حادثات کا تسلسل اور ہماری حکمت عملی

اتوار 15 جون 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

یہ بات تو طے ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نبردآزماں ہونے کے لئے کوئی واضع حکمت عملی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔دہشت گردی کا تدارک ہو، توانائی بحران کا خاتمہ ہو یا معیشت کی بحالی کے اقدامات ،حکومت یکسر بے بس نظر آتی ہے، جبکہ طالبان سے مذاکرات پر بھی حکومت نے جہاں عوام کو کنفیوژڈ رکھا وہاں عسکری قیادت سے فاصلے بڑھنے میں بھی تقویت ملی۔

اسطرح ملک میں گاہے بگاہے رُونما ہوتے حادثات و واقعات پر حکومت نہ صرف بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے بلکہ ان حالات میں سوائے اندھیرے میں تیر چلانے کے کچھ نہیں کر پاتی۔دنیا میں بڑے بڑے فیصلے کئے جاتے ہیں مگر عمل درآمد سے پہلے اُن پر تحقیقاتی انداز میں سوچ بچار کیا جاتا ہے ،مثبت و منفی پہلو دیکھے جاتے ہیں اورمقامی سوچ کو یکجا کیا جاتا ہے پھر کہیں جا کر اُن پر عمل درآمد کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ ہم بنا سوچے سمجھے سب سے پہلے توبڑے بڑے فیصلے کر لیتے ہیں پھر جونہی صورتحال بگڑنے لگتی ہے تو واپسی کی راہ بھی فوری لیتے ہیں۔۔ پاکستان کی عوام کی یہ ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ ملک میں رونما ہوتے تمام چھوٹے بڑے حادثات و واقعات میں کہیں نہ کہیں حکمرانوں کی غفلت اور غیر سنجیدگی نمایاں رہی۔۔۔اتوار کی رات کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والا حملہ بھی اسی غیر سنجیدگی اور غفلت کا نتیجہ ہے بلکہ اب بات بے حسی یا انتہائی بے حسی تک جا پہنچی ہے۔

۔ ۔پاک فوج کے کمانڈوز، رینجرز، پولیس اور اے ایس ایف کے جوانوں نے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے اگر چہ پانچ گھنٹوں میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا مگر پاکستان کی 19قیمتی جانوں کی شہادت اور پوری دُنیا میں ہماری سکیوریٹی پر اُٹھتے سوالات انتہائی تشویش کا باعث ہیں،جبکہ حملے میں بھارتی اسلحہ کے ثبوت کے باوجود حکومت کا رویہ ایسا دکھائی دیا جیسے اُمور خارجہ حکومتی سبجیکٹ ہی نہیں ہے۔

اُدھر ائیر پورٹ کولڈ سٹو ریج میں ہلاک ہوتے شہریوں کی ہلاکت پر سول ایوی ایشن کی مجرمانہ غفلت پاکستان کی عوام کے لئے کرب کا باعث ہے۔۔ائیر پورٹ پر دہشت گردی کے اس گھناوٴنے واقعے کی ذمہ داری پہلے جیش اسلام نامی تنظیم قبول کرتی ہے پھر ترجمان کالعدم تحریک طالبان پاکستان شاہد اللہ شاہد حملے کو پاک فوج کی جانب سے اُنکے خلاف جاری کاروائیوں کا رد عمل قرار دیتے ہیں جبکہ واقعے کے تیسرے روز ایک اور نئی تنظیم اسلامی ازبک موومنٹ بھی واقعے میں ملوث ہونے کی دعویدار بن جاتی ہے۔

۔۔ایسے لگتا ہے جیسے دہشت گرد پہلے منظم طریقے سے حملے کرتے ہیں اور پھر حکمت عملی کے تحت مختلف ناموں سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف حکومت منظم فیصلہ سازی ہے اور واضع حکمت عملی نہ ہونے کے سبب دہشت گردوں سے مسلسل مات کھا رہی ہے۔
دہشت گردی کی اس قسم کی کاروائیاں پاکستان کے لئے کوئی انہونی بات نہیں، دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں شراکت کے بعد پاکستان کو درپیش دہشت گردی کی مسلسل کاروائیوں سے ملک کو وسیع پیمانے پر جانی و مالی ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔

جبکہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد عالمی جنگ کے دیگر فریقین محفوظ سے محفوظ تر ہوتے جا رہے ہیں۔پاکستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے نمائیاں واقعات میں، مناوا ں پولیس ٹریننگ کیمپ لاہور، پی این ایس کار ساز کراچی، لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ، کاکول میں کیڈٹس پر حملہ، جی ایچ کیو حملہ، پشاور ائیر پورٹ حملہ ، اقلیتوں پر حملہ اور وفاقی دارلحکومت میں ایک آدمی کا اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ د اسلام آباد کی عوام کود ہشت زدہ کرنا حکومتی عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

۔ایک دوسرا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ملک کے حساس ترین مقامات پر غیر تربیت یافتہ B-Scale طرز کے جوان تعینات کرتے ہیں،جسکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دہشت گرد اسلحہ اور گاڑی سمیت مطلوبہ جگہ پر باآسانی پہنچ جاتے ہیں اور پھر جب دہشت گرد اپنی مزموم کاروائیوں کے لئے مکمل رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو ہمیں ایک دم سے ہوش آجاتا ہے اور پھر کمانڈوز پر مبنی فورسز کیA-Scaleٹیم دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے میدان میں اُتار دی جاتی ہے، جو بھر پور مقابلے کے بعد دشمن کو زیر کرتی ہے، اگر چہ کمانڈوز کی یہ ٹیم حالات پر بحر حال قابو پا لیتی ہے مگر اُس وقت تک بہت قیمتی جانی و مالی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔

اس میں ایک دلچسپ بات یہ کہ ایسی تمام کاروائیوں میں دہشت گرد کم جبکہ ہمارے جوانوں کی جانیں زیادہ ضائع ہوتی ہیں، جسکی بنیادی وجہ سیکوریٹی کا ناقص انتظام،خراب حکمت عملی اور عدم دلچسپی ہے۔۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپنے سکیوریٹی پلانز اچھے ترتیب دے لیتی ہیں جبکہ حکومت باقاعدہ مشینری اور فورس ہونے کے باوجود اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں کے باعث ایسے اقدامات سے یکسر قاصر ہے۔

۔۔۔ ناکوں، چیک پوسٹوں ، ٹول پلازوں ، شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سیکیوریٹی کی بجائے صرف پیسے بنائے جاتے ہیں۔جس سے دہشتگردوں کو اپنی کاروائیوں کے لئے کھلا روڈ میپ مل جاتا ہے۔۔سب سے پہلے ہونے والے حملے کے بعد حکومت وقت پوری توانائی کے ساتھ ایک منظم حکمت عملی ترتیب دے پاتی تو شائد مذید حملوں کی گنجائش باقی نہ بچتی۔مگر بدقسمتی سے حساس معاملات و حالات پر حکومتی غیر محتاط رویہ اور عدم دلچسپی کے باعث دہشت گردوں کوspace ملتی رہی ،جس کے بعدا یک بعد ایک حملہ ہوتا رہا اور ہم خاموش تماشائی بنے بے حسی و بے بسی کے بانسری بجاتے رہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :