کتے بمقابلہ چمچے

ہفتہ 7 جون 2014

Hussain Jan

حُسین جان

چمچے عمومادُنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر ان کی اکثریت پاکستان سے تعلق رکھتی ہے۔ چمچوں سے مراد کھانے والے نہیں بلکہ ہر وقت صاحب کے بوٹ چاٹنے والوں سے ہے۔ جو جتنا بڑا چمچا اُس کے لیے اُتنا ہی بڑا عہدہ چاہے چمچا میڈیا سے تعلق رکھتا ہو چاہے کسی اور ادارے سے بس اس کے لیے شرط وقتی وفاداری کی ہے۔ زیادہ تر چمچے الیکشن میں کھنکتے پائے جاتے ہیں دیکھو دیکھو کون آیا کہ نعرے لگا لگا کر ہلکان ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت وہی کامیاب ہے جو صاحب کی چمچا گری کرئے ۔ کوئی بوڑد کا سربراہ کوئی پی ایج اے میں عیش میں کوئی ایڈوائزر کوئی ریلوئے میں سب چمچوں کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ہیں بلکہ ان کے بچے تک صاحب سے کچھ نہ کچھ وصول لیتے ہیں۔
کسی ادیب نے لکھا ہے کہ ایک کتا دوسرے کتے کو کہتا ہے کہ یہاں سے بھاگ جا ورنہ انسان تجھے انسان کی موت مار دیں گے۔

(جاری ہے)

ویسے تو کتوں کی بیشمار اقسام پائی جاتی ہیں ،جیسے کے خارش زدہ کتے جو ہر وقت اپنے جسم کو کھجاتے رہتے ہیں اور بدن کی نجاست پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت مالک کے آگے دم ہلانے کو اپنا اولین فرض گردانتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی یہ قسم تھوڑی خطرناک ہوتی ہے کہ ان کو جتنا بھی سمجھایا جائے یہ سمجھنے کے نہیں۔

ٹیری دم کے کتے اکثر اوقات اپنے مالک کو بھی کاٹنے سے باز نہیں آتے۔ یہ ہر وقت موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کب کوئی ہڈی آئے اور یہ لپک کر اُس کو پکڑ لیں۔ کچھ کتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت بھونکتے رہتے ہیں مگر کاٹتے نہیں۔ ایسے کتے اکثر اپنے مالک کو مصیبت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ کتوں میں بھی دانشور نسل پائی جاتی ہے جو ہروقت سوچ و بچار میں مگن رہتی ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک گھر میں کچھ کتے رہتے تھے مالک نے اُن کو سختی سے حکم دیا ہوا تھا کہ وہ ساری رات بھونکتے رہا کریں تاکہ چور اُچکوں کو دور سے ہی پتا چل جائے یہاں کتے رہتے ہیں اس کا فائدہ یہ ہو گا کو چوروں کو اس گھر میں چوری کا خیال نہیں آئے گا۔ تو ایک رات ایک کتا چپ کر کے سوچتا رہا تو دوسرے کتوں نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں بھونک رہے تو جناب نے اپنی دانشوری جھاڑتے ہوئے کہا کہ بھائی "وڈنی تے دندی ہے رولا پان دا کی فائدہ"یعنی کاٹنا ہی تو ہے شور مچانے کا کیا فائدہ۔

اس کے علاوہ بھی کتو ں کی کافی نسلیں موجود ہیں ،ایک قصائی کی دُکان کا کتا بھی ہوتا ہے جو بچے کچھے چھچڑوں پر پلتا ہے۔ اس نسل کے کتے کسی کے بھی سکے نہیں ہوتے نہ ہی اُن کا کوئی مالک ہوتا ہے۔ یہ آوارہ گرد کتے اکثر اوقات گاہک سے خریدا ہوا گوشت بھی لے اُڑتے ہیں۔
اب آتے ہیں چمچوں کی طرف ہمارے ملک میں ان کی بھی بہت سی اقسام موجود ہیں۔ ایک چمچہ ہوتا ہے سونے کا جسے ہمارے لیڈران کے بچے منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔

لیکن یہ چمچے اعلیٰ نسلوں کے ہوتے ہیں اور ان کا کام کانسی کے چمچوں پر حکومت کرنا ہوتاہے۔ کچھ چمچے ہر وقت صاحب کے پیچھے پیچھے رہتے ہیں اور ہر اُس جگہ کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر اُن کے صاحب نے بیٹھنا ہو۔ کتوں کا تو کوئی موسم نہیں ہوتا کہ وہ تو ہر موسم میں پائے جاتے ہیں۔ مگر چمچوں کا ایک خاص موسم ہوتا ہے یعنی کے الیکشن کا۔ جب الیکشن کا موسم شروع ہوتا ہے تو یہ اپنے اپنے بل سے باہر آتے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی کے لوگوں کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ان کا کام سارا سارا دن انتخابی دفتروں میں بیٹھ کر صاحب سے اپنے تعلقات بیان کر کے لوگوں پر رعب جھاڑنا بھی ہوتا ہے۔ چمچوں کی ایک قسم سرکاری دفاتر میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہاں یہ کچھ کام کاج تو کرتے نہیں بس صاحب کے آگے پیچھے پھرتے اور خوشامد کرتے پائے جاتے ہیں۔ چمچہ چاہے دیگ کا ہو یا سیاسی لیڈر کا دونوں صورتوں میں اس کا کام ہل جھل کرتے رہنا ہے۔

کتوں کے بارے میں کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کے وہ وفا دار ہوتے ہیں اس طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ چمچے بھی کافی حد تک وفادار پائے جاتے ہیں۔ لیکن آخر الذکرکا کوئی بھروسہ نہیں کہ یہ کبھی بھی دغا دے سکتا ہے۔ ان چمچوں کا پسندیدہ نعرا "قدم بڑھاؤ ہم تمارے ساتھ ہیں" ہوتا ہے۔ لیکن جب ان کے چمچوں کے نعروں کے زیر اثر لیڈر قدم بڑھاتا ہے تو یہ پیچھے سے غائب ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں لیڈر صاحبان کو جیل کی ہوا کھانہ پڑتی ہے ۔

اس کی زندہ مثال ہمارے سابقہ لیڈر پرویز مشرف ہیں کہ جب اقتدار میں تھے تو سب چمچے ہر وقت ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے تھے مگر جب ضرورت پڑی تو سب کے سب غائب ہو چکے ہیں۔ بلکہ میڈیا کے لیے ہاٹ کیک بنے ہوئے ہیں۔
َلہذا ہمارا تو کہنا یہ ہے کہ ان دونوں قسم کی مخلوق سے بچ کر رہنا چاہیے ان پر کبھی اتنا بھروسہ نہ کروکہ برے وقت میں دغا دے جایں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے لیڈروں اور اعلیٰ افسران کو اُن دونوں مخلوقوں سے کافی لگاؤ ہوتا ہے۔

اور جب یہ دھوکہ دے جاتے ہیں تو بیٹھ کر ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔ یہ مفاد پرست لوگ ہوتے ہیں جہاں نفع نظر آتا ہے اُدھر ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ ان سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمارے نس میں خون کی طرح یہ لوگ بھی دوڑتے ہیں۔اور ہمارے صاحب اقتداران بھی ان کو نوازتے رہتے ہیں کیونکہ یہی لوگ تو ان کے مشیر بھی ہوتے ہیں اور صاحب کو ہر وہ کام کرنے کا مشور ہ دیتے ہیں جس سے صاحب مصیبت میں پھنس جائے اوریہ صاحب کی سیٹ پر براجمان ہو جائیں۔ ویسے آجکل ہمارے لیڈروں نے چمچوں کی جگہ اپنے رشتہ داروں اور بچوں کو دے رکھی ہے کہ مستقبل میں انہی کو اس قوم پر حکومت کرنی ہیں کیونکہ چمچے بعض اوقات کوئی بڑا حصہ مانگ لیتے ہیں جو اُن کو دینا مشکل مگر اپنوں کے دینا آسان ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :