مُشاعرے،میرا دُکھ اور کُل پاکستان مُشاعرہ ٹنڈوآدم2014

بدھ 18 جون 2014

Nadeem Gullani

ندیم گُلانی

بُہت عرصہ ہُوا ہے کہ مُشاعروں میں جانا بُہت کم کر دیا ہے،اور اس کی الگ الگ بُہت ساری وجوہات ہیں،جن میں سے کچھ وجوہات یہ ہیں کہ شاعری،افسانے، اخبارات کے لیے کالمزاور ادبی گوشے ترتیب دینے اورمستقبل میں نئی آنے والی کتابوں پہ کام کرتے رہنے سے فُرصت ہی نہیں ملتی ،اورحقیقت یہ ہے کہ لکھنے پڑھنے کی فیلڈسے تعلق رکھنے والوں کو اِس کے علاہ اِسی طرح کے اور بھی کئی روگ ہوتے ہیں ، جنہیں پالتے رہنا بھی بُہت مصروف رکھتا ہے، ویسے بھی اپنے ادبی سفر کے شروع سے لیکر اب تک اتنے مُشاعرے پڑھے ہیں کے اب یہ اشتیاق ہی نہیں رہاکہ شعر پڑھنے اور سُنانے والے کریزی شاعروں کی طرح کچھ بھی کر کہ مُشاعرے میں لازمی پُہنچا جائے،اور اخلاقً جس رائٹر کی مارکیٹ میں کئی کتابیں موجود ہوں اور وہ سب کی سب بیسٹ سیلر بھی ہوں ،اور وہ رائٹراگر اِس نسبت سے بے پناہ شُہرت بھی حاصل کر چُکا ہو ،تو میرے خیال میں اُسے اِن سارے معاملات میں کریزی ہونا بھی نہیں چاہیئے۔

(جاری ہے)


خیر․․․․․چلیں یہ تو پھر بھی ایسی وجوہات ہیں جن کو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں مینیج کِیا جا سکتا ہے،لیکن ․․․کچھ وجوہات ایسی بھی ہیں کہ جن کے ذہن میں آتے ہی دل ایک دم مُشاعروں میں جانے سے اُکتا سا جاتا ہے،مثلاً․․․،بغیر کسی ادبی کلکیولیشن کے اپنی مرضی کے یا اپنی لابی کے لوگوں کومحفل میں موجود اُنسے بڑی شخصیات پر فوقیت دے کر ذیادہ عزت اور اہمیت دینا،ایک کتاب بڑی مشکل سے سینیئر شاعروں کے ہاتھوں سے وزن بحر ٹھیک کرواکے چھپوانے والے شاعروں بالخصوص شاعراؤں کو اسٹیج پہ بُلانے سے قبل تعریفوں کے وہ پُل باندھنا کے محفل میں موجود پانچ پانچ آٹھ آٹھ منجھی ہوئی کتابیں لکھنے والے شاعر اور ادیب بھی شرما جائیں۔اور اِس پہ بے غیرتی کی حد یہ ہوتی ہے کہ اچھے سچے اور منجھے ہوئے مقبول شاعروں کو صرف اپنی لابی کا نہ ہونے اور بے جا سَر سَر نہ کرنے کی وجہ سے ایسے نمبر اور اتنے چھوٹے سے تعارف کیساتھ بُلایا جاتا ہے کہ جسے سُن کر وہ شاعر عُمر بھر اُس مشاعرے میں جانے کیلئے فیصلہ کرنے والے لمحے کو کوستا رہتا ہے۔
خیر․․․شاید ہماری بیشترادبی تنظیموں کااور جھوٹے ادبی لوگوں کا (جو کہ بُہت ذیادہ ہیں)شروع سے ہی یہ طریقہ کاراور کردار رہا ہے،لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ ادیب مُعاشرے میں حق اورسچ کو بیدار کرنے والا ہوتا ہے،ناکہ اپنی ناک کے ہاتھوں مجبور جھوٹی عزتیں دینے اور لینے والا․
کچھ دن قبل ”حلقہء یارانِ سُخن سندھ“ کے زیرِ اہتمام سندھ کے ایک شہر ٹنڈوآدم میں منعقد ہونے والے مشاعرے کا دعوت نامہ ملا،پہلے تودعوت نامہ ملتے ہی من ہی من یہی سوچا کہ کوئی بہانہ بنا کر انکار کر دوں گا،کیونکہ میں آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ آزمانا نہیں چاہتا تھا،اور نہ ہی میں یہ چاہتا تھا کہ ایک ایسی جگہ جاؤں کہ جہاں جھوٹ کا بو ل بولا جاتا ہو،اور اَدب کو اَدب کم ،اوردھندہ بناکر کمائی کا ذریعہ زیادہ بنایا جاتا ہو، اور جہاں چھوٹے کو بڑااوربڑے کو چھوٹا،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنے کی پریکٹس عام کی جاتی ہو۔کیونکہ میں اِن جھوٹے ادیبوں اور شاعروں کی یہ رَوش دیکھ دیکھ کے بیزار ہو گیا ہوں،اور اب مجھ میں سچے اور نامور ادیبوں اور شاعروں کیساتھ کی جانے والی ان ناانصافیوں کو دیکھنے کی بلکل ہمت نہیں ہے۔لیکن اپنے شہر کے ایک شاعر اور صحافی دوست جناب شاہد بھٹی اور اپنے گھر آئے ہوئے والد صاحب کے ایک بہت پُرانے دوست ریٹائرڈ صوبیدار میجر جناب امتیاز حُسین بھٹی صاحب کے اسرار کے آگے مجھے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا،اور میں نہ چاہتے ہوئے اور ہزارہا مصروفیات کے باوجوداپنے ایک عزیز دوست یاسر خان کو ساتھ لیے مشاعرے میں جا پہنچا․․․․،اور پھر ہونا کیا تھا،کچھ نیا نہیں تھا،کچھ بھی تو نیا نہیں تھا،وہی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ،وہی چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو چھوٹاکرنے کی پریکٹس جاری تھی،بڑی مشکل سے اُسوقت تک وہاں مجبوراً بیٹھنا پڑا کہ جب تک مجھے اشعار پڑھنے کے لئے بُلایا جائے،مجھے بُلایا گیا،میں نے اپنے حصے کے چند مصرعے پڑھے،کچھ دیر اپنی موجودگی دِکھائی،اور پھر چلتے مُشاعرے میں اپنے دوست کو اُٹھنے کا اِشارہ کِیا،اور کسی سے ملے بغیر ہال سے باہر نکل آیا،مجھ میں دُور دُور سے آئے ہوئے اُن سچے شاعروں اور ادیبوں کے دلوں اور ذہنوں پر اُس لمحے گُزرنے والی تکلیف دہ کیفیات کا منظر دیکھنے کی ذیادہ ہمت نہیں تھی۔آپ یقین جانیئے․․میں اُس مُشاعرے میں نہ جانے والے فیصلے کو بدل کر، جانے کا فیصلہ کرنے والے لمحے کو ابھی تک کوس رہا ہوں۔
میں نے اپنی زندگی کا پہلہ مُشاعرہ ۲۰۰۴ میں پڑھا تھا،اورمیں اِ ن دس سالوں میں ہمیشہ اس انتظار میں رہااور اپنے تئیں ہمیشہ یہ کوشش بھی کرتا رہا ،اور اُمید رکھتا رہا کہ شایدہمارے اِن شاعروں ادیبوں اور ادبی تنظیموں کی رَوش کبھی نہ کبھی بدلے گی․․․لیکن،افسوس۔۔۔،میری اُمید اور میں آج تک ناکام ہیں،اور میرے اندر کا یہ دُکھ پچھلے دس سالوں سے قائم ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ میری اِس تحریر کے بعد مجھے بُہت سی ادبی شخصیات اورادبی حلقوں کی ڈاریکٹ یا اِن ڈاریکٹ دُشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن میں سچ لکھنے اور قلم کی آبروبرقرار رکھنے کی کوشش میں کسی بھی قسم کی دُشمنی لینے کو تیار ہوں،جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
آخر میں دُعا صرف اتنی کروں گاکہ میرا اللہ اِن جھوٹے اَدیبوں اورشاعروں کو ہدایت عطا فرمائے،تاکہ یہ آنکھ کھول کے اَدب کو پڑھ سکیں ،سمجھ سکیں اور اُس پر اِس طرح عمل کر سکیں ،کہ جسکا اَدب اِن سے متقاضی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :