حکومت کے خلاف گرینڈالائنس کی تیاریاں

بدھ 4 جون 2014

Zakir Hussain Naseem

زاکر حسین نسیم

اگرچہ گیارہ مئی 2013کو نواز حکومت کے قیام کے فوراََ بعد ہی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگنے شروع ہوگئے تھے لیکن پاکستان مسلم لیگ سمیت کئی جماعتوں نے اس وجہ سے خاموشی اختیار کرلی کہ نوازحکومت کو پورا موقع دیاجائے اور ان کو سپورٹ کیا جائے کہ وہ اپنی اس ٹیم کی کارکردگی سے عوام کو درپیش مسائل کو حل کریں کہ جس منظم ٹیم کادعویٰ میاں برادران پوری الیکشن کیمپین میں کرتے رہے تھے مگر اب ایک سال گزرنے کے بعد جب ہم حکومت کی کارکردگی پر نظرڈالتے ہیں تو وہ افسوسناک حد تک انتہائی کمزور نظرآتی ہے اور وہ ٹیم جس کا تذکرہ کرتے میاں صاحب تھکتے نہیں تھے وہ تو یوں غائب ہوگئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔

یہ بات البتہ اپنی جگہ درست ہے کہ میاں برادران خود اچھے انسان ہیں خصوصاََ شہبازشریف صاحب ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں جو انتھک محنت کرتے ہیں اور جس کا تذکرہ میں نے گزشتہ دنوں اپنے دوست مجیب الرحمان شامی صاحب کے پروگرام میں بھی کیا مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا اس کیلئے اسے ایک قابل ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے اور میاں صاحب کو کبھی بھی اچھی ٹیم نہیں مل پائی ان کی کچن کابینہ میں شامل لوگوں کی ترجیح شائد کبھی بھی وہ عوام نہیں رہی جو انہیں اس مقام تک پہنچاتی ہے ان کے قریبی ساتھیوں میں ہمیشہ وہی لوگ رہتے ہیں جو ہمیشہ ان کوقومی ایشوز پہ misguideکرتے ہیں جس کا خمیازہ میاں صاحب کو کبھی حکومت سے بے دخلی اور کبھی ملک بدری کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے لیکن ان سب باتوں اور دھاندلی کے الزامات کے باوجود دیگر سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ ن پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں عوام کی خدمت کا موقع دینے کا فیصلہ کیا کہ شائد میاں برادران اب کی بار جس ٹیم کا انتخاب کریں گے وہ واقعی ملک میں انقلاب برپا کردے اور ملکی حالات سنواردے مگر اس کے برعکس ہوا یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد میاں برادران کے اردگرد وہی خوشامدی اور مفاد پرست ٹولہ اکٹھا ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج عوام کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے مائیں اپنے بچوں کو غربت و بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خود قتل کررہی ہیں امن و امان کی صورت ھال یہ ہے کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں اسلام آبادا و راولپنڈی جیسے حساس ترین علاقے بھی محفوظ نہیں ۔

(جاری ہے)

میاں صاحب کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حکم کے بغیر کوئی ایس ایچ او تک بھرتی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے میرٹ کی بجائے نااہل لوگ محکموں میں بھرتی ہورہے جن کی کارکردگی صفر ہوتی ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں لاہور میں ہائیکورٹ کے بالکل سامنے پولیس کی حفاظت میں ہونے کے باوجود فرزانہ نامی خاتون کو اینٹیں مار مار کر قتل کردیا گیا اور پولیس ہاتھ باندھ کر یہ سب ظلم ہوتا دیکھتی رہ گئی ۔

اس کیساتھ ساتھ حکومت کا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ بھی ایک مذاق بن کے رہ گیا کہ ہم لوڈشیڈنگ تین ماہ اور چھہ ماہ میں ختم کردیں گے مگر ایک سال بعد بھی یہ عالم ہے کہ سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ایک معمول کی بات ہے ۔ملکی معیشت کی طرف دیکھیں تو اسحاق ڈار صاحب آئے روز ڈالر کے گرنے کی خوشخبریاں تو دیتے ہیں مگر عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا وہ آج بھی روٹی کے ایک ایک لقمے اور صاف پانی کو ترس رہی ہے ،اور وہ جو گزشتہ حکومت کویہ طعنے دیتے تھے کہ وہ ملک کو قرضوں میں جکڑ رہے ہیں اور ہم کشکول توڑ دیں گے ان کا یہ عالم ہے کہ صرف ایک سال میں ہی بیرونی قرضوں کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹتے نظرآرہے ہیں ابھی حال ہی میں ورلڈ بنک نے بھی پاکستان کو ساڑھے بارہ ارب ڈالر قرض دینے کا وعدہ کرلیا ہے جس کے بعد ملک میں ٹیکسوں اور مہنگائی کا ایک او زبردست طوفان آئے گا۔

اور سب سے خطرناک بات جس نے دیگر سیاسی جماعتوں کو متحد کیا وہ حکومت کی دیگر اداروں کی طرح ملک کے منظم ترین ادارے آرمی اور آئی ایس آئی کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے کیوں کہ پاکستان آرمی ہی وہ واحد منظم ترین ادارہ ہے جوملکی دفاع و سلامتی کا ضامن ہے اور دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے اور اس کو کمزور کرناملک کو کمزورکرنا اور اس کے خلاف سازش کرنا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک وزیردفاع اپنی ہی فوج پر کیچڑ اچھال رہا ہے اور گزشتہ ایک نجی چینل کی جانب سے آئی ایس آئی چیف کو مجرم ثابت کرنے کو ششوں کے پیچھے بھی حکومت کے ہاتھ کے ملوث ہونے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جارہا جبھی تو حکومت کی ہمدردیاں آج بھی اس چینل کیساتھ ہیں اور پیمرا کے اجلاسوں میں سرکاری ارکان غائب ہوتے ہیں۔

اسی تمام تر پریشان کن صورتحال نے ہی اپوزیشن جماعتوں کو سرجوڑنے کا موقع دیا ہے اور چوہدری برادران ،عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیاں روابط شروع ہوگئے بلکہ حال ہی میں چوہدری برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے درمیان لندن میں ملاقات کو مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں انتہائی اہمیت کا حامل قراردیاجارہا ہے اگرچہ فی الحال اس ملاقات میں عمران خان شامل نہیں ہوئے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ عنقریب الطاف حسین اور خاں صاحب بھی اس اتحاد کا حصہ ہوں گے دوسری جانب یہاں پاکستان میں شیخ رشید اور سنی تحریک پہلے ہی حکومت کے خلاف کھڑے ہوچکے ہیں اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر سیاسی مبصرین کے مطابق 2014ء کو انتخابات کا سال بھی ہوسکتا ہے اب اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ بہت جلد واضح ہوجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :