہے،نہ اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہے،نہ کوئی اسلاف کو جانتا ہے،نہ اسلاف دشمنی ہے۔
لیکن ہمارا لاوڈ سپیکر روز کافروں، مشرکوں طاغوتوں، لارڈ میکالوں اور ان کے ہمنواوں کو نقد نقد سناتا ہے۔

۔بلکہ اب تو معاملہ جمعے جمعے سے روز روز پر آ گیا ۔
عراق کے تیل کا مقدمہ ہمارا لاوڈ سپیکر لڑتا ہے،خمینی پر لعنت بھی بھیجتا ہے،حامد کرزئی کی قراقلی کی کہال اتارنے کے درپے رہتا ہے،اقوام متحدہ ہمارے گاؤں کا بہت بڑا دشمن ہے۔
اور اسلاف شاید ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کچھ لوگوں کے نام ہوں گے اور جو بھی ان سے روگردانی کی سوچتا ہے،ہمارا لاوڈ سپیکر اس پر چار حرف بھیجتا ہے
بس،پھر اس کے بعدرسمیں ذبح ہونے لگیں،رباب اور بانسری کافر ہو گئے،رمضان کی صلوٰة مشرک ہو گئیں،ختم قرآن کے لڈوں نے بدعت شروع کر دی،عید کے دن مسجد میں گلے ملنا حرام ہو گیا، ہمارے انڈے لڑانا "سُود "ہو گیا۔


پتہ نہیں حلال حرام بدل گیا یا لوگوں کی نظریں کمزور ہو گئیں۔
نماز پہلے بھی ہوتی تھی،روزہ پہلے بھی لوگ رکہتے تھے،حج پہلے بھی کرتے تھے،عورتیں پہلے بھی پردہ کرتی تھیں،ایمانیات پورے گاؤں کو یاد تھے، سُود پورے گاؤں میں نہیں تھا، پھر کیا بدل گیا؟؟؟
رمضان آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے گاؤں جانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ گاؤں جا کر ؟
وہ چرواہا نہیں ہے جو بانسری بجاتا تھا۔

۔ ۔ ۔
وہ طالب نہیں ہے جو بانڈار کرتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مولوی صاحب نہیں ہے جو سیف الملوک سناتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شادی پر اب دریا نہیں بجتا ۔ ۔ ۔ ۔
ستائیسویں پر اب لڈو نہیں تقسیم ہوتے ۔ ۔ ۔
مسجد میں اب عید کے دن لوگ گلے نہیں ملتے۔۔کچہریوں میں پیشیاں بھگتاتے ہیں ۔ ۔ ۔
چوڑیاں اب نہیں آتی ۔ ۔ ۔
گودر ویران ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔
اب وہاں کچرے کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں ۔

۔ ۔ ۔
بچے اب عید پر انڈے نہیں لڑائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔
ابا جی کی تھری ناٹ تھری بندوق اب خوشی کا پیغام نہیں لاتی۔ ۔ ۔ ۔
اب گاؤں کے نوجوانوں کے کاندھوں پر کلاشنکوفیں سجی ہیں اور گولی کی آواز سے دل د ہلتے ہیں ۔ ۔ ۔ ان کے لیے بانسری حرام ہے ۔۔۔۔۔
میرے لیے انسانی خون حرام ہے ۔۔۔۔
وہ بھی لڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔
میں بھی لڑ رہا ہوں ۔۔۔۔۔
اُن کی جنگ کسی ان دیکھے طاغوت کے خلاف ہے۔ ۔ ۔
میری جنگ میری خوشیوں کی واپسی کے لیے ہے۔۔ ۔
یاد رکہنا ۔ ۔ ۔ ۔
کبھی نہ کبھی تو مجھے توفیق ملے گی ۔ ۔ ۔ ۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہاری بندوقوں کے نالوں سے بانسریاں بناوں گا
کیونکہ مجھے اپنی خوشیوں کا خراج چا ہیے ۔ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :