اعجازِ قرآن کا ایک حیرت انگیز پہلو

پیر 16 جون 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

آپ خدانخواستہ کسی پریشانی، دکھ، درد، کرب اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اور آپ کو کسی بھی طور چین اور سکون نہیں ملتا تو آپ قرآن مجید کی تلاوت کسی اچھے مجوِّد اور خوش الحان قاری کی ز بانی سننا شروع کردیں، اگر آپ کے دل میں ایمان کی ادنیٰ رمق بھی موجود ہے تو آپ کچھ ہی دیر میں اپنی روح کے اندر ایک خاص قسم کا سکون اترتا محسوس کریں گے۔

اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کو تلاوت کردہ آیات کا معنی ومفہوم بھی آتا ہو۔ قرآن کریم کو جو شفاء لِمَا فی الصدور (دل کی بیماریوں کے لیے شفا) سے تعبیر کیا گیا ہے تو یہ اپنے ظاہری وباطنی دونوں معنوں کے لحاظ سے ہے۔ یعنی قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق ومعارف جہاں انسان کے باطنی امراض کے لیے شفا کا باعث ہیں، وہیں قرآن کریم کے الفاظ وحروف کی تلاوت بھی بجائے خود باعث شفا وسکون ہے۔

(جاری ہے)


نثر اور شعر میں فرق یہ بتایا جاتا ہے کہ شعر الفاظ وحروف اور حرکات وسکنات کی ایک خاص ترتیب سے مزین ہونے کی وجہ سے ”اوقع فی النفس“ ہوتا ہے ۔یعنی انسان کے دل ودماغ پر زیادہ موٴثر طریقے سے نقش ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ سراپا اعجاز کلام ہے جو شعر نہ ہونے کے باوجود اپنا ایک خاص صوتی وجمالیاتی نظام رکھتا ہے، جس کی تاثیر کے سامنے اچھے سے اچھا شعر بھی ہیچ ہے، جس کو جتنی بار دوہرایا جائے، اس کی چاشنی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔


قرآن کریم کے اعجاز کا یہ پہلو ”علوم القرآن“ کا ایک اہم موضوع ہے ۔قرآن مجید کے اعجاز کو سمجھنے کے لیے شعر اور غیر شعر میں فرق کو سمجھنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن کریم شعر نہیں ہے۔ یہ جاننے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شعر کیا ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلامی علوم میں ”علم عروض وقوافی“ کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے، بلکہ اس علم کا شمار ”وہبی علوم“ میں ہوتا ہے۔

امام خلیل نحوی نے کعبة اللہ میں جاکر دعا کی تھی کہ یااللہ! مجھے ایسا علم عطا فرما جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہ ہوا ہو اور جو میری طرف ہی منسوب رہے۔ اس دعا کے نتیجے میں امام خلیل پر علم عروض وقوافی کا القا ہوا۔ یہاں ایک دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے شعر نہ ہونے کی صراحت کے ساتھ ساتھ ایک جگہ شعراء کی عمومی غلط روی کی مذمت بھی کی ہے۔

اس کے باوجود امام خلیل کی دعا کے جواب میں علم عروض وقوافی کا عطا ہوجانا حیرت انگیز ہے۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس علم کا قرآن کریم کے ساتھ ایک مضبوط قسم کا سلبی تعلق ہے۔ وہ یہ کہ جو شخص اس علم پر گہرا عبور حاصل کرے گا، وہی صحیح طریقے سے اس بات کو سمجھ سکے گا کہ قرآن کریم کیوں کر وہ ماورائی کلام ہے جو اپنی تاثیر اور بلاغت میں انسانوں کے وضع کردہ پیمانوں کا محتاج نہیں ہے ،بلکہ یہ اپنی ایک حیرت انگیز دنیا رکھتا ہے۔


اس بنا پر علم عروض وقوافی کو ہمارے دینی مدارس میں ہمیشہ اہتمام سے پڑھایا جاتا رہا ہے، مگر مرور زمانہ کے ساتھ جہاں دیگر بہت سے علوم سے چشم اعتنا اٹھتی جارہی ہے، وہاں اس شاندار علم کو بھی اب ہمارے ہاں ثانوی درجے کی اہمیت دی جارہی ہے، لیکن الحمدللہ !ایسے حضرات بھی موجود ہیں جنہوں نے ان متروکہ علوم کے احیا کے بِیڑا اٹھایا ہوا ہے۔

جامعة الرشید نے جہاں علم فلکیات، جغرافیہ، قضا وتحکیم جیسے علوم وفنون کو دوبارہ زندہ کردیا ،وہاں اس نے اب علم عروض وقوافی کو بھی جدید تکنیکی طریقہ تدریس کے ذریعے ایک نئے رنگ وآہنگ میں پیش کرنے کی اچھی کاوش کی ہے۔
جامعہ کے زیر اہتمام ”دورة العروض والقوافی“ کی ایک نشست میں حاضری کا اتفاق ہوا۔یہ دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی کہ ملک کے ممتاز دینی اداروں کے اساتذہ اور عربی علوم کا ذوق رکھنے والے مدرسین کی ایک بڑی تعداد اس دورے میں شریک ہے۔

ادارہٴ علوم اسلامی اسلام آباد کے رئیس اور ہمارے مخدوم محترم مولانا فیض الرحمن عثمانی پاکستان میں اس علم کے سب سے معروف ماہر ہیں۔ مولانا کی کتاب ”مذکرات فی العروض“ جدید اسلوب میں اس فن کی عمدہ ترین کتاب قرار دی جاسکتی ہے۔ مولانا کو نہ صرف عربی شاعری کے اوزان و بحور کی باریکیوں پر دسترس حاصل ہے ،بلکہ شعری تقطیع کے ساتھ ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنے میں بھی ان کا ثانی نہیں ہے۔

مولانا نے جامعة الرشید کے دورة العراض والقوافی کی تعارفی نشستوں میں جہاں بڑے وقیع لیکچر دیے، وہیں خوب صورت لحن میں اشعار پڑھنے کا ان کا انداز بھی دل موہ لینے والا تھا۔ آخری نشست میں مولانا نے خاص طورپر شعر اورقرآن کریم کے صوتی اعجاز پر گفتگو کی اور کہا کہ شعر میں حسن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس میں حرکات وسکنات کی ترتیب فنی لحاظ سے مکمل ہو، بسا اوقات ایک حرف یا حرکت کے آگے پیچھے ہوجانے سے شعر کا وزن اور آہنگ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ شعر نہیں رہتا۔

اس کے مقابلے میں قرآن کریم شعری اوزان کا پابند نہیں ہے ،مگر اس کے باوجود اس کی ہر آیت کے ہر لفظ کے ہر حرف کے اندر یہ اعجاز پایا جاتا ہے کہ جو لفظ اور حرف جہاں ہے، وہاں کوئی دوسرا لفظ یا حرف درست نہیں بیٹھتا۔ مولانا کا خیال ہے کہ اس موضوع پر مستقل کام کی ضرورت ہے اور شاید یہ اہل علم کے لیے بالکل ایک نئی دنیا ہوگی۔ مولانا نے اس ضمن میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی کتاب ”محاضرات قرآنی “کے ایک اقتباس کا حوالہ دیا۔

قارئین کی دل چسپی کے لیے یہ اقتباس پیش خدمت ہے۔ غازی صاحب لکھتے ہیں:
”…آپ نے ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کا نام سنا ہوگا، انہوں نے خود براہ راست مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ غالباً 1958-1957ء میں ایک شخص ان کے پاس آیا۔ ان کی زندگی کا یہ ایک عام معمول تھا کہ ہر روز دو چار لوگ ان کے پاس آتے اور اسلام قبول کرتے تھے۔ وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ان کو کلمہ پڑھوایا اور اسلام کا مختصر تعارف ان کے سامنے پیش کردیا۔ اپنی بعض کتابیں انہیں دے دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی شخص ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا تھا تو وہ اس سے یہ ضرور پوچھا کرتے تھے کہ اسے اسلام کی کس چیز نے متاثر کیا ہے؟
1948ء سے 1996ء تک یہ معمول رہا کہ ڈاکٹر صاحب کے دست مبارک پر اوسطاً دو افراد روزانہ اسلام قبول کیا کرتے تھے۔

عموماً لوگ اسلام کے بارے میں اپنے جو تاثرات بیان کیا کرتے تھے ،وہ ملتے جلتے ہوتے تھے۔ ان میں نسبتاً زیادہ اہم اور نئی باتوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے پاس قلم بند کرلیا کرتے تھے۔ اس شخص نے جو بات بتائی، وہ ڈاکٹر صاحب کے بقول بڑی عجیب وغریب اور منفرد نوعیت کی چیز تھی اور میرے لیے بھی بے حد حیرت انگیز تھی۔ اس نے جو کچھ کہا ،اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا ارشاد تھا کہ میں اسے بالکل نہیں سمجھا اور میں اس کے بارے میں کوئی فنی رائے نہیں دے سکتا۔

اس شخص نے بتایا: میرا نام ژاک ژیلبیر ہے۔ میں فرانسیسی بولنے والی دنیا کا سب سے بڑا موسیقار ہوں۔ میرے بنائے اور گائے ہوئے گانے فرانسیسی زبان بولنے والی دنیا میں بہت مقبول ہیں۔
آج سے چند روز قبل مجھے ایک عرب سفیر کے ہاں کھانے کی دعوت میں جانے کا موقع ملا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں سب لوگ جمع ہوچکے تھے اور نہایت خاموشی سے ایک خاص انداز کی موسیقی سن رہے تھے۔

جب میں نے وہ موسیقی سنی تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ موسیقی کی دنیا کی کوئی بہت ہی اونچی چیز ہے، جو یہ لوگ سن رہے ہیں۔ میں نے خود آوازوں کی جو دھنیں اور ان کا جو نشیب وفراز ایجاد کیا ہے ،یہ موسیقی اس سے بھی بہت آگے ہے، بلکہ موسیقی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے ابھی دنیا کو بہت وقت درکار ہے۔ میں حیران تھا کہ آخر یہ کس شخص کی ایجاد کردہ موسیقی ہوسکتی ہے اور اس کی دھنیں آخر کس نے ترتیب دی ہیں۔

جب میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ یہ دھنیں کس نے بنائی ہیں تو لوگوں نے مجھے اشارہ سے خاموش کردیا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پھر یہی بات پوچھی، لیکن وہاں موجود حاضرین نے مجھے خاموش کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے دوران میں وہ فن موسیقی کی کچھ اصطلاحات بھی استعمال کررہا تھا، جن سے میں واقف نہیں، کیوں فن موسیقی میرا میدان نہیں۔


قصہ مختصر جب وہ موسیقی ختم ہوگئی اور وہ آواز بند ہوگئی تو پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا ۔لوگوں نے بتایا کہ یہ موسیقی نہیں تھی، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور فلاں قاری کی تلاوت ہے۔ موسیقار نے کہا کہ یقینا یہ کسی قاری کی تلاوت ہوگی اور یہ قرآن ہوگا، مگر اس کی یہ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اور یہ دھنیں کس کی بنائی ہوئی ہیں؟ وہاں موجود مسلمان حاضرین نے بیک زبان وضاحت کی کہ نہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی ہیں اور نہ ہی یہ قاری صاحب موسیقی کی ابجد سے واقف ہیں۔

اس موسیقار نے جواب میں کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی نہ ہوں لیکن اسے یقین دلایا گیا کہ قرآن مجید کا کسی دھن سے یا فن موسیقی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ یہ فن تجوید ہے اور ایک بالکل الگ چیز ہے۔ اس نے پھر یہ پوچھا کہ اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ تجوید اور قراء ت کا یہ فن کب ایجاد ہوا؟ اس پر لوگوں نے بتایا کہ یہ فن تو چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو قرآن مجید عطا فرمایا تھا تو فن تجوید کے اصولوں کے ساتھ ہی عطا فرمایا تھا۔ اس پر اس موسیقار نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو قرآن مجید اسی طرح سکھایا ہے جیسا کہ میں نے ابھی سنا ہے تو پھر بلاشبہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس لیے کہ فن موسیقی کے جو قواعد اور ضوابط اس طرز قراء ت میں نظر آتے ہیں ،وہ اتنے اعلیٰ وارفع ہیں کہ دنیا ابھی وہاں تک نہیں پہنچی۔

ڈاکٹر حمیداللہ صاحب فرماتے تھے کہ میں اس کی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ بعد میں ،میں نے اور بھی قراء کی تلاوت قرآن کو سنا، مسجد میں جاکر سنا اور مختلف لوگوں سے پڑھواکر سنا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اگر یہ اللہ کی کتاب ہے تو اس کے لانے والے یقینا اللہ کے رسول تھے، اس لیے آپ مجھے مسلمان کرلیں۔


ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اسے مسلمان کرلیا لیکن میں نہیں جانتا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا تھا وہ کس حد تک درست تھا، اس لیے کہ میں اس فن کا آدمی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے ایک الجزائری مسلمان کو جو پیرس میں زیر تعلیم تھا، اس نئے موسیقار مسلمان کی دینی تعلیم کے لیے مقرر کردیا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد وہ دونوں میرے پاس آئے اور کچھ پریشان سے معلوم ہوتے تھے۔

الجزائری معلم نے مجھے بتایا کہ وہ نو مسلم قرآن مجید کے بارے میں کچھ ایسے شکوک کا اظہار کررہا ہے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ جس بنیاد پر یہ شخص ایمان لایا تھا ،وہ بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی اب اس کے شکوک کا میں کیا جواب دوں گا اور کیسے دوں گا۔لیکن اللہ کا نام لے کر پوچھا کہ بتاؤ تمہیں کیا شک ہے؟ اس نومسلم نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ بتایا تھا اور کتابوں میں بھی میں نے پڑھا ہے کہ قرآن مجید بعینہ اسی شکل میں آج موجود ہے جس شکل میں اس کے لانے والے پیغمبر علیہ الصلاة والسلام نے اسے صحابہ کرام کے سپرد کیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ اب اس نے کہا کہ ان صاحب نے مجھے اب تک جتنا قرآن مجید پڑھایا ہے ،اس میں ایک جگہ کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور حذف ہوگئی ہے۔
اس نے بتایا کہ انہوں نے مجھے سورہٴ نصر پڑھائی ہے اور اس میں افواجاً اور فسبح کے درمیان خلا ہے۔ جس طرح انہوں نے مجھے پڑھایا ہے ،وہاں افواجاً پر وقف کیا گیا ہے۔

وقف کرنے سے وہاں سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے جو نہیں ٹوٹنا چاہیے جبکہ میرا فن کہتا ہے کہ یہاں خلا نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمیں نکل گئی، اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس شبہ کا جواب کیا دیں اور کس طرح مطمئن کریں۔ کہتے ہیں کہ میں نے فوراً دنیائے اسلام پر نگاہ دوڑائی تو کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہیں آیا جو فن موسیقی سے بھی واقفیت رکھتا ہو اور تجوید بھی جانتا ہو۔


ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ چند سیکنڈ کی شش وپنج کے بعد بالکل اچانک اور یکایک میرے ذہن میں ایک پرانی بات اللہ تعالیٰ نے ڈالی کہ اپنے بچپن میں جب مکتب میں قرآن مجید پڑھا کرتا تھا تو میرے معلم نے مجھے بتایا تھا کہ افواجاً پر وقف نہیں کرنا چاہیے بلکہ افواجاً کو بعد کے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے۔ ایک مرتبہ میں نے افواجاً پر وقف کیا تھا تو اس پر انہوں نے مجھے سزا دی تھی اور سختی سے تاکید کی تھی کہ افواجاً کو آگے ملا کر پڑھا کریں۔

میں نے سوچا کہ شاید اس بات سے اس کا شبہ دور ہوجائے اور اس کو اطمینان ہوجائے۔ میں نے اسے بتایا کہ آپ کے جو پڑھانے والے ہیں، وہ تجوید کے اتنے ماہر نہیں ہیں۔ دراصل یہاں اس لفظ کو غنہ کے ساتھ آگے سے ملا کر پڑھا جائے گا۔ افواجاً فسبح۔ ڈاکٹر صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ وہ خوشی سے اچھل کر کھڑا ہوگیا اور مجھے گود میں لے کر کمرے میں ناچنے لگا اور کہنے لگا کہ واقعی ایسے ہی ہونا چاہیے۔

یہ سن کر اس کو میں نے ایک دوسرے قاری کے سپرد کردیا جس نے اس شخص کو پورے قرآن پاک کی تعلیم دی۔ وہ وقتاً فوقتا ًمجھ سے ملتا تھا اور بہت سردھنتا تھا کہ واقعی یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہ بہت اچھا مسلمان ثابت ہوا اور ایک کامیاب اسلامی زندگی گزارنے کے بعد 1970ء کے لگ بھگ اس کا انتقال ہوگیا۔
اس واقعے سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی جو صوتیات ہے، یہ علم وفن کی ایک ایسی دنیا ہے جس میں کوئی محقق آج تک نہیں اترا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کے اس پہلو پر اب تک کسی نے اس انداز سے غور وخوض کیا ہے۔

اس واقعے کے سننے تک کم از کم میرا تاثر کیا خیال بھی یہی تھا کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کو بہت اچھی طرح پڑھتا ہے، غنہ اخفا، اظہار وغیرہ کا خیال کرتا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے ،لیکن اس فن کی اتنی زیادہ اہمیت سے میں اس سے قبل واقف نہیں تھا۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ تجوید کا یہ فن بھی بے حد اہم چیز ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :