وفاقی بجٹ میں معذورافراد ایک بار پھر نظرانداز

پیر 9 جون 2014

Qasim Ali

قاسم علی

بجٹ کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک عام ٓادمی کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ اب کی بار حکومت عوام کیلئے کچھ ایسے اعلانات کرے گی کہ جس سے عوام کی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے ،غربت اور مہنگائی کم ہوگی اورروزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے وغیرہ وغیرہ مگر گزشتہ کچھ سالوں کے بجٹ ریکارڈ پر ایک سرسری سی نظرڈالیں تو یہی نظر آتا ہے کہ
بجٹ عوام کیلئے ایک خوف کی علامت بن گیا ہے لفظوں سے کھیلتے نام نہاد معیشت دان ہمیں بظاہر تو موبائل کمپنیوں کی طرح نئے نئے پیکجزکا تعارف کرواتے اور کئی خوشخبریاں سناتے ہیں مگر کچھ ہی عرصہ بعدبیچاری بھولی بھالی عوام کو پتا چلتا ہے کہ آئی ایم ایف اورایسے ہی دیگر اداروں سے قرض کی مے پینے والے کیا ہاتھ دکھا گئے ۔

لیکن اس وقت کچھ بھی نہیں ہوسکتا سوائے احتجاج کرنے کے۔

(جاری ہے)

کسی شاعر نے شائد اسی موقع کیلئے کہا تھا کہ

ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
بجٹ کے اچھے یا برے ہونے کے متعلق تو بہت کچھ لکھا گیا اور چند مزید دن بھی اس کو ڈسکس کیا جاتا رہے گا مگر آج ان صفحات میں بجٹ سے معذورافراد کی مایوسی کو بیان کرنا ہے کیوں کہ معذورافراد اس بات کی توقع کررہے تھے کہ اب کی بارانہیں ہمیشہ کی طرح نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور نوازحکومت جو کہ عموماََ غریب عوام اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کیساتھ ہمدردی کے نعرے لگاتی رہتی ہے اور اس کو عملی جامہ بھی پہناتی ہے (لیکن ان کے مرنے کے بعدانہیں چندلاکھ امداد دے کر)اورخصوصاََ جب یہ بجٹ ٹھیک ایسے وقت میں پیش کیاگیا جب معذورافراد کے حقوق سے متعلق ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر ہے اور جس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کررہا ہے ۔

ایسے میں پاکستان کے پونے دوکروڑ معذوریہ توقع رکھ رہے تھے کہ شائد حکومت اقوام متحدہ کے معذورافراد کے حقوق سے متعلق united nations commission for persons with disabilitiesاور national rehabilitation and employment act 2011کے پیش نظر معذوروں کو معاشرے میں درپیش گوناگوں مسائل کے حل اور ٹھوس اقدامات کیلئے خطیر فنڈز مختص کرے گی مگر پورے بجٹ میں معذورافراد کاتذکرہ آیا بھی ایک جگہ جہاں یہ کہاگیا کہ سالانہ پچاس لاکھ آمدن کے حامل معذورافراد کو نصف ٹیکس کی رعائت حاصل ہوگی۔

سبحان اللہ کیا فیاضی ہے ۔میری اس پر کئی معذورافراد کے نمائندہ دوستوں سے بات ہوئی اور تقریباََ سبھی نے اس پر اتفاق کیا کہ حکومت کی چند ایک خوشحال معذور افراد پر یہ ''فیاضی''کسی سنگین مذاق سے کم نہیں اور وہ معذوروں کے حقیقی مسائل حل کرنا ہی نہیں چاہتی ورنہ جب حکومت پچاس لاکھ کی آمدن والے معذورافراد کو ٹیکس رعائت دینے کی پالیسی بنا رہی تھی اس وقت ان معذورافراد پر بھی جانی چاہئے تھی جن کی پچاس لاکھ آمدنی تو دور کی بات ان کو اتنی گنتی بھی نہیں آتی
یا انتہائی خراب حالات میں وہ ایسی زندگی بسر کررہے ہیں کہ شائد اب ان کے پچاس لاکھ سانس بھی باقی نہ ہوں مگر واہ ری حکومت تیرے کیا کہنے معذوروں کو سہولت دینے کیلئے انتخاب کیا بھی تو اپنے ہی ''پیربھائیوں''کا۔


اس بجٹ کی ایک اور خاص بات ملتان میں میٹروبس اور لاہور میں میٹروٹرین کے منصوبوں کا آغاز ہے ملتان میٹربس منصوبہ کیلئے چالیس ارب روپے کی رقم بجٹ میں مختص کربھی دی گئی ہے اسی طرح میٹر ٹرین منصوبہ پر ڈیڑھ کھرب روپے لاگت آئے گی ۔اگرچہ عوام کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے جس کیلئے میاں شہبازشریف کی کوششیں لائق تحسین ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی چیزیں خوشحالی میں ہی جچتی ہیں نہ کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک کی سب سے بڑی کمیونٹی معذورافراد پر مبنی ہو اور حکومتی و معاشرتی بے حسی و بے اعتنائی کے ہاتھوں عاجز آکر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہو ۔

میراخیال ہے اگر اگر حکومت ان دو ہی منصوبوں پر آنے والی لاگت کو معذورافراد کی بحالی اور ان کو روزگار اور سہولیات کی فراہمی پر خرچ کردیتی تو اس سے معذورکمیونٹی کے ایک بڑے حصے کی زندگیوں میں انقلاب پرپا ہوجاتا خصوصاََ وہ معذورلوگ جو انتہائی باصلاحیت اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجودصرف وسائل نہ ہونے کے باوجود گھروں میں بیکار بیٹھے گل سڑرہے ہیں اور اپنے ہی گھروالوں پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں یقین کریں یہ لوگ ذرا سی ہمت ،حوصلہ افزائی اور وسائل کی دستابی سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتے ہیں کہ پوری دنیا حیرت زدہ رہ جائے مگر ضرورت صرف مخلصانہ کوششوں کی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :