کون بولے گا؟

بدھ 11 جون 2014

Ahmed Adeel

احمد عدیل

جب زبانوں پہ مصلحت کے تالے لگ جائیں، غیرت و عزت خوشامد کے گر د گھومنے لگے تب زندگی ایک نئی منزل کی طرف ٹرن لیتی ہے جہاں سے ذہنی اور جسمانی غلامی کا سفر شروع ہوتا ہے ، ذات پات، برادری سسٹم ، خوشامد، چاپلوسی، مصلحت اندیشی، ذہنی غلامی کی مختلف شکلیں، ایک بے سمت سوسائٹی ، ارد گرد کی کنفیو ز کر دینے والی آوازیں ، ہر گلی چوراہے میں دھنسی آنکھوں زرد چہروں والے انسان نما لوگ ، بھوک، حسرت، موت جن کے چہروں یہ لکھی ہے، آخر ویلیو کس چیز کی ہے؟ بس ایک بے سمت تلاش اور جذبات کی دھول سے اٹی منزلیں، سفر در سفر، کس لیے کیوں اور کس چیز کی تلاش؟ کچھ بھی نہیں ، صرف اور صرف جہالت کے اندھیرے کا سفر، چند خاندانوں کے کراہیت انگیز چہرے ان کی زہریلی تقرریں، روٹی کپڑا مکان، سولر لیمپ، لیپ ٹاپ، سڑکیں ، ٹیکسیاں، بنجر دماغ مردہ روحیں، احساس و ضمیر سے عاری انسان نما ردندے ،، ہم نے وطن عزیز کے لیے قربانیاں دیں، کون سی قربانیاں؟؟تم نے قربانیاں دی نہیں بلکہ قربانیاں لیں، اپنے اقتدار کے لیے، ہزاروں نسانوں کے کٹے ہوئے مردہ جسموں سے اٹھتی بدبو، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں کی خوراک بنتے انسان، اقتدار کے دیوتا کے چرنوں میں بہتا خون، لیکن جہالت کا ناچ نا چتی عوام نما مخلوق جو سب کچھ جاننے کا باوجود بھی ذہنی غلامی سے باہر نکلنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، کون سا مذہب، کون سا فرقہ، کون سا مسلک، ایک بھٹکا ہو ا بلٹ اور خاموشی، کو ن سا شہر ، کون سا صوبہ، سندھی،پنجابی، پشتون ، بلوچ، ہزارہ، پٹھان ، پھر چند اور بلٹس اور برسوں پر محیط خاموشی جس میں انسانیت کے بین، بھوک سے سسکتے بچوں کی گھٹی گھٹی سسکیاں اور کسی مجبور کی دم توڑتی آہیں،، لیکن فرق ہی کیا پڑتا ہے،، نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا،، راجہ گدھ کی زندگی جینے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا،،
ہم دنیا کی ساتویں اٹیمی پاور ہیں ، دنیا کا بہترین انٹیلی جنس سسٹم ہمارے پاس ہے ، ساتویں بڑی آرمی ہے، اب تھری جی بھی آ گیا ہے جلد ہی فور جی بھی اولیبل ہو گا، لیکن ہمارے پاس نہ بجلی ہے نہ پانی نہ روٹی نہ تعلیم نہ اخلاقیات، اٹیمی پاور ہیں لیکن لوڈ شیڈنگ کی دنیا میں سانسیں لے رہے ہیں، بہترین انٹیلی جنس سسٹم ہے لیکن ملک میں ہر جگہ آگ لگی ہے آرمی ہیڈ کوارٹر سے لے کر ائیرپورٹس تک کچھ بھی محفوظ نہیں، دنیا کی ساتویں بڑی آرمی ہے لیکن دہشت گردوں نے ملک کو آگے لگایا ہوا ہے، تھری جی ہے لیکن اس کا استعمال انٹرنیٹ کی طرح سوائے نفرت پھیلانے یا فحش مواد دیکھنے کے اور کچھ نہیں ، میرا لیڈر آوے ای آوے اور جب تک سورج چاند رہے گا جیسے نعرے ، لیڈر وہ ہیں جنہیں انسان کہتے بھی شرم آتی ہے ، ملک میں سو کالڈ گورنمنٹ اور وزیروں مشیروں کی آنیاں جانیاں، دوسری طرف ایران باردڑ سے کر کاشغر تک کچھ بھی محفوظ نہیں نہ جان نہ مال نہ عزت نہ عصمت․
حکمرانوں کو تو پتا ہے کہ یہ ان کا عارضی ٹھکانہ ہے کل کلاں وہ لندن دبئی یا سعودیہ بھاگ جائیں گے لیکن عوام نما مخلوق کی ترجیحات کیا ہیں؟ فیس بک پہ فیک پروفائل بنانا، یونیورسٹیوں میں مذہب و سیاست کے نام پر غنڈہ گردی کرنا، ایس ایم ایس پیکچز ، مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے غلامانہ حد تک سیاسی وابستگی، یا چرس سوٹا کلچر، اگر کچھ پازیٹیو ہو بھی رہا ہے تو نیگیٹو یٹی نے اس کو نظروں سے اوجھل کر رکھا ہے․ دنیا میں سب سے بڑا کڑوا سچ گراونڈ ریالٹی ہے ، آپ اونگیاں بھو نگیاں مار کر یا نفرت انگیز جھوٹ کے پردے کے پیچھے چھپ کر حقیقت سے فرار حاصل نہیں کر سکتے ، شاید بہت کم وقت باقی ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں، ہماری ترجیحات کیا ہیں اور وقت کا تقاضا کیاہے ․ہر کوئی زباں کو چپ کا تالا لگائے کھڑا ہے ، اس تالے کی وجہ صدیوں پر محیط غلامی ہے، جہالت ہے، مصلحت یا مفادات ہیں لیکن وقت انتظار کیے بنا اپنی رفتار سے گزر رہا ہے ، کل تک اٹوٹ انگ کی بھڑکیں مارنے والوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا تھا آج حالات اس بھی بدتر ہے اور دن بدن مزید بدتر ہوتے جا رہے ہیں سب جانتے ہیں کون سیاست کے پردے کی اوٹ لے کر ملک کو بیچ رہا ہے اور کون مذہب کا سہارا لے کر معصوموں کی گردنیں کاٹ رہا ہے ․لیکن زبانوں پہ چپ کے تالے ہیں اور انہی تالوں کی وجہ سے اردگعد آگ لگی ہے لیکن بجائے آواز بلند کے ہر کوئی اپنا گھر بچانے کی فکر میں ہیں ، بقول مجید امجد
کوئی کچھ بھی کہے کہے مجھے کیا
بات جومیرے دل میں ہے ، میں اگر
آج اپنی زباں پہ لا نہ سکا
کل میرے بعد تیری منڈلی پہ جب
آگ برسے گی کون بولے گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :