بیروزگاروں سے مذاق

بدھ 11 جون 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

گذشتہ دوتین د ن سے طبیعت ناسازتھی ایک مہربان کوپتہ چلا تو وہ دفتر دوڑے چلے آئے ‘ حال احوال معلوم کرنے کے بعد جھولی پھیلائے دعا کئے جارہے تھے ‘یہ مہربان نسبتاً بزرگ تصورکئے جاسکتے ہیں لیکن نوجوانوں کی طرح چاک وچوبند رہتے ہیں خیر ان کے ہمراہ ایک خوبصورت سا کھلنڈرا نوجوان بھی تھا ‘ نوجوان کاانداز گفتگو بیحد بھلاسا تھا ‘ پہلی نظر دیکھنے کے بعد واقعی محسوس ہوتا تھاکہ موصوف پڑھے لکھے نوجوان ہیں‘ ان صاحب نے نوجوان کاتعارف یو ں کرایا کہ یہ ہے تومیرابھتیجا ہے لیکن یہ میرابیٹاہے ‘خیر اس تعارف کی تفصیل زیادہ اہمیت کی حامل نہیں اس لئے چھوڑے دیتے ہیں‘ خیر تعلیمی مسائل کے ضمن میں گفتگو کے دوران ہم نے محسوس کیاکہ وہ نوجوان دوران گفتگو ہنستے ہنستے سنجیدہ ہوچکا تھا۔

(جاری ہے)

باتیں کرتے ہوئے باربار اس کی آنکھیں بھی نمناک ہوجاتیں‘ اس مہربان نے بتایا کہ یہ نوجوان نرسری جماعت سے لیکر آج تک (یہ نوجوان ایم اے پاس ہے )ہمیشہ فرسٹ ڈویژن میں ہی پاس ہوا ہے نہ صرف یہ بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں اس کی کارکردگی بھی قابل ستائش رہی ‘ ہم نے نوجوان کے ہاتھ سے موٹی سی وہ فائل لے لی جس میں اس کی ڈگریاں موجود تھیں۔ جنرل ایجوکیشن سے لیکر ٹیکنیکل ایجوکیشن تک اورپھر ادبی مقابلہ جات ‘ سپورٹس تک کی ڈگریاں اس کے فائل میں موجودتھیں۔

بورڈ کی طرف سے ذہانت کے سرٹیفکیٹ تو کئی مدارس کی طرف سے تعریفی الفاظ پرمبنی کاغذکے ٹکڑے(یہ لفظ ہم نہایت دکھی دل سے لکھ رہے ہیں کہ ان ڈگریوں کی حیثیت باقی نہیں رہی)بھی اس کاکریڈٹ بڑھارہے تھے۔ہم نے پوچھا کہ کہیں ملازمت کیلئے کوشش کی ؟ ہمارا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس نے ایک اورفائل ہمارے حوالے کردی‘ اس فائل میں واپڈا سے لیکر ریلوے تک ‘سبھی محکموں میں بھیجی گئی درخواستوں کی فوٹوکاپیاں موجودتھیں‘ حیرانی تو یہ دیکھ کرہوئی کہ بعض محکموں میں ترجیحاً ایف اے پاس امیدواروں کو بلایاگیالیکن اس نوجوان نے بھی اس سیٹ پردرخواست دی لیکن وہ منتخب نہ ہوسکا۔

نوجوان کے ساتھ آئے ہوئے اس مہربان نے ہمیں بتاکر حیران کردیاکہ اب تک وہ درخواستوں کے بھجوانے اورپھرانٹرویو کی ڈرامہ بازی کے نا م پرہزاروں روپے غرق کرچکے ہیں۔ بتایاگیا کہ ایک وفاقی محکمہ کی طرف سے مختلف آسامیوں پربھرتی کیلئے اشتہار شائع ہوا تو اس نوجوان نے بھی ملازمت کیلئے درخواست دیدی۔ اسے اسلام آباد بلالیاگیا ‘ یہ نوجوان احتیاطاً ایک دن پہلے اسلام آباد پہنچ گیا۔

چونکہ وہاں کوئی عزیز رشتہ دار نہیں تھا اس لئے درمیانے درجے کے ہوٹل میں اسے پناہ لیناپڑی۔ خیر انٹرویو کے مقام پر پہنچنے پرپتہ چلا کہ آج دو کٹیگریز کیلئے ہی انٹرویوہونگے ایک کٹیگری کا وہ چونکہ امیدوار تھا اس لئے وہ رک گیا۔ انٹرویوکیاہوا ؟ یہ سب کوپتہ ہے ‘ روایتی سوال جواب‘ اصلی ڈگریوں کواوپر سے نیچے تک دیکھنے کے بعد ٹائی کوٹ پہنے ان ”بڑے “ افسرا ن نے بس یہی کہا کہ آپ کو بتادیاجائیگا“ ۔

اسے انٹرویو کے مرحلے کیلئے تین گھنٹے انتظارکرناپڑا جو پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں طے پاگیا خیر باہر نکلنے پرایک بڑے سے کاغذ پر چھوٹے حروف میں امیدواروں کوآگاہ کیاگیاتھا کہ جن آسامیوں کے انٹرویو منسوخ ہوئے ہیں وہ کل ہونگے۔ نوجوان مایوسی کے عالم میں ہوٹل واپس لوٹ آیا ۔ شام تک وہ اپنے مستقبل کے بارے سوچتا رہا پھر پیٹ کی آنتوں نے جب گڑگڑانا شروع کیاتواسے یاد آیا کہ وہ صبح سے ناشتے کے نام پر ایک روٹی کھاکر گزارہ کررہا ہے ۔

خیر اس نے جیسے تیسے کھاناکھایااورپھرہوٹل کے مین ہال میں کیبل یاسی ڈی کے مزے لیتارہا رات دس بجے اپنے کمرے میں جاکر سوگیا ۔ اگلی صبح وہی روٹین ‘ لیکن اس بار انٹرویو کیلئے اسے محض دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا ۔ انٹرویو والے کمرے کاوہی انداز‘ وہی افسران‘ سبھی کچھ گویا وہی تھا خیرانہوں نے اس مرتبہ اصلی ڈگریاں دیکھنے کی زحمت نہ کی اورکہا آپ فلاں ابن فلاں ہیں‘ آپ کی حاضری ہوگئی ‘ جلد ہی آگاہ کردیاجائیگا “ یہ گفتگو ڈیڑھ منٹ سے بھی کم وقت میں ہوئی۔

وہ مایوسی کے عالم میں باہر نکلا دفتر کے دروازے پر کھڑا چپڑاسی طنزاً مسکرایا اورہاتھ کے اشارے پاس بلاکر کہا لگتاہے کہ تم ”بھکریامیانوالی“ سے آئے ہو‘ اس نے جواب دیا ہاں میں بھکرسے تعلق رکھتاہوں‘ وہ چپڑاسی میانوالی کے کسی علاقے سے تعلق رکھتاتھا۔ بولا ” درخواست دینے کے علاوہ کسی وزیر‘ مشیریاکسی بااثرشخصیت سے ٹیلیفون بھی کروایا؟“ نوجوان نے نفی میں جواب دیا۔

پھر چپڑاسی نے پوچھا” کوئی مال خرچ کرسکتے ہو؟“ نوجوان نے پوچھا ”کتنا؟“ چپڑاسی نے تو قیمت بتاکرحیران کردیاکہ اگر لاکھ سوا کرسکتے ہو تو تمہیں کوئی ایک سیٹ میں دلوا سکتا ہوں‘نوجوان نے مایوسی کے عالم میں سرجھکاکر کہااتنامیرے بس میں نہیں ہے۔ جاتے جاتے اس نے پوچھ لیا کہ کل دو کے علاوہ باقی کٹیگریز کے انٹرویوز کیوں منسوخ ہوئے تھے؟ چپڑاسی بولا ” کچھ نہیں بس انٹرویو کرنے والوں میں سے ایک صاحب نے بیوی بچوں کے ہمراہ شادی میں جاناتھا اس لئے وہ منسوخ کردئیے گئے بہانہ یہ کیاگیا کہ لسٹیں تیار نہیں ہوئیں۔

نوجوان کی سمجھ میں ساری بات آگئی اور وہ یہ بھی جان گیاکہ انٹرویو لینے والے چار یاپانچ افسران کے ہاتھ ایک اوردن کی آمدن آگئی۔
یہ صر ف اس نوجوان کی کہانی نہیں جو ہمارے پاس آیا بلکہ تقریباً ہرپڑھالکھانوجوان اس کیفیت سے دوچار ہوتاہے‘درخواستیں بھجوانے سے لیکرانٹرویوز تک ہر نوجوان کو ہزاروں خرچنے پڑتے ہیں۔ حکومتی ادارے دلیل یہ دیتے ہیں کہ چونکہ سیٹیں کم ہوتی ہیں اس لئے سبھی کوایڈجسٹ نہیں کیاجاسکتا‘ دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ جو ہماری ”ریکوائرمنٹ“ ہوتی ہیں اس پر اکثر امیدوار پورے نہیں اترتے۔

ہم نے ایسی ہی دلیل پیش کرنے والے افسر سے پوچھ لیا تھا کہ حضرت جی آپ کو باقاعدہ انٹرویو کرنے کامعاوضہ بھی مل جاتاہے‘ آپ نے کرنا صرف ہوتاہے کہ ڈگریوں کو اوپر سے نیچے دیکھا‘ بس فائل امیدوارکودوبارہ تھمادی۔ آپ یہ زحمت کیوں نہیں کرتے کہ اخبار میں چھپوائے گئے اشتہار میں یہ لکھ دیاکریں کہ ”ہماری ریکوائرمنٹ یہ ہیں“ ان پر پورا اترنے والوں کے علاوہ باقی امیدوا ر زحمت نہ کریں۔

افسر موصوف ہماری بات کا برا مان گئے۔ یہ دلیل بھی تسلیم شد کہ آسامیوں کی تعداد کم اور امیدوار زیادہ ہوتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ امیدواران درخواستوں کے ہمراہ ڈگریوں کی فوٹوکاپیاں بھی ہوتی ہیں ۔ درخواستیں وصول کرنے والا اگراتنی زحمت کرلے کہ ایوریج نکالنے کے بعد افسران کو لسٹ بناکردے کہ ہمارا میرٹ یہ ہوگا۔ اب اگر وہ محکمہ دوبارہ تشہیر نہ کرسکے تو کم ازکم انٹرویو کے دن نوٹس تو لگایاجاسکتاہے کہ ”ہمارا میرٹ یہ ہے اس سے کم تر حیثیت کے حامل امیدواران واپس جاسکتے ہیں“ تاہم ملک جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں میرٹ کی کہیں بھی حکمرانی نظر نہیں آتی۔

لہٰذا میرٹ کی بات توکرنا ہی گویا گناہ عظیم کے متراد ف ہے ۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ اگر متعلقہ محکمے پہلے سے ہی بھرتی کرلیتے ہیں تو پھر خدارا بیروزگاروں کے ساتھ انٹرویوز وغیرہ کے نام پر مذاق نہ کیاکریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :