پاکستان میں امن عمل…اعصاب شکن جہد مسلسل

منگل 17 جون 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

کراچی ایئر پورٹ حملے نے وزیراعظم کے امن عمل کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے ۔ وزیراعظم نے بڑے صبر و تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے ۔پاکستان کے سب سے مشکل اور لانیحل مسئلے کو وقتی طور پر حل کر لیا تھا ۔کراچی ایئرپورٹ حملے نے مذاکرات کے ماحول کو جنگ زدہ بنا دیا ۔وزیراعظم نے بڑی مشکلوں سے امریکا کو ڈرون حملے بند کرانے پر مجبور کردیا تھا ۔

مگر کراچی ائرپورٹ حملے پر جب طالبان نے خود ذمہ داری قبول کرلی اور ایک نئی تنظیم اسلامک مومنٹ آف ازبکستان نے حملہ آوروں کی تصاویر بھی جاری کردی ہیں ۔تب صورتحا ل یکسر بد ل گئی ،ازبک تنظیم کی ذمہ داری قبول کرنے کی دیر تھی کہ چھ گھنٹے بعد امریکا حرکت میں آگیا۔ امریکا کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور شمالی وزیرستان پر یکے بعد دیگر ے دو ڈرون میزائل داغ دیے جس سے 16افراد مارے گئے ۔

(جاری ہے)

امریکا کی جانب سے یہ ڈرون حملے 6ماہ کے طویل وقفے کے بعد شروع ہوئے ۔امریکا نے یہ تازہ ڈرون حملے ایک ایسے وقت میں کیے جب پاکستان کی حکومت کراچی ایئرپورٹ حملے کے ہاتھوں زخموں سے چور تھی ۔امریکا نے حملے کے لیے ایسا وقت چنا جب ان حملوں کے خلاف آواز اٹھائے جانے کے امکانات انتہائی کم ہیں ۔ماضی میں نواز شریف کی حکومت نے ڈرون حملوں پر پوری دنیا کو اپنی حمایت میں کر لیا تھا اور اس احتجاج سیق اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم سے بھی ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد منظورکروالی ۔

اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کی منظوری موجودہ عالمی حالات اور امریکا کی اقوام متحدہ میں اجارہ داری کے باوجود امریکا کے مقابلے میں پاکستان کی واضح جیت تھی ۔کراچی ایئرپورٹ حملوں نے نواز شریف کی امریکا کے مقابلے میں عالمی جیت کو شکست میں بدل کر رکھ دیا ہے ۔اب جب نوازشریف ڈرون حملوں کو مداخلت قرار دیں گے تو امریکاکی تاویل مددکرنے کی ہوگی ،امریکا نے کراچی ایئرپورٹ حملے کی تحقیقات میں پاکستان کو تعاون کرنے کی بھی پیشکش کی ہے ۔

عین ممکن ہے 6ماہ بعد امریکا کے ڈرون حملے یہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے فوری تعاون ہوں ۔اس معاملے پر ہمیں ایک بندر اور انسان کی دوستی کا ایک دلچسپ واقعہ یادا ٓگیا ۔مناسبت کے پیش نظر اس واقعہ کا یہاں ذکر دلچسپی سے خالی ہو گا ۔کہاجاتا کہ پہلے وقتوں میں کسی جنگل میں ایک انسان اور بندر کی دوستی ہوگی ،گرمیوں کا موسم تھا بندر کانیا نیا دوست ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹا تھا تاکہگرمی سے بچا جا سکے ،اتنے میں اس کی بدقسمتی مکھیوں کی صورت میں سامنے آگئی ،وہ مکھیوں کو بھگا بھگا کر تنگ آگیا ،اسے نیند بھی آرہی تھی ،کبھی اونگھتا اور کبھی مکھیوں کو جھاڑتا ،یہ منظر دیکھ کر بندر دوست نے پیشکش کی کہ دوست صرف مکھیوں کو بھگانا ہے اور یہ مشکل کام نہیں میں خود کرتا ہوں بندر نے ہاتھ ہلانے شروع کردیے اور مکھیاں بھی اڑتی رہیں اور وہ دوست بھی سو گیا ،بندر ،مکھیوں کو بھاگا بھا گا کر جب تنگ آگیا تو اس نے مکھیوں کو بھگانے کے لیے پتھر اٹھا لیے ،ایک ٹھیک نشانہ بنا کر اس نے مکھی کو دے مارا مکھی اڑ گئی اور دوست لہو لوہان ہوگیا ۔

بندر کی دوستی انسان کو بہت مہنگی پڑی ،امریکا کے تازہ ڈرون حملے بھی بندر کی مکھیاں ختم کرنے کا طریقہ معلوم ہوتے ہیں ۔امریکا نے جب بھی پاکستان سے بندر جیسی ہمدردی جتائی پاکستان کو وہ مہنگی پڑی ،پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کو کاندھے پیش کیے ،امریکا سامنے بٹھا کر خود کھسک گیا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا وجود زخموں سے چور ہوتا گیا ،کراچی ایئرپورٹ حملہ بھی اس ہی نوعیت کی کارروائی ہے ۔

جنگ کا اصول ہے کہ جنگ میں فوجی کمک کو زیادہ نقصان دیا جاتا ہے، افغانستان میں طالبان پر چلنے والی گولی کن راستوں سے ہوکر گزرتی ہے ۔یہ راستے ہی اس جنگ کا ہدف ہیں ،نیٹو رسد پر حملے اس ہی نوعیت کی جوابی جنگ ہیں ۔ہم اس جنگ میں جتنے زیادہ آگے بڑھتے ہیں، اتنے ہی زیادہ دلدل میں دھنستے جاتے ہیں ۔پاک فضائیہ جب سے اس آپریشن میں شامل ہوئی ، کاروئیوں کا رخ اس کی جانب بڑھ گیا ہے ،کراچی ایئرپورٹ دہشت گرد حملے سے معلوم ہوتا ہے کہ فضائی کارروائی سے طالبان کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔

یوں لگتا ہے کہ پاک فضائیہ نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔اس معاملے پر قابل غور پہلو یہ ہے کہ کراچی ائرپورٹ پر حملہ ہوتا ہے اس کی ذمہ داری ازبکستان کے کچھ نامعلوم عناصر قبول کرتے ہیں ۔یہ لوگ طالبان کی مدد کے نام پر حملہ کردیتے ہیں ۔جوں ہی امریکا یہ صورت حال دیکھتا ہے کہ ایئرپورٹ پر ازبکوں نے حملہ کردیا ۔امریکا فوری طور پر پاکستان کی مدد کو لپک آتا ہے اور شمالی وزیرستان پر ایک کے بعد دو ڈرون بم پھوڑ دیتا ہے ۔

ان واقعات میں دونوں حملہ آور عناصر غیر ملکی ہیں ایک جانب امریکا اور دوسری جانب ازبک اور المیہ یہ کہ ان دونوں غیر ملکیوں کے حملوں میں قیامت ٹوٹتی ہے تو پاکستانیوں پر، کراچی ائر پورٹ پر حملے میں پاکستان کے معصوم شہری مارے جاتے ہیں اور امریکا کے حملے میں بھی پاکستان شہریوں کی جان جاتی ہے ۔امریکا نے دعوی تو ازبکوں کو مارنے کا کیا ہے مگر قبائلی علاقوں میں میڈیا کی پہنچ نہیں ،کون مر ا کسی کو خبر نہیں عام فہم بات یہ ہی کہ جو بھی مارا گیا وہ پاکستان کی حدود میں مارا گیا ۔

دونوں حملوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور دنوں جانب غیر ملکی ہیں ۔ہم یہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ اصل جنگ تو امریکا اور طالبان میں ہے اور یہ دونوں اصل کے لحاظ سے غیر ملکی ہیں ،جنگ افغانستان میں شروع ہوئی ،امریکا نے پاکستان کی اوٹ میں پناہ لے لی، طالبان بھی افغانستان چھوڑ کر پاکستان میں گھس آئے ۔پاکستان میں طالبان سے مذاکرات میں سب سے بڑی دورکاوٹیں طالبان کی کاروائیاں اور امریکی ڈرون حملے تھے ،طالبان کی کارروائیاں بھی پچھلے دنوں کم ہوگئیں تھیں اور امریکا نے بھی چھ ماہ تک دانتوں میں کنکریاں دابے رہا ۔

اب یہ دونوں فریق ایک بار پھر جنگ پر آمادہ ہیں ۔اور نتیجہ ماضی کی طرح بھی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے ۔جب یہ طہ ہوگیا کہ پاکستان کی بدامنی میں دونوں عناصر غیر ملکی ہیں تو ایک بار پھر لازم ہوگیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات میں مصروف رکھ کر انہیں جنگ سے باز رکھا جائے ۔پاکستان سے مذاکرات کے معاملے پر طالبان صفوں میں اتنی پھوٹ پڑی کہ آپس میں لڑ بھڑ کر سو سے زیادہ عسکریت پسنداپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے ۔

طالبان نے اپنے اختلافات ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر امن عمل کو متاثر کیا ہے ،وزیراعظم ہمت نہ ہاریں اور امن عمل کی اعصاب شکن جہد مسلسل کو جاری رکھیں تاکہ امن پسند طالبان کو بندوقیں روکے رکھنے پر آمادہ کیا جاسکے اس سے دہشت گردی کے واقعات کم سے کم رونماہونگے اور اس وقت یہ ہی حکمت عملی زیادہ موثر ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو حکمت عملی سے کم سے کم کیا جاسکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :